• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس دن ملک حاکمین خان کے نظرانداز کئے جانے پر کالم شائع ہوا، وہ اسی دن یہ دنیا چھوڑ کر دوسرے جہان رخصت ہوگئے۔نظرانداز کئے جانے کا یہ کرب جہانگیر بدر کو بھی تھا، ہزاروں سیاسی کارکن نظرانداز کئے جانے کا یہ کرب لے کر قبروں میں چلے گئے، میں تو صرف رہنمائوں کا ذکر کر رہا ہوں۔پتہ نہیں ہماری سیاسی جماعتوں نے دولت کا کیا ڈھونگ رچایا ہے کہ وفا کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی۔اس موضوع پر تھوڑی دیر بعد بات کرتا ہوں پہلے تھوڑا سا ذکر داستانِ سفر کا ہو جائے۔

ہفتے کے دن بھلوال گیا، ضلع سرگودھا کا یہ علاقہ کینو اور مالٹے کے لئے مشہور ہے ۔ سورج طلوع ہوتے مناظر کے ساتھ سفر شروع ہوا، برادر ہمہ وقت علی رضا علوی ہمرکاب تھے۔ بھلوال جانے کا ایک ہی مقصد تھا، کالج کے زمانے کے دوست علی جعفر نقوی اور علی باقر نقوی کے والد گرامی کے انتقال پر تعزیت کرنا۔یہاں ندیم افضل چن بھی آ گئے ہمارے سچ بولنے والے دیسی سیاست دان، بڑے بڑے کڑوے سچ بولنا ندیم افضل چن کی عادت ہے، سرگودھا پریس کلب کے روح رواں شہزاد شیرازی سے بھی یہیں محبت بھری ملاقات ہوئی۔فاتحہ خوانی کی صف پر پنجابی کے شاعر اصغر حسین شامی بھی آگئے۔پھر اس کے بعد ایک داستان چھڑ گئی ۔یہ داستان چوہدری علی بخش وڑائچ اور ان کے صاحبزادوں فیض رسول وڑائچ اور چوہدری خالد وڑائچ پر مشتمل تھی ، ان کی اگلی نسل کا بھی تذکرہ ہوا، خیر یہ پرانی باتیں ہیں، لوگوں نے نئی دنیا کا روپ دھار لیاہے، ہم پرانے قصے لئے بیٹھے ہیں جو لکھن وال سے شروع ہو کر جوہر آباد سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا داستانوں سے بھری ہوئی ہے، داستانوں سے جڑی ہوئی ہے۔جب دن اپنے عروج کو چھو کر شب کی گود میں چھپنے کیلئے بھاگ رہا تھا تو بھلوال سے روانگی ہوئی،دن اور رات کے ملنے کا منظر سڑک پر گزر گیا، رات کو مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ راجہ ناصر عباس کے ہاں عشائیہ تھا، سو ان کے پاس پہنچ گئے، خوب گپ شپ ہوئی۔ بھلوال سے جلدی واپس آنا تھا مگر کوئی عورت جب میکے جاتی ہےتو واپسی پر تاخیری حربے استعمال کرتی ہے، علی رضا علوی عورت تو نہیں مگر بھلوال جاکر عورتوں کی طرح اس کی یہ محبت جاگ گئی۔انسان اپنی مٹی سے کس قدر پیار کرتا ہے، شاید اس میں عورت اور مرد کی تقسیم نہیں ہے، عورتوں کے لئے دنیا نے میکے کا نام دے رکھا ہے جبکہ مردوں کیلئے اسے جائے پیدائش یا جنم بھومی کہا جاتا ہے۔اتوار کے دن اٹک میں تھا۔اپنے پیارے مرحوم دوست ملک حاکمین خان کی تعزیت کیلئے شین باغ گیا، ملک صاحب کے فرزند شاہان ملک سمیت ان کے خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات ہوئی۔