• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی نئے سال پر آبادی کے حوالے سے گزشتہ دنوں شائع ہونے والی رپورٹ نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے جس کے مطابق یکم جنوری کو دنیا بھر میں 3لاکھ 95 ہزار 72 بچوں نے جنم لیا جن میں سے 4 فیصد یعنی 15,000 بچے صرف پاکستان میں پیدا ہوئے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے نصف سے زائد بچے 9 ممالک میں پیدا ہوئے۔ بھارت میں 69,070، چین میں 44,760، نائیجریا میں 20,210، پاکستان میں 15,000، انڈونیشیا میں 11,000، امریکہ میں 10,900، کانگو میں 9,400، ایتھوپیا میں 9,020 اور بنگلہ دیش میں 8,370 بچے پیدا ہوئے۔

چین اور بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست ممالک ہیں جن کی آبادی 2ارب 70کروڑ سے زائد ہے۔ اگر اس آبادی کے تناسب سے وہاں پیدا ہونے والے بچوں کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں بچوں کی شرح پیدائش ان ممالک سے زائد ہے جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا جس کی آبادی 26کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، وہاں نئے سال کے پہلے دن صرف 11,000 بچوں نے جنم لیا۔واضح رہے کہ گزشتہ سال کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی میں 2.4فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے جو خطے کے دوسرے ممالک سے زیادہ ہے جبکہ بھارت میں آبادی کی شرح سالانہ 1.13فیصد، ایران میں 1.2 فیصد، سری لنکا میں 1.1فیصد اور بنگلہ دیش میں صرف ایک فیصد ہے۔

میں نے جب یونیسیف کی رپورٹ پر مزید ریسرچ کی تو یہ بات سامنےآئی کہ مذکورہ رپورٹ پاکستان کے مختلف شہروں کے اسپتالوں سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار پر مبنی تھی اور رپورٹ میں پاکستان کے دیہی علاقوں کے گائوں دیہات جہاں ملکی آبادی کے 60 فیصد لوگ رہائش پذیر ہیں اور وہاں آج بھی خواتین بچوں کو گھر میں جنم دیتی ہیں، میں پیدا ہونے والے بچے شامل نہیں تھے۔ اگر ہم یونیسیف کی رپورٹ کو بنیاد بناکر اس میں دیہی علاقوں میں پیدا ہونے والے بچے بھی شامل کرلیں تو یکم جنوری کو پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 30,000 سے تجاوز کرجائے گی۔ اس طرح پاکستان کی آبادی میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ 8 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہورہا ہے اور اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو آئندہ 20سالوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہوجائے گی۔

میں نے گزشتہ دنوں پاکستان میں ’’بڑھتی آبادی کا ’’ٹائم بم‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے کالم میں آبادی کے ہوشربا اضافے کی طرف عوام اور حکومت کی توجہ مبذول کروائی تھی اور پاکستان کی بڑھتی آبادی کو ٹائم بم کی مانند قرار دیا تھا جس کی تائید یونیسیف کی حالیہ رپورٹ بھی کرتی ہے۔ میرے کالم کو دوست احباب اور قارئین کی بڑی تعداد نے سراہا اور درخواست کی کہ پاکستان میں آبادی کی بڑھتی ہوئی سنگین صورتحال پر مزید آواز بلند کروں مگر اس سلسلے میں مجھے کچھ قارئین کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا جن کی رائے میں آبادی پر کنٹرول کی باتیں کرنا اللہ کے کام میں مداخلت اور اُس کی نعمت کی ناشکری ہے جو شرعی اعتبار سے قطعاً درست نہیں۔

پاکستان میں آبادی پر کنٹرول کیلئے قائم کیا گیا بہبود آبادی کا ادارہ فقط نام اور تختی تک محدود ہے جبکہ عوام ابھی تک اس کے جائز اور ناجائز ہونے کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت آبادی پر کنٹرول کیلئے سنجیدہ ہے تو حکومت کو ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ اور ’’خوشحال گھرانہ‘‘ جیسی اشتہاری مہم پر پیسوں کا ضیاع کرنے کے بجائے نئی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی اور ملک میں آبادی پر کنٹرول کیلئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کو بھی اعتماد میں لے کر بنگلہ دیش ماڈل اپنانا ہوگا جہاں آبادی پر کنٹرول کیلئے علمائےکرام نے مساجد اور مذہبی اجتماعات میں لوگوں کو یہ باور کرایا کہ وسائل کے مطابق بچے پیدا کرنا خاندان اور ملک کے مفاد میں ہے اور یہ غیر اسلامی نہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ مسئلے کی سنگینی دیکھتے ہوئے علماء کنونشن کا انعقاد کرے جس میں ملک بھر کے علمائے کرام کو اعتماد میں لے کر اُنہیں پاکستان میں بڑھتی آبادی کے مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مساجد اور مذہبی اجتماعات میں لوگوں کو آگہی فراہم کرسکیں۔ کنونشن میں بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے اسلامی ممالک کے بہبود آبادی کےان ماہرین کو بھی مدعو کیا جائے جن کی مشاورت سے آبادی پر کنٹرول حاصل کیا گیا تاکہ اُن کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں پاکستان کے علمائے کرام خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے اِسے حرام قرار دینے کا فتویٰ جاری کرچکے ہیں جس سے ملک میں دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملی تھی۔ اُمید ہے کہ علمائے کرام آبادی کے بڑھتے مسائل پر بھی اِسی طرح کی کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گے۔

دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک جہاں معاشی حالات اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے لہٰذا بڑھتی ہوئی آبادی کا سدباب کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ یونیسیف کی حالیہ رپورٹ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ اگر آبادی پر کنٹرول کیلئے سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے اور پاکستان کی آبادی میں اِسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو مستقبل میں خوراک، توانائی اور پانی کا بحران شدت اختیار کرسکتا ہے جبکہ بڑھتی آبادی کے باعث معاشی و سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ غربت اور بیروزگاری میں اضافے کی وجہ سے ملک میں بدامنی اور دہشت گردی جیسے بھیانک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین