• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2011 کا سال جو کہ تحریک انصاف کا سال ٹھہرااور ملکی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ن لیگ خوابِ خرگوش سے جاگی۔ سرپٹ دوڑی‘ PPP کو پنجاب حکومت سے نکال باہر کیااور” لوٹوں“ کو یونیفیکشن بلاک کا نام دے کر دودھ کو” میگنوں“ سے بھر دیا۔ کسی بہی خواہ نے نواز شریف سے سوال کیا کہ” کیا آپ دوبارہ سے سیاسی اخلاقیات کی پامالی میں جُت چکے ہیں“ ؟جواب ملا اگر PPP کو نکال باہر نہ کرتے تو عمران خان کی موجودگی میں ہم فرینڈلی اپوزیشن کی پوزیشن بھی کھو دیتے ۔16 سال کی محنت شاقہ کے بعد جب عمران خان کی دھاک وطنِ عزیز کے طول عرض میں بیٹھ چکی تو نکتہ چین یہ باور کروانے میں مشغول ہو گئے کہ عمران خان کی پارٹی قومی سطح کے قائدین سے بانجھ ہے عمران خان کے بعد قحط الرجال اور بات کسی حد تک درست بھی ، بالآخر اللہ نے محنت کا ثمر عنایت فرمایاجاوید ہاشمی کی صورت میں ایک نا در روزگار اولادِ نرینہ عطا فرمائی ۔24دسمبر جاوید ہاشمی کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کا دن ہے۔ 1996 میں عمران خان نے ملکی سیاست میں جب قدم رکھا تو ایک بھونچال آگیا۔ گو کہ ہماری سیاست دو گروہوں کے رحم وکرم پر تھی باری کا کھیل مستحکم ہو چکا تھا۔ عمران خان کی آمد کوبڑے سے بڑے مبصّر اور تجزیہ نگار نظر انداز نہ کر سکے ۔ ن لیگ جو 93 میں اسلامک فرنٹ سے جل چکی تھی۔ جاں کے لالے پڑے اور عمران کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے بھاپ کی پھونکیں مارنے لگے ۔یوں پاکستان کی تاریخ کی گندی ترین انتخابی مہم چلائی۔
خُبثِ دروں دکھا دیا دھنِ غلیظ نے
کچھ نہ کہا حفیظ نے ہنس دیا مسکرا دیا
اربوں روپے لگائے اخبارات میں ایسی کہانیاں چھپوائیں کہ فیملی جرائد فلمی جرائد نظر آئے ۔اقدار کا شیرازہ بکھیرا۔ سیاست نے تہذیب اور معاشرت کو عبرت بنا دیا۔
12اکتوبر 1999کا ”سبق آموزسانحہ“ کہیں شامت اعمال تو نہ تھا۔ خواری، رُسوائی ، اورجدَّہ فراری کیمپ میں پناہ ۔اللہ پناہ ایسی ہزیمت ۔سیکھا کیا؟۔” بے ہدایتوں نے نہیں سیکھنا “۔ ہمیشہ سے عزیزِجہاں عمران خان 1997 میں بری طرح ہار نے کے باوجود قدرو منزلت سے محروم نہ ہوا۔اپنا سفرعزم، استقامت اور تندہی سے جاری رکھا۔ بالآخر دن پھرے ،خلقت ِخدا جوق در جوق تحریک ِ انصاف کی طرف اُمڈ پڑی۔ ابابیلیں غول در غول تاجر، سوداگرسیاستدانوں کو بھسم کرنے کے لیے منڈلانے لگیں۔جاگ اٹھا پاکستان۔جھوٹ، مکر، وراثت کو پچھاڑ کر ایک بہادر آدمی جاوید ہاشمی علم بغاوت لیے اپنی زندگی کی آخری لڑائی کے لیے تحریکِ انصاف کو مورچہ جان بیٹھا۔23 دسمبر کو جوں ہی تحریکِ انصاف میں شمولیت کی خبرلیک ہوئی ایک زلزلہ آ گیا۔دونوں پارٹیوں کے فریقوں اور رفیقوں پر رات بھاری ٹھہری ۔برادرم خواجہ سعد رفیق کے گھر ایک ہنگام بر پا ہو چکا تھا ۔منانے کے لیے دین ودنیا، رشتے ناطے ، اخوت وبھائی چارہ کے واسطے، ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کی تکراریں رات کا حصہ بن گئیں۔ تحریک ِانصاف جو اپنی سیاسی زندگی کے بہترین لمحات سے لطف اندوز ہو رہی تھی اورعمران خان ہاشمی صاحب کی شمولیت پر خوشی سے پھولے نہ سما پا رہے تھے ، فکر مند ہوئے کہ آرزوئیں، حسرتیں، تقاضے اور معا شرتی دباؤ کہیں جاوید ہاشمی کے فیصلے کو متزلزل نہ کر دے ۔ کہیں وہ جذبات کے سیل ِرواں کی نذر نہ ہو جائے شاید پہلی دفعہ میں نے خان صاحب کو ذہنی الجھن اور دباؤ میں دیکھا۔عرض کیا45سالہ جہدمسلسل نے جو باغی تشکیل دیا ممکن ہی نہیں کہ پایہٴ ثبات میں لغزش آئے۔ خاطر جمع رکھیں کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہو گی بلکہ تدبیریں الٹی ہی پڑیں گی۔ اسی استقامت نے ہی تو ان کو ملکی سیاست کاانمٹ سپوت اور گو ہرِنایاب بنا یا ہے ۔ حق گوئی اور بیباکی طرہ امتیاز رہا ہے ۔62 سالہ ایسا نوجوان نصف نہار کی روشنی میں بھی ڈھونڈے سے نہ ملے ۔پشاور کے دھرنے پر جب عمران خان نے خواہش ظاہر کی ”کیا جاوید ہاشمی کو دھرنے میں شریک ہونے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے“ ؟پیغام پہنچایا تو وہ بلاحیل وحجت دھرنے میں شریک ہونے پر تیار ہو گئے۔ اس وقت تک اپنی جدو جہد کی بہترین آماجگاہ” مسلم لیگ ن“ کوہی سمجھتے تھے ۔ تکرار کے ساتھ مجھے تاکید کی کہ” مجھے عمران خان تحریکِ انصاف میں شمولیت کی دعوت نہیں دیں گے“۔میرا آخری جہادمسلم لیگ ”ن “ میں شرفاء ، چاپلوسوں اور کرپٹ مافیا کے رول کو محدود کرنا ہے ۔مجھے ان کی اس سعی لاحاصل سے چڑ تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ”ن“ کی ہیئت ترکیبی بزرگوں نے بڑے سلیقے اور تدبر کے ساتھ اتفاق فونڈری کے خطوط پر استوار کی تھی۔(نیم خواندہ حضرات متوجہ ہوں کہ قومیائی گئی صنعتوں میں بٹیالہ انجینئرنگ (PECO ) سب سے بڑی فاؤنڈری تھی ۔اتفاق اس کا ایک چوتھائی بھی نہ تھا۔ نوکری اور پاکی دامن دو مختلف عناصر ہیں )۔ قومی پارٹیاں تو وراثتی نظام کے تحت کب کی بلاول، حمزہ شہباز، اسفند یار ولی، فضل الرحمن ، مونس الٰہی کو منتقل ہو چکیں تھیں۔سیاست کا ساراکھیت پسران و دختران نے ہی چُگنا تھا۔تطہیرممکن ہی نہ تھی ۔ ناکامی لازمی تھی۔مشرف دور میں وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب یہ خبر عام ہوئی کہ جاوید ہاشمی کو جیل سے اغواء کرکے عقوبت خانے لے جا کر اذیت سے دوچار کیا گیا۔ جیل پہنچے معلوم ہوا کہ ملاقات ناممکن ۔پڑی مشکل سے جیل کے اندر ایک دوست افسر تک رسائی ہوئی ۔ ملاقات کی خواہش ظاہر کی انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہارکیا۔جسمانی حالت کا پوچھا ہونٹوں کو سختی سے بھینچتے ہوئے خاموش رہے ۔ہاتھ جوڑ کر عرض کیا حضور صرف حالت سے آگاہ کر دیں۔ جیل افسر پھوٹ پھوٹ کررو پڑا۔ حالت ِ زار کا جو نقشہ کھینچا شقی القلب بھی تاب نہ لا سکتا۔بتانے لگے جاوید ہاشمی کی کمر کی چمڑی نیلی ، جامنی اور سرخ دھاریوں میں بدل چکی ہے اور اس سے خون رِس رہا ہے ۔جیل سے اغواء کر کے باہر لے جایا گیا اور اس حالت میں واپس پھینک دیا گیا۔ البتہ جلال، جمال میں کمی نہیں آئی ۔ عزم وہمت کا یہ پیکرآخر کس مٹی کا بنا ہوا ہے؟ جو شخص 22سال کے لیے ایسی تحریر پر حوالہ زندان ہواجو اس نے لکھی ہی نہیں صرف پڑھی ۔لیکن آفرین ہے صعوبتوں اور آزمائشوں پر بدمزہ ہونے کی بجائے ان کے ساتھ رہنے کا گُر سیکھ لیا۔
