• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اداکاری کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی، رمشا خان

فن کسی کی میراث نہیں ہوتا، قدرت جسے چاہتی ہے، فن کی دولت سے مالا مال کردیتی ہے۔ اسکول میں پڑھنے والی لڑکی نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ شوبزنس کی دُنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھولے گی اور ہزاروں ناظرین کے دلوں پر حکم رانی کرے گی۔ زندگی میں اک پل ایسا بھی آیا کہ اس کی زندگی بدل ڈالی۔ وہ راتوں رات عام لڑکی سے اسٹار بن گئی۔ صرف دو تین برس میں وہ سفر طے کرلیا، جسے کئی فن کاروں کو طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔ جی ہاں قارئین ہم بات کررہے ہیں، پڑھی لکھی، خوب صورت اور ذہین اداکارہ و ماڈل رمشا خان کی۔ انہوں نے چند برس قبل اپنا فنی سفرشروع کیا اور دیکھتے دیکھتے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ ڈراما ہو یا فلم، انہیں جو کردار ملا، ہر کردار میں حقیقت کا رنگ بھردیا اور کردار میں ایسے ڈوب جاتی ہیں کہ ناظرین کو وہ کردار ہمیشہ یاد رہ جاتا ہے۔ ڈراما سیریل ’’وہ اک پل‘‘ میں ’’حنا‘‘ کے روپ میں جان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اوراپنے ناظرین کو بتادیا کہ وہ آئندہ چند برسوں میں صفِ اول کی اداکارہ کہلائیں گی۔ رمشا خان نے نہایت قلیل عرصے میں یادگار اور مقبول ڈراموں میں اپنی انمٹ اداکاری کے نقوش چھوڑے۔ انہیں ڈراما سیریل ’’تمہاری مریم‘‘، ’’ماہ تمام‘‘، ’’خود پرست‘‘ اور ’’استاد جی‘‘ کے مختلف کرداروں میں بے حد پسند کیا گیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے مختلف فیشن شوز اور ٹی وی کمرشلز میں بھی حصہ لیا۔ ٹیلی فلمز ’’تین شوقین‘‘، ’’محبت ہوئی آخر‘‘ اور ’’وہم‘‘ میں رمشا خان کی یادگار پرفارمنس دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ 23؍جون 1994ء کو کراچی میں جنم لینے والی مایہ ناز اداکارہ رمشا خان نے فن کی دنیا میں ایک اور قدم آگے بڑھایا، جس طرح ہر فن کار کا خواب ہوتا کہ وہ سلور اسکرین پر جلوہ گر ہو،رمشا خان نے بھی اپنے اس سپنے کو پورا کیا اور وہ نوجوان ہدایت کار رافع راشدی کی فلم ’’تھوڑا جی لے‘‘ میں ’’میشا‘‘ کے کردار میں سلور اسکرین پر جلوہ افروز ہوئیں۔ اُن کی پہلی فلم تو باکس آفس پر زیادہ رنگ نہ جما سکی، لیکن ان کی اداکاری کو ناقدین فلم نے خُوب سراہا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ نئے سال میں انہیں مزید ایک فلم مل گئی ہے۔ 2019ء ان کے لیے بے پناہ خوشیاں لے کر آیا۔ وہ ماہرہ خان اوربلال اشرف جیسے مقبول فن کاروں کے مدِمقابل مومنہ دُرید کی فلم ’’سپر اسٹار‘‘ میں دل چسپ اور اہم کردار میں کاسٹ کرلی گئیں۔ان دنوں ان کی جوڑی شہزاد شیخ کے ساتھ بے حد پسند کی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے شو بزنس کی ابھرتی ہوئی اداکارہ رمشا خان سے ایک ملاقات کی، اس موقع پر ان سے ہلکی پھلکی بات چیت ہوئی، جس کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

جنگ:۔ شوبزنس میں آپ کی آمد کس طرح ہوئی؟

رمشا خان: بچپن میں سب لڑکیوں کی طرح میں بھی سب سے مختلف نظر آنے کا سوچا کرتی تھی۔ کراچی میں پیدا ہوئی، لیکن میرے تعلیمی مراحل لاہور میں مکمل ہوئے۔ اے لیول، او لیول کرنے کے بعد نفسیات میں اعلٰی ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ ایک مرتبہ پھرہم اپنی جنم بھومی کی جانب لوٹ آئے ہیں، یعنی پھر سے کراچی آکر بس گئےہیں۔ میری شخصیت میں کراچی اور لاہور کے ثقافتی رنگوں کا عکس نظر آتا ہے۔ میں، دی ایجوکیٹر کی کئی برانچز میں پڑھی ہوں۔ شوبزنس کی دُنیا میں آنے کے لیے کوئی خاص پلاننگ نہیں کی تھی۔ بچپن میں ایف ایم ریڈیو پر آواز کا جادوجگایا۔ اس سے مجھ میں شوبزنس میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ کسی دوست کے کہنے پر ایک میگزین کے لیے فوٹو شوٹ کیا، جسے بے حد پسند کیا گیا۔ میں خود کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ مجھے ابتدا ہی میں سپر اسٹارز کے ساتھ کام کرنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میری پہلی ڈراما سیریل ’’وہ اک پل‘‘ ہی سے مجھے شناخت مل گئی تھی، جب بھی شاپنگ کے لیے جاتی تو لوگ مجھ سے آٹوگراف لیتے اور لڑکیاں میرے ساتھ سیلفیاں بنواتیں۔ سب مجھے میرے کردار ’’حنا‘‘ سے مخاطب کرتے تو مجھے بہت اچھا لگتا۔ اس سیریل میں عائشہ خان اور فیروز خان کے مدمقابل کام کرنے کام موقع ملا۔ اس کے بعد میں نےکبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ مجھے شوبزنس میں بہت کام ملنے لگا۔اتنا کام کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اداکاری کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فن کار تو پیدا ہوتا ہے،اسے بنایا نہیں جاسکتا۔

جنگ: اس کا مطلب یہ ہوا کہ فن کار کو کسی اکیڈمی کی ضرورت نہیں ہوتی؟

رمشا خان: نہیں نہیں،ایسا بالکل نہیں کہہ رہی، اکیڈمیز فن کاروں کے کام میں سلیقہ اور نکھار پیدا کرتی ہیں، اکیڈمیز فن کار پیدا نہیں کرسکتی۔

جنگ : شوبزنس میں آپ کی منزل کہاں تک ہے، کیا آپ کو بھی بھارتی فلموں میں کام کرنے کا جنون ہے؟

رمشا خان: میں اس معاملے میں ذرا مختلف ہوں، میں اپنے فن کو دھیمی آنچ میں پکانے کی عادی رہی ہوں ،مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ میرے پاس بہت وقت ہے، آج کل ایک جملہ بہت مشہور ہے کہ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘۔ مجھے بہت آگے جانا ہے۔ بھارتی فلموں میں فی الحال کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میری منزل ہالی وڈ فلموں میں کام کرنا ہے۔ چند برسوں بعد میرے مداح مجھے سلور اسکرین پر ہالی وڈ کی فلموں میں دیکھیں گے۔

جنگ: شوبزنس کی وجہ سے آپ کی پڑھائی کا سلسلہ تو تھم نہیں گیا؟

رمشا خان: اے لیول اور او لیول کے بعد شوبزنس کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئی اور پھر کراچی آگئی ،اب میں نے فیصلہ کیا ہےکہ کراچی یونی ورسٹی سے نفسیات میں اعلیٰ ڈگری حاصل کروں گی۔ شوبزنس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں اور لڑکوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ نوجوان نسل ڈاکٹرز اور انجینئرز کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اداکاری کو اپنا کیریئر بنارہےہیں۔ کچھ لڑکے اور لڑکیاں تو ایم بی اے کرنے کے بعد پروڈکشن اور شوبزنس کی دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگارہےہیں۔

جنگ: ڈراموں سے ملنے والی مقولیت اور شہرت نے آپ کی نفسیات پر منفی اثرات تو مرتب نہیں کیے، ہمارا مطلب ہے، دماغ تو خراب نہیں ہوا؟

رمشا خان: شہرت تو آنی جانی چیز ہے۔ میرے لیے اصل فیم میرے مداح ہیں۔ میں ان کی بہت قدر کرتی ہوں۔ یہ ہمارے کام کو مقبولیت کی سند دیتے ہیں۔