سرمد خان کے علاوہ ملک صاحب کے پوتے ملک شہ زور خان بھی وہیں تھے، جونہی شاہان ملک ،شیخ آفتاب اور مہدی شاہ کو الوداع کہنے کیلئے اٹھے تو معظم علی خان میرے پاس آ گیا، پیپلز پارٹی کا پرانا ورکر، اس نے آٹھ سال کی عمر سے پیپلز پارٹی کے ساتھ خود کو وابستہ کر لیا تھا۔ انہوں نے ایک داستان سنائی تو میں ہکا بکا رہ گیا۔یہ پچھلے برس کا قصہ ہے جب اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کا جلسہ ہوا، زرداری صاحب نے اس جلسے میں دھمال ڈالی تھی ۔ملک حاکمین خان بھی ایک بڑے قافلے کے ساتھ وہاں پہنچے۔جب ملک حاکمین خان نے اسٹیج کا رخ کیا تو جواب آیا آپ کا نام نہیں ہے، منتظمین کو بتایا گیا کہ یہ شخص پیپلز پارٹی کا بنیادی رکن ہے، 1967ءسے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے، جیلیں کاٹ چکا ہے، بھٹو صاحب نے اسے وزیر بنایا تھا، پچاس سال سے زائد پارٹی کے لئے خدمات ہیں، اب پیپلز پارٹی کی جھولی میں اتنا پرانا رہنما کوئی نہیں۔ پھر جواب آیا کہ ملک حاکمین خان کا نام اسٹیج پر بیٹھنے والوں میں نہیں۔دکھی داستان بیان کرنے والا معظم علی خان لمحے بھر کے لئے رک گیا اور پھر بولا:اس دن ہمارے دل ٹوٹ گئے تھے کہ جس شخص نے بھٹو اور پھر بےنظیر بھٹو کی قبرسے وفا کی، جو بلاول سے پیار کرتا ہے اگر اس شخص کی یہ حالت ہے تو ہماری کیا ہو گی، ہم پارٹی میں تو رہے مگر ہمارے دل ٹوٹ گئے، اچاٹ ہوگئے‘‘ شاہان ملک لوٹا تو میں نے اس سے یہ سب کچھ پوچھا، اس نے ایک اور داستان سنا ڈالی، کہنے لگا ’’پیپلز پارٹی کے چوہدری منظور میرے پاس آئے تو میں نے ان سے دو سوال کئے، کیا بھٹو صاحب وژنری لیڈر تھے اور کیا وہ مردم شناس تھے؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں بالکل، اس جواب کے بعد میں نے چوہدری منظور سے پوچھا تو یہ بتائیے کہ جس شخص کو بھٹو صاحب نے پانچ وزارتیں دے رکھی تھیں، آپ لوگ اسے کیوں نہ پہچان سکے، کیوں نہ اس کی قدر کر سکے؟ اس سوال کے جواب میں چوہدری منظور کے چہرے پر پریشانی آگئی، ان کے پاس خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا‘‘۔

خواتین و حضرات! یہ ہے آج کی پیپلز پارٹی، جس پنجاب نے بھٹو کو محبت دی تھی، اقتدار میں بھی بھٹو صاحب پنجاب ہی کے باعث آئے تھے، آج وہاں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو سینکڑوں کے حساب سے ووٹ ملتے ہیں، اب پارٹی پر وفاداروں کا راج نہیں، وفادار قبروں میں چلے گئے، جو چند ایک ہیں انہیں ’’نکرے‘‘ لگا دیا گیا ہے، کیا کیا جائے پیپلز پارٹی وفا کی بجائے دولت کی قدر دان بن گئی ہے، یہی چلن اسے لے ڈوبا ہے، پھولوں، تتلیوں اور محبتوں کے دیس میں پرانی داستانوں میں محسن نقوی کا شعر یاد کیجئے کہ

سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں

شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

تازہ ترین