• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ حکومت پنجاب صوبے میں لیکچررز کی آسامیوں کا اشتہار دیگی۔ اور تین ہزار اسامیوں میں فلسفے کی ایک بھی نشست نہیں رکھی جائے گی۔کیا حکومت پنجاب یہ چاہتی ہے کہ اہل پنجاب میں آج بھی۔ آئندہ بھی انتہا پسندی اسی طرح بڑھتی رہے۔ تذبذب کا دَور کبھی ختم نہ ہو۔ چھوٹے بڑوں کے ذہن اسی طرح الجھے رہیں۔ کسی بحث میں کوئی اصول اختیار نہ کئے جائیں۔ منطق سے کسی پنجابی کا کوئی واسطہ نہ ہو۔ پنجابی معاشرے کو اخلاقیات سے بالکل پاک کردیا جائے۔ مابعد الطبیعات کا کہیں ذکر نہ ہو۔ بلھے شاہ۔ سلطان باہو۔ وارث شاہ کے استعارے تلمیحات کسی کی سمجھ میں نہ آئیں۔ جدید ٹیکنالوجی مروّت و آداب پر اپنا قبضہ جمالے۔ پنجابی نوجوانوں میں سوال کرنے کی جرأت نہ رہے۔ بزرگوں میں معاملات کا تجزیہ کرنے کی استعداد باقی نہ رہے۔

مائیں اب اقبال، فیض، ڈاکٹر حمید الدین، قاضی عبدالقادر، ڈاکٹر اجمل کو جنم نہ دیں۔ وہ صرف جاگیردار، منیجنگ ڈائریکٹر، سی ای او، ڈائریکٹرز، فنانس کنٹرولرز پیدا کریں۔ درسگاہوں میں کوئی کیوں، کہاں کے الفاظ ادا نہ کرے۔ ارسطو، سقراط، افلاطون کو کوئی یاد نہ کرے۔ فارابی، رازی، رومی، غزالی کی کوئی تقلید نہ کرے۔اقبال تو ایک صدی پہلے ہی کہہ گئے تھے۔

پنجابی مسلمان

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت

کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے

یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

پنجاب سے ظہور ہونے والے اس عظیم فلسفی کو پہلے ہی پنجابی مسلمان سے شکوہ تھا کہ وہ تحقیق کی بازی میں شرکت نہیں کرتا۔ صیاد کے پھندوں کا بہت جلد شکار ہوجاتا ہے۔ پیری مریدی کے کھیل میں بہت شوق سے شریک ہوتا ہے۔ پنجاب پہلے غیر ملکی فاتحین کے خیر مقدم اور خاطر تواضع میں اپنی تجزیاتی صلاحیتیں کند کرتا رہا پھر اپنی برتری کے احساس میں تلاش اور جستجو سے گریز کرتا رہا۔ پانچ پانیوں کی سر زمین کے سوتے خشک ہوتے رہے۔ ستلج راوی سے ادائیں چھن گئیں۔

حضرت علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخش کہتے ہیں: عالموں کا ارادہ دانائی اور عقل کی طرف ہوتا ہے۔ یعنی عقل سے کام لیتے ہیں اور جاہل لوگ روایت پر عمل کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ جاہل لوگ عالموں سے جدا رہتے ہیں اور علم سے دُنیا کی عزت و جاہ حاصل کرتے ہیں۔وہ عالم نہیں کہ دنیا کی جاہ اور دنیا کی عزت علم کے ذریعے سے حاصل کرے۔ علم کے مرتبے سے بڑھ کر کوئی ایسا مرتبہ نہیں ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو خدا کو نہ پہچان سکے۔ اور جب علم ہوتا ہے تو آدمی تمام مراتب اور درجات کے قابل ہوتا ہے۔

داتا۔ تری نگری میں اب ایسے فیصلے کئے جارہے ہیں کہ علم صرف دنیا کی عزت و جاہ حاصل کرنے تک محدود کیا جارہا ہے۔ صرف ایسے علوم باقی رکھے جارہے ہیں جن سے دُنیا میں نفع حاصل ہوسکے ۔ اچھی نوکری مل سکے۔ تعلیم کاروبار بن گئی ہے۔ کاروباری علوم سکھائے جارہے ہیں۔ پہلے ہم ہندو کو طعنہ دیتے تھے کہ وہ ہر کام میں بنیا پن دکھاتا ہے۔ لیکن اب بنیا پن ہی ہماری منزل بن رہا ہے۔ کمرشلزم ساری دُنیا میں آرہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہی تیز رفتاری ہے مگر پھر بھی کساد بازاری ہے۔ معیشت ڈانواںڈول ہے۔ پہلے چند ایم بی اے ہوتے تھے ملک بہت پُر سکون معاشرہ بہت مستحکم تھا۔ اب ہزاروں ایم بی اے ہیں۔ لیکن افراتفری زیادہ ہے۔جہاں کمرشلزم عروج پر ہے معیشت بہت ترقی کررہی ہے۔ نت نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ ٹرانسپورٹ تیز سے تیز تر ہورہی ہے۔ رابطے کی مشینیں نئی سے نئی آرہی ہیں۔ خلا تسخیر ہورہا ہے۔ وہاں کے کالجوں یونیورسٹیوں میں فلسفہ اسی طرح پڑھایا جارہا ہے۔ فلسفے کی سالانہ کانفرنسیں ہورہی ہیں۔ جدید علوم، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ فلسفے کے کورسز تشکیل دئیے جارہے ہیں۔ دُنیا کی سب سے قدیم اور آج بھی سب سے عظیم یونیورسٹیوں ۔ کیمبرج اور آکسفورڈ میں اب فلسفہ صرف ایک ڈپارٹمنٹ نہیں پوری فیکلٹی بن گیا ہے۔ یہ ترقی یافتہ قومیں فلسفے کی قدر و اہمیت جانتی ہیں۔ کہ یہ علوم کی ماں ہے۔ فکر کا سر چشمہ ہے۔ نہ جانے کتنے نئے آفاق فلسفے سے ہی ظہور پارہے ہیں۔

ہمارے نئے آقا امریکہ کی یونیورسٹیوں میں بھی فلسفہ اسی شان سے پڑھایا جارہا ہے۔ صدیوں کی تحقیق سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نئی دنیائوں کی تلاش اور نئے تنازعات کے تجزئیے کی صلاحیت فلسفے کی تدریس سے ہی ملتی ہے۔ ہارورڈ والے کہتے ہیں کہ فلسفے کی تعلیم اس لئے ناگزیر ہے کہ اس سے ہماری تجزیاتی اور تخلیقی استعداد کو جلا ملتی ہے۔ تجزیاتی صلاحیت ہر شعبے اور ہر سیکٹر میں آگے بڑھنے کے راستے ہموار کرتی ہے۔

ادھر ہمارے اچھے برے وقتوں کے دوست جس کی رفاقت کیلئے سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلندی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہاں بھی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فلسفہ اور اخلاقیات دوسرے تمام علوم کی طرح پڑھائے جارہے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے طلبہ و طالبات فلسفے میں اعلیٰ تعلیم کیلئے چین کی مختلف یونیورسٹیوں میں جارہے ہیں۔

آکسفورڈ والے فخر کرتے ہیں کہ وہ فلسفے میں نئی راہیں اور نئی کائنات تلاش کررہے ہیں۔ وہ فلسفے کی تاریخ کیلئے تجزیاتی راستہ اختیار کررہے ہیں۔ وہ موجودہ فلسفے اور اسکی تاریخ کے درمیان مکالمہ بھی کررہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں فلسفے کی صدیوں پر محیط تاریخ کا مطالعہ عصری امور کی روشنی میں کررہے ہیں۔ اور عصری مسائل کا حل فلسفے کی تاریخ میں تلاش کررہے ہیں۔ ہر یونیورسٹی میں فلسفے کے اساتذہ کی تعداد 100سے زیادہ ہے۔ جدید علوم اور جدید پریشانیوں کے تناظر میں فلسفے کی نئی شاخیں دریافت کرلی گئی ہیں۔ ان میں ڈاکٹریٹ کرنے والے نئی نسلوں کی تدریس کررہے ہیں۔

ہمارے پاس تو صدیوں کی امانت درس نظامی والے مدارس بھی ہیں۔ جہاں فلسفہ۔ منطق اخلاقیات آج بھی پڑھائی جارہی ہے۔

میرے خیال میں تو فلسفے کی تدریس و تعلیم و تحقیق کی جتنی ضرورت پاکستان کو آج ہے شاید ہی پہلے کبھی ہوئی ہو۔ ہمارے مسائل کی جڑ ہماری ذہنی ساخت ہے۔جس پر ہر سمت سے یلغار ہورہی ہے۔ انتہا پسندی، عسکریت، جاگیرداری، سرمایہ داری، کاروباری، علاقائی اور پھر قیادت کا خلا۔ ان سب کیلئے ایسے ذہن درکار ہیں۔ جو تجزیے۔ تحقیق اور تخلیق کے رُجحانات رکھتے ہوں۔ یہ ذہن فلسفے کے شعبوں میں ہی تیار ہوتے ہیں۔ فلسفے کے اساتذہ اور عشاق کو بھی چاہئے کہ وہ روایتی فلسفے سے نکلیں اور پاکستان کی نفسیاتی۔ سماجی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب مرتب کریں۔ سیمینارز منعقد کریں۔ تبادلۂ خیال کیلئے ورکشاپس کا اہتمام کریں۔ قیادت یونیورسٹیاں ہی فراہم کرسکتی ہیں۔ پاکستان تذبذب کی کیفیت سے باہر اسی وقت نکلے گا جب کالجوں یونیورسٹیوں کے فلسفے کے ڈپارٹمنٹ میں ملک کے سماجی۔ عمرانی۔ نفسیاتی رُجحانات پر تحقیق اور تبادلۂ خیال ہوگا۔ یہ فلسفی عوام کو رہنما خطوط سے نوازیں گے۔ پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ فلسفہ کے سربراہوں کا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں کم از کم ضلع کی سطح پر تو فلسفے کی ایک نشست رکھی جائے۔ جسمانی تربیت کیلئے تو اساتذہ رکھے جارہے ہیں۔ ذہنی تربیت کیلئے اساتذہ غیر ضروری کیوں سمجھے جارہے ہیں۔

تازہ ترین