• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کو حکومتیں ہمیشہ ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں جس سے وہ اپنے مخالفین یا ناپسندیدہ اشخاص کو کوئی بھی الزام لگا کر ملک سے باہر جانے سے روک دیںچاہے وہ انتہائی ضروری علاج معالجے یا کسی بھی دوسرے جائز مقصد کیلئے جانا چاہتے ہوں اور ان کے واپس آنے کی بھی یقینی ضمانت موجود ہو۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 35ارب روپے کے جعلی بینک اکائونٹس کی تفتیش کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی تھی جس نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کو پیش کردی مگرا س سے قبل کہ عدالت رپورٹ کا جائزہ لیتی ، حکومت نے از خود کارروائی کرتے ہوئے رپورٹ میں تجویز کی گئی سفارشات کی روشنی میں سابق صدر آصف زرداری، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت یک مشت172 سیاسی و کاروباری شخصیات اور بیورو کریٹس کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے جس کے خلاف ملک بھر میں اپوزیشن پارٹیوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا اور وفاقی کابینہ کو اپنے فیصلےکا دوبارہ جائزہ لینے کیلئے کہا جس نے ای سی ایل میں ڈالے گئے نام برقرار رکھتے ہوئے معاملے کی چھان بین کیلئے ایک کمیٹی قائم کردی۔ پیر کو مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکائونٹس کیس نیب کے حوالے کرتے ہوئے اس کی از سر نو تفتیش کرنے اور دو ماہ میں مکمل رپورٹ عدالت کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل اور جے آئی ٹی رپورٹ سے نکالنے کا بھی حکم دیااور رپورٹ کا وہ حصہ حذف کرنے کی ہدایت کی جس میں بلاول بھٹو کا ذکر آیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ نیب چاہے تو دونوں کو الگ الگ طلب کر کے ان سے آزادانہ تحقیقات کر سکتا ہے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئے کہ بلاول اور مراد علی شاہ کے نام سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے ای سی ایل میں ڈالے گئے۔ بلاول تومعصوم ہے اپنی ماں (بے نظیر بھٹو شہید) کا مشن آگے بڑھا رہا ہے جے آئی ٹی کو وضاحت کرنا پڑے گی کہ بلاول کو اس معاملے میں کیوں ملوث کیا گیا؟ عدالت نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل کے بھائی عاصم منصور کے نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا۔ اگرچہ حکومتی ترجمانوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کا اعلان کیا ہے تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ بلاول اور مراد علی شاہ کوتفتیش سے استثنا نہیں ملے گا۔ بہرحال سپریم کورٹ کے حکم پر بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو پہلا ریلیف مل گیا ہے اور ان کے نام ای سی ایل سے نکالے جار ہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ای سی ایل قانون کے بے جا استعمال پر اپنی رائے کا دو ٹوک اظہار کر دیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص یا اشخاص کے نام سیاسی بنیادوں پر ای سی ایل میں نہیں ڈالے جا سکتے۔ کسی بھی ملک کے شہریوں کے سیاسی حقوق بھی ہیں۔ مگر ان سے برتر شہری حقوق ہیں جن پر بلاجواز قدغن نہیں لگائی جانی چاہیے ایک ساتھ 172 افراد کے نام جب ای سی ایل میں ڈالے گئے اسی وقت لگ رہا تھا کہ معاملے میں کوئی خرابی ضرور ہے۔ اس نوعیت کے فیصلے سیاست کو الگ رکھ کر کرنے چاہئیں۔ ملزم اور مجرم میں فرق روا رکھا جانا چاہیے جرم ثابت ہوئے بغیر کسی کے خلاف کوئی کارروائی قانون کی نظر میں جائز نہیں۔ ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے کہ یہ اقدام صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطلب وفاق اور صوبے میں محاذ آرائی کا دروازہ کھولنا ہے جو قومی یک جہتی کیلئے زہر قاتل ہے کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو پہلے مناسب قانونی فورم پر اسے ثابت کرنا چاہیئے۔ اس کے بغیر شہری حقوق پامال ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے جو انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک پیشہ ورانہ کمیٹی یا فورم تشکیل دیا جائے جو گہری چھان پھٹک کے بعد کسی نام کی سفارش کرے۔ صرف پولیس یا ایف آئی اے کی رپورٹ پر لوگوں کے نام ای سی ایل میں نہیں ڈالنے چاہئیں۔

تازہ ترین