جب ن لیگ کا صدر قائدین کے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہا تھا ”اصلی مالک“ کہاں تھے؟قوم سوالی ہے اور سچ سننے کی متمنی ۔قومی رہنما قوم کو 10 سالہ معاہدے کی نذر کیوں کر گئے ؟ قسمت کی ستم ظریفی اصلی مالک سرور پیلس میں اور انقلابی کوٹ لکھپت جیل میں۔ ”سمجھوتا ایکسپریس“ پر سوار ہونے والے جب جدہ میں ایشیا کی سب سے بڑی سٹیل مل لگا رہے تھے اور لندن میں اربوں ڈالر کا پراپرٹی کاروبار تشکیل دے رہے تھے ایک بہادر آدمی اکیلاروزِاول سے ہی مشرف کے اقتدار کو للکار رہا تھا۔ خیالات امڈتے ہیں کہ اگرہاشمی آمر سے سمجھوتہ کر لیتاتو کیا آمریت کی تاریک سرنگ میں روشنی کی کرن کی کوئی مبہوم امید بھی ہوتی؟مشرف کے ایوانوں میں ارتعا ش پیدا کرنے کی ذمہ داری خالی اُس پر کیسے عائد ہوتی تھی ؟ کیا ہاشمی اپنے لئے لندن جدَّہ اور دُبئی میں فراری کیمپ منتخب کرنے سے قا صر تھا؟کیا وہ چوہدری نثار کی طرح نظر بند نہیں ہو سکتا تھا جس میں فائیو سٹا ر ہوٹلوں میں کھانا کھانے اور گھومنے پھرنے کی سہولت موجود ہو۔پیرانہ سالی کی طرف بڑھتا ہوا یہ سر پھر اکیا قوی الاعصاب تھا کہ چمڑی ادھڑوا کر بھی پشیمان نہ ہوا۔ اگر جاوید ہاشمی ن لیگ کی صدارت نہ سنبھا لتے تو ن لیگ قصہ پارینہ تھی۔
”Sir Party was Over “ بدلہ وفاشعاری کی ریت ہے ۔2008 میں بے نظیر کی واپسی نے ان کا راستہ آسان کیا تو آتے ہی بدلہ چکا دیا۔ الفت اور شہادت پیر سائیں کے حصے میں آئی اور پارلیمانی پارٹی کا سربراہ بنایا چوہدری نثار علی کو ایسے میں بنایا جب جاوید ہاشمی صدر مسلم لیگ تھے کون چوہدری نثار؟ جو ببانگ دُہل ہر خا ص و عام سے کہتے بھر رہے تھے کہ اگرنواز شریف کسی مرحلے پر وطن واپس لوٹے تو میں پارٹی چھوڑ دوں گا۔ ”جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو“۔جاوید ہاشمی کی ساڑھے چار دہائیوں پر پھیلی سیاسی جدوجہد نے کبھی منہ کا ذائقہ کڑوا نہ کیا ۔زمانہ طالب علمی میں گورنر کھر کے ایوان سے اغواء بچیوں کو بازیاب کرانے سے لے کر تحریک ِ نظامِ مصطفی تک بھٹو آمریت کے لیے سوہانِ روح بنارہا ۔ ناقابل تصور اور معافی جرم تھا ۔بھٹو کا پورا دور قلعوں کی تکلیفوں میں کٹا۔البتہ 3مواقع ایسے تھے جب میں ذاتی طور پر معترض ہوا۔ پہلا موقع جب تعلیم سے فارغ ہو کر جماعت اسلامی کی بجائے تحریک استقلال میں شامل ہوئے جب احتجاج کیا تو فرمایا جماعتِ اسلامی سیاسی اسرارو رموزسے ناواقف ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے رکن بنے‘ پوچھا تو فرمایا سابق طالب علم رہنما کہلانے سے اب مجھے چڑ آتی ہے۔اور تیسرا وہ موقع جب یوسف میمن MQM کی دہشت سے بھاگ کر مخدوم صاحب کی پناہ میں آیا اور شراکت میں کاروبار شروع کیا۔ بتایا حضور آپ کاروبار میں لگ گئے تو سیاست کون کرے گا۔فرمایا حفیظ اللہ خان میری سیاست عوام الناس کی تقدیر بدلنے سے قاصرنظر آتی ہے ۔ ملک مفاد پرستوں کے مکمل نرغے میں ہے کیایہ مناسب نہ ہو گا کہ کچھ دیر سیاست سے دور رہ کر کسی اور شعبہ میں طبع آزمائی کرلوں۔آج یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ کہاں وہ ٹھیک تھے اور کہاں غلط لیکن کردار کے پہاڑنے 45 سال کی عمل پیہم اور یقین محکم سے اپنے آپ کو امر بنا دیا۔عمران خان کاہم رکاب یہ بہادر آدمی تقدیر کو بدلنے والا رہنما بن سکے گا یا اللہ میاں سے مانگی زندگی کی توسیع رائیگاں جائے گی۔قائداعظم کا دوسرا جنم تو ناممکن کیونکہ دعا مانگنے والا پیرومرشد تو بیت گیا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کیا اس ملک کو قائداعظم کا عکس نصیب ہو گا۔
تازہ ترین