• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26 دسمبر 1991کو سویت ایمپائر تحلیل ہونے سے 44 سالہ سرد جنگ 1947-91) ء)کا جو خاتمہ ہوا، جدید عالمی تاریخ میں یہ ایک سنہری اور عظیم موقع تھا کہ کرہ ارض پر ہزار ہا سال جاری جنگ و جدل اور اقوام کے غلبے اور ہوس ملک گیری کا ماحول ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتا۔ دنیا حقیقی معنوں میں انسانیت کو مطلوب پائیدار امن و استحکام کا گہوارا بن جاتی اور دنیا کا ہر انسان اور قوم میرٹ پر کسی بھی قوم کے اعلیٰ و مثبت کردار کو دل و جان سے تسلیم کرتی اور اس سے متاثرہوتی، فطری طور پر اس کی مقلد ہو جاتی، یوں باصلاحیت ترین از خود دنیا میں غالب ہو جاتی۔ اس خواب کی تعبیر نکلتی نظر آ رہی تھی جیسے جیسے سرد جنگ، جو سرد ہونے کے باوجود گرم اور تباہ کن جنگ میں تبدیل ہونے کے مسلسل خطرے سے دوچار تھی، کہ سوویت یونین اور امریکن اینگلو بلاک وسیع تر تباہی پھیلانے والے غلبے کے ڈھیر پر قائم ہوئے تھے۔

تہذیب انسانی کے ارتقائی عمل کے نتیجے میں تشکیل پاتی جدید دنیا کا یہ عظیم المیہ ہے کہ ہزاروں سال کی جنگ و جدل سے آلود انسانی زندگی کو پائیدار عالمی امن کے ناممکن سے ہدف کے عظیم تر حصول کا سنہری موقع 9/11 سے شروع ہونے والی ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔ اس تبدیل ہونے کے عمل میں سوویت یونین کے خاتمے کا فتح یاب پورا امریکن ’’اینگلو بلاک‘‘ افغانستان کو مرضی کی ریاست میں تبدیل کرنے کے عذاب میں پھنس کر رہ گیا۔ مسئلہ فلسطین جو کیمپ ڈیوڈ سے درمیانی راہ اختیار کر کے حل ہوتا نظر آنے لگا تھا، ’’ففھ جنریشن وار‘‘ تشکیل دینے والوں کی پہلی ’’فتح‘‘ یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیلی دار الحکومت میں تبدیل کرنے سے پائیدار عالمی امن کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ 9/11اور اس عالمی المیے سے ایک عشرہ قبل اور اسکے درمیان جو کچھ ایران ، عراق، شام، پاکستان، افغانستان اور میانمر میں ہو گیا اور کیا گیا، اب جو مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے وہ فقط مسلم دنیا کیلئے ہی نہیں پوری دنیا کیلئے الارمنگ ہے، جسے اقتصادی غلبہ حاصل کرنے والی قوتوں میں نئی عالمی سیاسی کشمکش کا چیلنج درپیش ہے اس سے قبل کہ اقتصادی غلبے کی سیاست کوئی اور بڑا اور نیا رنگ دکھائے، دنیا کا ایک بڑا حصہ مشرق وسطیٰ اور اس کے مشرقی اور جنوبی خطے آشوب زدہ ہیں، اس متاثرہ خطے کا ایک بڑا حصہ اقتصادی مسائل سے بھی دوچار نہیں لیکن جنگ وجدل میں مبتلا یا اس کے خطرے سے دوچار ہے۔ افغانستان اور پاکستان اس کے سب سے زیادہ متاثرہ مماک ہیں،اور سینٹرل ایشیا کی 8 لینڈ لاکڈ ریاستیں آزاد ہو کر بھی اپنی فطری آزادی و ترقی کی منتظر ہیں کہ کب افغانستان غیر ملکی افواج سے چھٹکارا پا کر اپنی یہ مطلوبہ راہ اختیار کرے۔ اس سارے پس منظر کو لئے امریکہ کی انوکھی منتخب قیادت اقتدار حاصل کرنے کے بعد مسلسل کنفیوژن کا شکار ہے۔ اس نے نہ اپنی سابقہ حکومتوں سے کوئی سبق سیکھا نہ خود کوئی ایسی پالیسی اختیار کی کہ خطے میں اپنے تحفظات کو بھی محفوظ کر لیتی اور خود افغانستان اور پاکستان نئے فطری اقتصادی روپ میں آ کر پورے خطے اور ہمسایہممالک میں امن و امان و استحکام کا ذریعہ بنتے۔ پاکستان اور خطے کے مسلم ممالک خصوصاً آزاد فلسطین ریاست کی جانب اپنے جارحانہ طرز عمل سے صدر ٹرمپ امریکہ کیلئے کچھ بھی تو حاصل نہ کر سکے، الٹا وہ افغانستان، عراق اور شام کی دلدل میں پھنس کر امریکہ کیلئے نئی طرز کی مشکلات و اقتصادیات کی گرتی صورت کا باعث بنے۔