جنگ : آپ کی فیملی میں کون کون ہیں؟

رمشا خان: میری تربیت میری ماں نے کی ہے۔ وہ قومی ایئرلائنز میں فضائی میزبان ہیں۔ میری ایک چھوٹی بہن ہے۔ والد صاحب نے بچپن میں ہی ہمیں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اس لیےبچپن ہی سے خود پر بھروسہ کرتی ہوں اور مجھے میری ماں نے جو اعتماد دیاہے، اسے ساتھ لے کر چل رہی ہوں۔ میں اپنی ماں کی بیٹی نہیں، بلکہ بیٹا ہوں۔

جنگ:والدہ ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگ میں ساتھ ہوتی ہیں ؟

رمشا خان: ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ،وہ لوکل اور انٹرنیشنل فلائٹس میں مصروف ہوتی ہیں۔ انہوں نے تربیت اس طرح کی ہے کہ مجھے کسی طرح کا خوف محسو س نہیں ہوتا۔

جنگ: ماڈلنگ اور اداکاری میں زیادہ ترجیح کس شعبے کو دیتی ہیں ؟

رمشا خان: دونوں شعبے میرے لیے اہم ہے۔ البتہ اداکاری پر زیادہ توجہ ہے۔ ایکٹنگ کا سفر بھی طویل ہوتا ہے، جب کہ ماڈل کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ میں بہترین اداکارہ کہلانا چاہتی ہوں۔ ماڈلنگ میرا شوق ہے اور اداکاری میرا جنون ہے۔

جنگ:گلوکاری کا شوق ہے، کس طرح کے گیت زیادہ پسند ہیں؟

رمشا خان: مجھے موسیقی سے بےحد لگائو ہے،خاص طور پر استاد نصرت فتح علی خان کی قوالیاں شوق سے سُنتی ہوں، جب بھی کسی کردار کے لیے اس کی گہرائی میں اترنا ہوتا ہے، تو نصرت فتح علی خان کی مقبول قوالیاں سُنتی ہوں اور پھر کیمرا ہوتا ہے اور میں ہوتی ہوں۔ ویسے مجھے گانا بالکل نہیں آتا۔ البتہ میں باتھ سنگر ضرور ہوں یا کسی کو تنگ کرنا ہو تو بلند آواز میں گانا شروع کر دیتی ہوں۔ ہمارے ملک کی موسیقی دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے۔ راحت فتح علی خان،علی ظفر، عاطف اسلم، شفقت امانت علی نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ایک زمانے میں مہدی حسن اور نورجہاں کے گیت پاکستانی فلموں کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

جنگ:پاکستان فن کاروں میں کن سے زیادہ دوستی ہے ؟

رمشا خان: میری شوبزنس میں کسی سے زیادہ دوستی نہیں ہے۔ البتہ عائشہ خان سے ابتدا میں گہرے تعلقات ہو گئے تھے۔ اب ان کی شادی ہو گئی۔ صبا قمر کی بہت بڑی مداح ہوں،ان کی فلم’’ ہندی میڈیم، دیکھی، دل خوش ہو گیا ،اسے کہتے ہیں اداکارہ، بھارت کو بتا دیا کہ پاکستانی فن کاروں میں کتنا ٹیلنٹ ہے،صبا قمر نے باغی ڈرامے میں ڈوب کر اداکاری کی ۔اعجاز اسلم ،فیصل قریشی، ہمایوں سعید، فہد مصطفیٰ ، اور احسن خان اچھا کام کر رہے ہیں، پاکستان شوبز انڈسٹری بہت آگے نکل گئی ہے۔ دنیا بھر میں توجہ حاصل کررہی ہے۔ پاکستانی ہنر مندوں نے آسکر اکیڈمی تک رسائی حاصل کی۔

جنگ:پاکستانی فلمیں سینما گھروں میں جا کر دیکھ لیں؟

رمشا خان: اب تو اتنے زبردست سینما گھر بن گئے ہیں، میں جب بھی کوئی نئی فلم آتی ہے، تو شوٹنگز سے فارغ ہو کر اسے لازمی دیکھتی ہوں، ہم نہیں دیکھیں گے تو اور کون دیکھے گا! فلم رانگ نمبر،نامعلوم افراد، موٹر سائیکل گرل، جوانی پھر نہیں آنی، سات دِن محبت اِن، لوڈ ویڈنگ اور کیک مجھے بہت اچھی لگی۔ میری نئی فلم ’’سپر اسٹار‘‘ سے مجھے بہت توقعات ہیں، اُمید ہے یہ فلم باکس آفس پر دُھوم مچا دے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین