• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

دائیں ہاتھ کے فاسٹ بولر کی اہمیت کون سمجھے گا

وقت آگیا ہے کہ پی سی بی سلیکشن کمیٹی سے براہ راست سوال کیا جائے کہ عمران خان،وقار یونس،شعیب اختر،عاقب جاوید ودیگر جیسی تاریخ رقم رکھنے والی پاکستانی سائیڈ میں گزشتہ چندسال سے سیدھے ہاتھ کا فاسٹ بولرلر کیوں نہیں ہے، رائٹ ہینڈ فاسٹ بولرلر نہ ہونے سے ٹیم کا کمبی نیشن نہیں بن رہا،تمام میڈیم پیسرز بھرتی ہیں اور ان میں تھوک کے حساب سے لیفٹ ہینڈڈ ،جیسے ہر دوسرا وسیم اکرم بنے گا،محمد عباس میڈیم پیسر رائٹ ہینڈ ہیں،چنانچہ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ سنچورین اور کیپ ٹائون کی تیز ترین پچز پر پاکستانی بولرز 135 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کر رہے تھے اور حریف بولرز 148 تک گئے۔جس کا ذکر میچ کے دوران ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے اس وقت کیا جب وہ پچز کو غیر معیاری کہہ رہے تھے،جب تک ٹیم میں سیدھے ہاتھ کا تیز فاسٹ بولر نہیں آئے گا اس وقت تک میڈیم پیسرز غیر مفید رہیں گے اور لیفٹ ہینڈڈ بولرز وسیم اکرم کے قدموں کی چاپ تک نہیں سن سکیں گے،انجام یہی ہوگا جو ایسی پچز پر ہمارے بیٹسمنوں کے ساتھ ہوا اور ہمارے بولرلرز گیند اتنی اچھال نہ دکھاسکے انضمام الحق ٹیم میں سیدھے ہاتھ کے فاسٹ بولرل کا خلا پر کریں،نتائج سامنے ہیں،اسی طرح بیٹنگ کمبی نیشن درست نہیں ،لیفٹ ہینڈڈ اوپنرز کی بھرمار حریف بولروں کو تنگ نہیں کرتی،لیفٹ اور رائٹ کا کمبی نیشن ہی اچھوں اچھوں کو پریشان کردیتا ہے،مشکل ترین سیریز میں فخرزمان اور امام الحق کی سلیکشن درست نہیں تھی،باقی رہی سہی کسر فلاپ بیٹنگ شو نے پوری کردی۔

فاسٹ بولر اولیویئر نے سنچورین ٹیسٹ میں 11 شکار کرکے پاکستانی بیٹنگ لائن کی کمر توڑی ، اسی ٹیسٹ میں ڈیل اسٹین نےاپنی 422 وکٹ مکمل کر کے ٹیسٹ کرکٹ کے لئے زیادہ وکٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ اپنے نام کیا مگر کیپ ٹائون ٹیسٹ میں دونوں بولروںنے دوسری اننگ میں ٹیل اینڈرز کو شارٹ پچ خطرناک بائونسی گیند کرکے اپنے وقار، اخلاق اور مقام کی دھجیاں اڑئی ہیں۔ محمد عامر ،یاسر شاہ، محمد عباس، شاہین آفریدی کے منہ پر آنے والی خطرناک گیندوں پر دونوں امپائرز کی آنکھیں بھی شاید خوف سے بند تھیں۔ 2 مواقع پر نو بالز تھیںا نہیں دی گئیں،وارننگ تک دکھائی نہیں دی۔ پاکستان کی ٹیم کا سلیکشن غلط،شاٹس کا انتخاب غلط،ٹاپ بلے بازوں کی شاٹ درست نہیں تھے،پاکستانی ٹیم جنوبی افریقا میں تاریخ کی چھٹی سیریز میں سے 5 ویں ہار گئی،اکلوتی سیریز ڈرا کھیلی تھی اور فتح کا خواب پھر خواب ہی بن گیا،سوال یہ ہے کہ سنچورین ٹیسٹ جیسی صورتحال پھر ہوئی ،پہلی اننگ میں ناکامی مثال ہے،دوسری اننگ میں اچانک پھر ناکامی ،اس مرتبہ کوچز نے کیا کیا،کیا سمجھایا،کیا سیکھا اور کیا سکھایا اور اظہر علی اوراوپنرزنے کیا سبق لیا ،ایسے میں کپتان ،چیف سلیکٹر تنہا ہی نہیں بلکہ کوچز اور آگے نہ بڑھنے،نہ سیکھنے والے کھلاڑی بھی ذمہ دار ہیں اسد شفیق،بابر اعظم،شان مسعود اور سرفراز نے کچھ کیا مگر وہ کام ہر گز نہیں آیا۔بیٹسمینوں کی ناکامی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی اننگ میں 7 اور دوسری اننگ میں 6 مجموعی طور پر 13 بیٹسمین ڈبل فگر تک نہ پہنچ سکے اسکے مقابلے میں جنوبی افریقا کی پہلی اننگ میں ہر بیٹسمین ڈبل فگر تک گیا ،اسی طرح بولنگ اٹیک میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میچوں میں یاسر شاہ کھیلے،مگر وکٹ ان کے لئے ناموزوں تھی ،یہ دیکھنا ٹیم انتظامیہ کا کام تھا۔پاکستانی کپتان ،ہیڈ کوچ،بیٹنگ کوچ اور سلیکشن کمیٹی کو ٹیسٹ اور محدود اوورز کی کرکٹ کا فرق سامنے رکھ کر ٹیم کا انتخاب کرنا ہوگا،اس کے لئے جوہانسبرگ کا تیسرا ٹیسٹ سامنے ہے جو 11جنوری سے شروع ہورہا ہے،حریف کپتان فاف ڈو پلیسی کو فاسٹ اٹیک کا اتنا شوق رہا کہ ایک سیشن میں 30 کی بجائے 25 اوورز نے بھی ا ن کو متفکر نہیں کیا،نتیجے میں سال میں دوسری بار سلو اوور ریٹ کا شکار ہوکر وہ تیسرے میچ سے باہر ہوگئے،پاکستانی ٹیم کو اسکا بھی فائدہ اٹھاناچاہئے،تاکہ سیریز میںوائٹ واش سے بچتے ہوئے ایک فتح تو حاصل کرے۔سنچورین اور کیپ ٹائون کی طرح ٹیم جوہانسبرگ میں بھی فتح کا کھاتہ تاحال نہیں کھول سکی،3 میچز میں سے 2 ہارے اور ایک ڈرا کھیلا ،یہاں ہائی اسکور 329 اور کم 49 ہے،ٹیم تاحال جنوبی افریقا میں 300 کا ہندسہ پار نہیں کرسکی ہے،دیکھیں جمعہ سے شروع ہونے والے آخری ٹیسٹ کے لئے ٹیم سلیکشن اس مرتبہ کیسے ہوتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین