• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے دورئہ ترکی سے قبل پاکستان اور ترکی کے مختلف حلقوں کی جانب سے دونوں ممالک کے تعلقات میںکچھ ٹھہرائو آنے کاواویلا مچایا جا رہا تھااور اس سلسلے میں مختلف تاویلیں پیش کی گئیں لیکن ترک صدر ایردوان کے اپنے وزیر داخلہ سیلمان سوئیلو کے توسط سے وزیراعظم عمران خان کو دورہ ٔترکی کی دعوت اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسے فوری طور پر قبول کرتے ہوئے ترکی تشریف لانے سے تمام غلط فہمیاں دم توڑ گئیں۔ خاص طور پر پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کرنیوالی ترک تنظیم ’’فیتو‘‘کو دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے پر دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی گرم جوشی دیکھی گئی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم دس ارب ڈالر تک پہنچانےکی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں اور دفاعی صنعت میں اس سلسلے میں پیشرفت بھی ہورہی ہےاور یہ شعبہ دیگر شعبوں کیلئے رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان طے پانے والےدفاعی سمجھوتے کی رو سےترکی آئندہ پانچ سالوں کے دوران تیس عدد 129 AT-اتاک ہیلی کاپٹر پاکستان کے حوالے کرے گا جبکہ پاکستان اپنے ہاں تیار کئے گئے مشاق تربیتی طیارے ترکی کو مہیا کرے گا۔ علاوہ ازیںترکی نے گزشتہ برس پاکستانی بحریہ کی جانب سے دیا گیا چارMILGEMجنگی بحری جہازوں کی ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز مالیت کا ایک بین الاقوامی ٹینڈر بھی حاصل کر رکھا ہے۔ یہ ترکی کی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی سودا قرار دیا جارہا ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان گزشتہ کئی سالوں سے آزادانہ تجارت کے معاہدے پر بھی بات چیت جاری ہے۔عمران خان کے دورے کےبعد جلد ہی اس معاہدے پر عملدرآمد کئے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ سن 2011میں پاکستان کی ترکی کو برآمدات آٹھ سو تہتر ملین ڈالر تھیں لیکن اب اس شرح میں مسلسل کمی آرہی ہے جس کی جانب فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس ترکی کی2008 ء تک پاکستان کو برآمدات جو صرف 175ملین ڈالر تک محدود تھیں ، 2017 میں اس میں 127 فیصد اضافہ ہوتے ہوئے یہ352 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ اس سال کے پہلے 11 ماہ میں پاکستان نےچار سو پندرہ ملین ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ ترکی نےپاکستان سے تین سو پانچ ملین ڈالرکی درآمدات کی ہیں۔عمران خان نے اپنے دورۂ ترکی کا آغاز مولانا جلال الدین رومی کےقونیہ میں مزار پر حاضری دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نےیہاں پر مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال کی علامتی قبر پر بھی حاضری دی اور کہا کہ ’’مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال ، مولانا رومی کو اپنا روحانی پیشوا سمجھتے تھےاور میں اپنے دورے کا آغاز مولانا رومی کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کررہا ہوں۔‘‘ وزیراعظم عمران خان اپنے اس مختصر قیام کے بعد اسی رات دارالحکومت انقرہ آئے۔ انہوں نے انقرہ میں یونین آف چیمبرز اینڈ کموڈیٹی ایکسچینجز آف ترکی کے زیر اہتمام معروف تاجروں اور سرمایہ کاروں سے بھی خطاب کیا۔

بعدازاں وزیراعظم عمران خان اور صدر ایردوان نے انقرہ میں صدارتی محل کی ’’ملت جامع مسجد‘‘میں ساتھ نمازِ جمعہ ادا کی ۔ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد جب دونوں رہنما صدارتی محل پہنچے تو وزیراعظم پاکستان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس کے بعددونوں رہنمائوں کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔ جس کے بعد دونوں رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر ترک صدر نے فتح اللہ گولن کی دہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘ کو پاکستان میں بھی دہشت گرد قرار دیئے جانے کے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا اور دیگر ممالک کے لیے بھی اسے قابل ِ مثال قرار دیا۔ انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان، ترکی اور افغانستان پر مشتمل سہ فریقی اجلاس کی بحالی کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں پانچ ملین مکانات کی تعمیر کے لئے وہ ترکی کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ انہوں نے ترکی کی شعبہ صحت میں کی جانے والی اصلاحات کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اپنے ہاں متعارف کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔پاکستانی میڈیا میں عمران خان کے دورۂ ترکی میں ان کے ہمراہی وفدکے بیٹھنے کے انداز اور عمران خان کےشلوار قمیض اور شدید سرد موسم میں گارڈ آف آنر کے موقع پر پشاوری چپل پہننے سے متعلق جو تنقیدکی جا رہی ہے اس پر اتنا عرض کرتا چلوں کہ اس وقت درجہ حرارت منفی چار پانچ سینٹی گریڈ تھا اور اگر وزیراعظم پشاوری چپل کی کی بجائے لانگ شوز پہنتے تو زیادہ بہتر ہوتا، پروٹوکول والوں کو اس سلسلے میں وزیراعظم کو پہلے سےمطلع کرنے کی ضرورت تھی۔

تازہ ترین