مذہبی اعتبار سے باقی سب ممالک غریب ہیں جبکہ بھارت دنیا کا امیر ترین ملک ہے کیونکہ وہاں20لاکھ بھگوان ہیں جن کی پوجا کی جاتی ہے۔(امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن )بھارت وہ ملک ہے جہاں ہر مذہب کے لئے گنجائش موجود ہے(برطانوی خاتون مفکر اینی بیسنت)
بھارت سے رقابت کا جذبہ ہماری گھٹی میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ تقابل اور موازنہ کرتے ہوئے بعض اوقات خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مثال کے طور پر بھارت میں جمہوری ادارے بہت مضبوط ہیں جبکہ ہمارے ہاں غیر جمہوری قوتیں حالات کی نزاکت کے پیش نظر فرنٹ فُٹ پر نہ بھی ہوں تو بیک فٹ پر ضرور متحرک و فعال رہتی ہیں۔بھارت کی اقتصادی ترقی اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت سمیت کئی ایسے پہلو ہیں جن کے پیش نظر ہم احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں مگر اب ایک ایسا زاویہ سامنے آیا ہے جس میں ہماری انا کی تسکین کا بھرپور سامان دستیاب ہو سکتا ہے۔بھارت میں ہر سال انڈیا سائنس کانگرس کے نام سے ایک تقریب ہوتی ہے جس کا 106واں اجلاس 3تا 7جنوری کو منعقد ہوا ۔اس کانفرنس کا افتتاح بھارتی وزیراعظم نریندرامودی نے کیا، یوں تو اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے اعلیٰ پائے کے محققین ہر سال ہی دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جن سائنسی ایجادات پر سفید فام اِتراتے پھرتے ہیں وہ دراصل قدیم بھارت کے شہہ دماغوں کی ریاضت کا نتیجہ ہیں مگر اس بار کچھ ایسے دعوے کئے گئے جو باآسانی ہضم نہیں کئےجا سکتے۔ مثال کے طور پر بھارت کی جنوبی ریاست آندھر ا پردیش کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نگیشو ر رائو نے انکشاف کیا کہ ’’رامائن ‘‘ میں ایک بادشاہ کا ذکر ہے جس کے پاس 24قسم کے جہاز تھے اور وہ ان جہازوں کو سری لنکا کے اڈوں پر اتارا کرتا تھا ۔اسی طرح تامل ناڈو یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر کے جے کرشنن نے دعویٰ کیا کہ آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن ایسے نوسر باز ہیں جو ہندوستانی باشندوں کی سائنسی تحقیق لے اُڑے۔اسی لئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ دریافت کی گئی کشش ثقل کی لہروں کا نام ’’نریندرامودی لہریں‘‘ رکھنا چاہئے۔
دنیا بھر کو چونکا دینے والے یہ انکشافات پہلی بار نہیں کئے گئے بلکہ اس سے قبل انڈیا سائنس کانگرس کے فورم پر کئی ایسے حیران کن دعوے کئے جا چکے ہیں اور بھارتی وزیر گاہے گاہے قوم کو بتاتے رہتے ہیں کہ کس کس بھارتی ایجاد اور دریافت پر ان گوروں نے قبضہ جما رکھا ہے۔2014ء میں خود نریندر ا مودی نے ایک زبردست انکشاف کیا تھا ۔ممبئی اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بھگوان گنیش کے دھڑ پر ہاتھی کا سر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قدیم بھارت میں ہزاروں سال پہلے کاسمیٹک سرجری دریافت ہو چکی تھی ۔ریاست اترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ دنیش شرما کا کہنا ہے کہ سیتا جی کی پیدائش ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی زندہ مثال ہے کیونکہ انہیں مٹی کے گھڑے سے پیدا کیا گیا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبل از مسیح کے زمانے میں یہاں ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی موجود تھی۔دنیش شرما اس سے قبل یہ بھی بتا چکے ہیں کہ گوگل جیسی ٹیکنالوجی قدیم بھارت میں موجود تھی، براہ راست نشریات کا تصور موجود تھا اور صحافت کا آغاز بھی سب سے پہلے بھارت میں ہوا۔ا س سے قبل شمال مشرقی ریاست تری پورہ کے وزیراعلیٰ بپلب کمار دیو بتا چکے ہیں کہ انٹرنیٹ سب سے پہلے ہندوستانیوں نے ایجاد کیا ۔انسانی وسائل اور تعلیم کے وزیر ستیپال سنگھ بھی کئی رازوں سے پردہ اٹھا چکے ہیں مثال کے طور پر انہوں نے بتایا کہ نیوٹن سے کئی سو سال قبل بھارتی منتری ’’لاء آف موشن‘‘ پیش کر چکے تھے ۔رائٹ برادران کے جہاز اڑانے سے 800سال پہلے ایک بھارتی سائنسدان شواکر بابوجی تلپڈے جہاز ایجاد کر چکے تھے اور سب سے پہلے طیاروں کا ذکر ’’رامائن ‘‘ میں ملتا ہے ۔ راجھستان کے وزیر تعلیم گائے کی سائنسی اہمیت وافادیت بیان کرتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ آکسیجن لے کر کاربن ڈائی آکسائیڈ تو تمام حیوان خارج کرتے ہیں مگر گائے وہ محیر العقول جانور ہے جو آکسیجن ہی خارج کرتی ہے۔ راجستھان ہائیکورٹ کے سابق جج مہیش چند شرما کے خیال میں تو گائے ایک چلتا پھرتا شفا خانہ ہے جس میں ہر بیماری کا علاج ہے۔گھروں میں گائے کے گوبر کا لیپ کرنے سے تابکاری سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں کے مصداق بھارت کی حیرت انگیز سائنسی ایجادات اور دریافتوں کی فہرست بہت طویل ہے ۔
ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے کئی محققین نے جانفشانی سے کام کیا ہے ۔ایسے ایسے نابغہ روزگار لوگ موجود ہیں جو ہر ایجاد یا دریافت کے بعد کوئی حوالہ ڈھونڈ لاتے ہیں کہ قرطبہ ،طلیطلہ یا پھر اشبیلیہ کی فلاں یونیورسٹی میں فلاں ابن فلاں نے تو یہ نظریہ کئی سو سال پہلے پیش کر دیا تھا۔ہمارے کئی علما ء و محققین اپنی تصانیف میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ جدید سائنسی ایجادات و تحقیق جو آج ہو رہی ہے مسلمان وہ کئی سو سال قبل کر چکے ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں سائنس و تحقیق پر ہمارا حقِ شفعہ کہیں زیادہ مضبوط ہے مثال کے طور پر ہم بتا چکے ہیں کہ رائٹ برادران سے پہلے ابن ِ فرناس نے اڑن کھٹولہ ایجاد کیا ۔گیلیلیو سے 500سال قبل اِبن حزم ثابت کر چکے تھے کہ زمین گول ہے۔ہمارے حقِ ملکیت کی فہرست بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل ہے ۔لیکن اس ضمن میں حکومت سرپرستی کرے تو مزید جوش و جذبے کیساتھ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔اگر تاریخی واقعات کے حوالے ڈھونڈ کردعویٰ دائر کر دیا جائے تو کم ازکم ان کافروں کی دھوکہ دہی اور فراڈ کو طشت ازبام کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی بھارت کے طرز پر سالانہ پاکستان کانگرس کا انعقاد ہو اور اس میں جید علماء کرام کے علاوہ ایسے متبادل بیانئے کو فروغ دینے والے دانشور مدعو کئے جائیں تو یقیناً اس شعبے میں بہت جلد بھارت کو مات دی جا سکتی ہے۔