• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی تاریخ میں اس انتہائی اہم سنگ میل کے قریب پہنچنے کے باوجود جہاں ایک منتخب شدہ حکومت دوسری منتخب شدہ حکومت کے ہاتھوں میں اقتدار منتقل کرنے والی ہے سال رواں غیر یقینی کیفیت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ عوام میں تاحال یہ بے یقینی برقرار ہے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ انتخابات کو مئی 2013ء تک منعقد کیا جانا ہے۔ اس بارے میں بھی غیر یقینی کی لہر موجود ہے کہ انتخابات کے بعد کیا صورتحال سامنے آئے گی۔ غیر یقینی کی اس کیفیت کے ساتھ یہ خطرہ بھی منہ کھولے کھڑا ہے کہ انتخابی عمل کا طویل عرصہ معاشی بحران سے بچنے کے لئے فوری درکار پالیسی اقدامات میں تاخیر پیدا کر سکتا ہے اور یہ تاخیر ملک کی بدحال معیشت کو منہ کے بل گرا سکتی ہے۔ 2012ء ایک ایسے وقت میں ختم ہو رہا ہے جب انتخابی موسم اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی سودے بازیاں جاری و ساری ہیں کیوں کہ پارٹی قائدین ’منتخب ہونے کے قابل‘ امیدواروں کو اپنی جانب کھینچنے اور مقامی پاور بروکروں کو متوجہ کرنے کے لئے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگانے میں منہمک ہیں۔ عوامی مزاج پر امید اور تفکر کے ملے جلے سائے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ امید اس بات کی ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتائج سے ملک میں گزشتہ پانچ سال سے جاری بدنظمی و بدعنوانی کا خاتمہ ہو جائے گا اور خوف اس بات کا ہے کہ نتائج اتنے تبدیلی انگیز نہیں ہوں گے کہ وہ ملک کو معاشی بحالی اور بہتر طرز حکومت کی پٹڑی پر گامزن کر سکیں۔ ختم ہوتے سال میں تبدیلی اور حالات کے جوں کے توں رہنے، دونوں کے اشارے پنہاں ہیں۔ عام انتخابات سے قبل نومبر میں ہوئے ضمنی انتخابات روایتی اور حلقہ جاتی سیاست کے عکاس تھے جنہوں نے نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کو پنجاب کے سیاسی اکھاڑے میں برتری کا ابتدائی اشارہ دیا تاہم ضمنی انتخابات سے اس بات کے بھی اشارے ملے کہ پاکستان اپنی تاریخ میں نتائج کے اعتبار سے سب سے زیادہ غیر یقینی انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ نمایاں سماجی، معاشی تبدیلیوں اور آبادی کے بدلتے اعداد و شمار کے تانوں بانوں سے بنے سیاسی منظر نامے میں عمومی سیاست کو خیرباد کہنے کے باوجود ووٹوں کی نئی ترتیب کے امکانات نظر آ رہے ہیں جیسا کہ رائے دہندگان کی نصف تعداد کی عمر35 سال سے کم ہے لہٰذا نئے اور نوجوان رائے دہندگان کا اضافہ آئندہ انتخابات میں ایک بڑے ’سوئنگ فیکٹر‘ کا پتہ دیتا ہے۔ پنجاب میں شہری، دیہی توازن میں تبدیلی…شہری خصوصیات کے ساتھ دیہی حلقہ انتخاب کی زیادہ تعداد…اور بڑے پیمانے پر شہری متوسط طبقے کے ظہور نے انتخابی مساوات میں نئے تحرکات کو بھی سمو دیا ہے۔ ایک ساتھ عمل پذیر ہونے کی صورت میں یہ عوامل حیران کن انتخابی نتائج کا باعث بننے کے علاوہ روایتی توازن کو بھی درہم برہم کر سکتے ہیں اور خاص طور پر رائے دہندگان کے بلند ٹرن آؤٹ کی صورت میں ملکی سیاست کی راہ یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔ سال رواں کے تاریخی شواہد اور رائے عامہ کے تجزیاتی سروے ان امکانات کی حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مثلاً انٹرنیشنل ری پبلک انسٹی ٹیوٹ (IRI) کے ایک سروے کے مطابق انتخابات حکمراں جماعت، نواز لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ایک سہ مکھی معرکہ ہو گا نہ کہ دو گھوڑوں کی (روایتی) دوڑ…! سروے میں کسی بھی پارٹی سے غیر وابستہ یا ’سوئنگ‘ رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد کا بھی انکشاف ہوا۔ اس تناظر میں انتخابات کے نتائج کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سروے کے مطابق ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں کی قیادت فیصلہ کن ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق دونوں کی سپورٹ ریکارڈ سطح تک کم ہو رہی ہے۔ اس بات کی گونج ان میڈیا اطلاعات میں بھی سنی گئی کہ پی پی پی دیہی سندھ کے اپنے مضبوط ترین گڑھ میں روایتی حریفوں اور قوم پرستوں کے مقابلے میں حمایت کھو رہی ہے۔ اگر سیاسی نتائج کی بابت کوئی پیشگوئی کرنا دشوار نظر آتا ہے تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سال رواں قومی زندگی، عدلیہ کی فعالی اور نتیجتاً ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کے توازن نو کی غالب خصوصیات کا حامل تھا۔ متعدد معاملات میں سپریم کورٹ نے غیر معمولی رفتار اور طاقت کے ساتھ مداخلت کی اور زیادہ تر معاملات میں اس کی مداخلت کو سراہا گیا مگر بعض اوقات اس کے فیصلوں نے تنازعات کو جنم دیا اور عدلیہ پر اپنی حدود سے باہر قدم رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے تنقید کی گئی۔ گورننس کے خلا نے عدلیہ کی فعالی کی حوصلہ افزائی کی کیوں کہ حکمراں اتحاد ملک کے عظیم ترین مسائل سے نمٹنے کے بجائے گلے سڑے نظام کے ساتھ کام کرنے کی کوششوں میں مشغول تھا۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں لا قانونیت اور بلوچستان میں حکومت کے خلا کے تناظر میں قدم اٹھایا مگر اس کے طویل مدتی اثرات متعین نہیں ہو سکے۔ مختلف سیاسی اداکاروں کا ردعمل سبق آموز تھا۔ جب فیصلہ ان کے حق میں گیا تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا ورنہ برعکس صورت میں اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہو گئے۔ ملالہ یوسف زئی پر اکتوبر میں ہونے والے حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا مگر ساتھ میں قوم کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر بھی لے آیا۔ ملالہ کی غیر معمولی بہادری نے اسے قومی ہیرو بنا دیا۔ معاشرے کے ہر طبقے نے اس حملے پر غم و غصے کا اظہار کیا مگر حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف کسی فیصلہ کن کارروائی کا موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ حکومتی قائدین نے ملک میں کچھ کرنے کے بجائے محض اپنا نام بنانے کے لئے غیر ملکی دوروں کو ترجیح دی۔ 2012ء میں فرقہ وارانہ تشدد میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کئے گئے حملوں کی تعداد147ہو گئی جو کہ2011ء میں 121تھی جب کہ اموات کی تعداد 340 ہو گئی جو کہ گزشتہ سال 239 تھی۔ مجموعی طور پر دہشت گرد حملوں میں کچھ کمی ہوئی مگر اموات کی تعداد میں اضافہ ہو گیا مگر خود کش حملوں اور دیسی ساختہ بم دھماکوں میں کافی کمی ہوئی۔ تشدد کے بلند درجے کے تناظر میں سیکورٹی کی بابت عوامی تشویش بھی دو چند رہی۔ سال کے اختتام پر خواتین ہیلتھ ورکروں پر قاتلانہ حملوں کے بعد اقوام متحدہ نے پاکستان میں پولیو کے خلاف مہم روک دی۔ چھ خواتین ہیلتھ ورکروں کے قتل نے اس بات کو اجاگر کیا کہ دہشت گرد بتدریج خواتین کے خلاف حملوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کا مرحلہ ابھی کوسوں دور ہے۔ گزشتہ سال قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے حاصل کردہ فوائد کمزور ہوتے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ فاٹا کی سیکورٹی کا افغانستان میں جاری جنگ سے تعلق بدستور قائم ہے۔ افغانستان سے 2014ء میں نیٹو افواج کے انخلاء کی غیر یقینی کیفیات پاکستان کے سرحدی علاقوں کے استحکام پر سایہ فگن رہیں۔ اس سے ایک اہم سوال سامنے آیا کہ آیا پاکستان نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی تشکیل دی ہے۔ سرکاری سطح پر اس سوال کا کوئی جواب آتا نظر نہیں آتا۔ ان بیرونی چیلنجز کے ساتھ مستقل تباہی کا شکار معیشت پاکستان کے استحکام کے لئے سب سے بڑے خطرے کے روپ میں سامنے آئی۔ سال رواں میں ایک ناگزیر معاشی طوفان کی تمام تر علامات نمایاں تھیں۔ نمو لگاتار پانچویں سال بھی جامد رہی، داخلی و بیرونی سرمایہ کاری کے چشمے خشک ہو گئے، بجٹ میں2008ء کے بعد ریکارڈ خسارہ دیکھا گیا اور ملکی قرضے بلند ترین سطح تک پہنچ گئے۔ بیرونی اور داخلی عدم توازن ملکی معیشت کو مستقل خراب سے خراب تر کرتے رہے۔ انتخابی مصلحتوں کی وجہ سے حکومت پالیسیوں کے اعتبار سے مفلوج ہو گئی۔ اس نے جان بوجھ کر ملکی معیشت کو تنزلی سے بچانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، برآمدات میں کمی اور بیرونی آمد زر کی قلت نے ملکی معیشت پر بدترین اثرات مرتب کئے۔ مرکزی بنک اور تجارتی بنکوں سے لئے گئے عظیم حکومتی قرضوں اور پر سہولت مالی پالیسیوں نے معاشی عدم توازن کو مہمیز دیتے ہوئے ناگزیر طور پر افراط زر کی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دیا۔ سال رواں میں ملک کی عالمی سطح پر تیزی سے کمزور ہوتی حیثیت نے معیشت کے لئے خطروں میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ جاری کھاتے کا خسارہ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اس امر کی عکاس تھی۔ بیرونی آمد زر کے خشک ہوتے چشموں اور آئی ایم ایف کے بشمول دیگر غیر ملکی ادائیگیوں کی وجہ سے سمندر پار سے رقوم کی مضبوط ترسیلات کے باوجود ملک ایک ایسی صورتحال کے نزدیک پہنچ گیا جہاں وہ اپنی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ سال کے اختتام تک مرکزی بنک میں زرمبادلہ کے ذخائر 8.5بلین ڈالر تک گر گئے۔ نتیجتاً زرمبادلہ کے ذخائر چند ماہ کے اندر ہی اس خطرناک حد تک کم ہو گئے کہ وہ ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لئے بمشکل کافی تھے۔ ایک بار اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد ادائیگیوں کا بحران ناگزیر ہو جاتا ہے اور اس سے2008ء سے مماثل بدترین معاشی ہنگامی حالات جنم لے سکتے ہیں جنہیں صرف آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی مدد سے حل کیا گیا تھا۔ یہ صورتحال آئندہ سال کے لئے یہ سوال اٹھاتی ہے کہ آیا ایک نئی حکومت بر وقت اقدامات کے ذریعے ایسے بحران کو نمٹا سکے گی جو مکمل معاشی زوال سے قبل اقتدار سنبھالے اور اتنی مضبوط ہو کہ سخت مگر لازمی فیصلے کر پائے۔ اس سے پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک اور بہت اہم سوال سامنے آتا ہے کہ انتخابات سے کم و بیش اسی طرح کی ہی حکومت تشکیل پائے گی یا ملک کو درپیش حالیہ پریشان کن صورتحال اور بدنظمی سے چھٹکارا نصیب ہو گا؟
تازہ ترین