اب سنٹرل ایشیا پاکستان و افغانستان سے امریکہ کی بڑھتی دوری کی حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے تو صدر ٹرمپ کو پاکستان اور اس کی بدلتی صورتحال کی اہمیت اور حساسیت کا اچانک احساس ہوا ہے یا انہیں بڑی سفارتی محنت و تگ و دو سے آمادہ کیا گیا ہے تو وہ اب ہاتھ سے نکلتے پاکستان کو سنبھالنا چاہتے ہیں، جس کا انہوں نے کھلا اظہار کیا ہے۔ ’’نئے پاکستان‘‘ کی نئی اور مختلف قیادت سے تعلقات بہتر بنانے کا اظہار کر رہے ہیں اور سرد مہری کی تاولیں پیش کر رہے ہیں جس میں بڑی بات یہ ہے کہ ہم ہی کیوں افغانستان میں پھنسے رہیں، پاکستان بھی ہماری طرح طالبان سے لڑے، وہ پاکستان، جس کے بارے میں اس کے اپنے سیاستدان اور بیرون ملک بین الاقوامی ماہرین الزامات لگا رہے ہیں کہ 9/11کے المیہ پر پاکستان کی سول، ملٹری حکومت نے امریکی صدر کی فقط ایک کال پر خود کو اس کے سامنے ڈھیر کر کے، افغان سخت گیر طالبان حکومت کے خلاف فقط وار پارٹنر ہی نہیں بلکہ غیر معمولی حد تک امریکہ کو وہ تعاون فراہم کیا جس کا خود بھی بش انتظامیہ کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان یہ کردار اتنی آسانی سے ادا کر دے گا۔ 9/11 کے حوالے سے امریکہ پر تو یہ بہت جلد واضح ہو گیا تھا کہ اس میں دور دور تک ریاست پاکستان کہیں نہیں آتی، البتہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے مخصوص تشخص کو 9/11 ڈیزائن کرنے والوں نے اپنی پناہ گاہ بنایا ہوا ہے۔

پاکستان نے کمال عسکری مہارت سے، امریکہ نیٹو فورسز کی افغانستان میں مکمل ناکامی کے بعد، اپنے قبائلی علاقوں کا ’’خطرناک امتیاز‘‘ جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جو ہمسائے میں تعینات بین الاقوامی افواج کیلئے کبھی ہدف نہ بنا کہ یہ تاریخی پس منظر میں ایک خطرناک ترین کھیل ثابت ہوتا۔ خود افغانستان میں جو امریکہ اور نیٹو کو ناکامی ہوتی ہے وہ اس امر کی تصدیق کر رہے تھے کہ پاکستان میں شمالی وزیرستان کے چھتے میں میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔

آج امریکی انتظامی اور وہ بھی صدر ٹرمپ کی، کو سمجھ آ گیا ہے کہ افغانستان کے حقائق کیا ہیں؟ وہی جو پاکستان سمجھاتا رہا، ایک نئی حقیقت یہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کو سمجھ آئی کہ اب پاکستان پر دبائو ڈال کر اس سے وہ کچھ نہیں کرایا جا سکتا جو 9/11 کے پیدا ہونے والا اشتعال میں منوا لیا گیا لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی مزید حقیقت پسندی اور جرات کا مظاہرہ کرنا ہے وگرنہ وہ دنیا کی ایک اور بڑی طاقت کی عالمی تقسیم کے ذمہ دار ہوں گے۔ جس میں انہیں سمجھ آتی جا رہی ہے کہ ’’امریکہ کا فطری اتحادی‘‘ بھارت سے کہیں آگے پاکستان ہی پھر وہ کردار ادا کرے گا جو پہلے امریکہ نواز تھا اور اب عالمی اقتصادی ترقی کی راہیں کھولنے، انہیں بڑھانے اور ان کی حفاظت میں وہی کردار ادا کرے گا جو اس نے سرد جنگ میں کمیونزم کی وسعت کو روکے رکھنے میں ادا کیا۔ امریکی انتظامیہ جتنی جلد اس امر کو سمجھ لے کہ نئی عمران حکومت نے اب عالمی امن اور عالمی اقتصادی خوشحالی میں پارٹنر بننے اور کسی صورت جنگ میں اتحادی نہ بننے کی جو نئی پوزیشن لی ہے، اس میں امریکہ کی تائید ہر دو روایتی اتحادیوں کیلئے ہی نہیں خطے اور عالمی امن کیلئے نتیجہ خیز ثابت ہو گی امریکہ کے تھنک ٹینکس تو اسے تیزی سے سمجھ رہے ہیں۔ دیکھیں ٹرمپ انتظامیہ کی رفتار کیا ہوتی ہے۔

تازہ ترین