• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مثال نمبر1،اسرائیل: 1972میں میونخ میں اولمپک کھیل منعقد ہوئے ۔ کھیلوں کے دوران اسرائیلی ٹیم کو ”بلیک ستمبر“ نامی ایک گروہ نے یرغمال بنا لیا ۔الزام لگایا گیا کہ ”بلیک ستمبر“ کا تعلق یاسر عرفات کی ”الفتح“ سے ہے۔ اس واقعے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اغوا کاروں سے مذاکرات شروع ہوئے جو بے نتیجہ رہے اور بالآخر ان کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں گیارہ اسرائیلی ایتھلیٹ ،کوچ اور ایک جرمن پولیس افسر اس میں مارا گیا ۔”بلیک ستمبر“ کے آٹھ ارکان بھی مارے گئے جبکہ تین کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم بعد میں جب ”بلیک ستمبر“ نے لفتھنزاائیر لائن کا ایک طیارہ اغوا کیاتو جرمنی کو مجبوراً ان گرفتارشدگان کو بھی رہا کر نا پڑا۔اس سارے واقعے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مئیر نے خفیہ ایجنسی موساد کو ایک آپریشن شروع کرنے کا ٹاسک دیا جس کے تحت ان تمام لوگوں کو چن چن کر مارنا تھا جو اسرائیلی ٹیم کو یرغمال بنانے کے منصوبہ ساز تھے ۔اس آپریشن کی خاص بات یہ تھی کہ موساد کے ان افسران کو موساد سے ”فارغ “ کردیا گیا ،ان کی تنخواہ بند کر دی گئی اور سرکاری سطح پر اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ان کا اسرائیلی حکومت سے کوئی رابطہ نہ رہے۔ان افسران کی تنخواہ توئٹزرلینڈ کے ایک خفیہ اکاؤنٹ سے ادا کی جاتی۔یہ ساری احتیاط اس لئے کی گئی کیونکہ موساد کے ان ایجنٹوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر ”بلیک ستمبر“ تنظیم کے ممبران کو ٹھکانے لگانا تھا۔ موساد نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ آپریشن مکمل کیا ۔مثال نمبر 2،سسلی:اٹلی کا سسلین مافیا ۔بھتہ خوری، قتل، سمگلنگ اور دھونس دھاندلی سے سرکاری اور غیرسرکاری ٹھیکے حاصل کرنا ان کا مشغلہ تھا ۔ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانا تو دور کی بات ،ان پر ہاتھ ڈالنا ہی نا ممکن تھاکیونکہ مافیا کے جرائم پر بالکل اسی انداز میں پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی جیسے اپنے یہاں آج کل طالبان کا دفاع کرنے والے انہیں ہر واردات کے بعد دودھ سے نہلا کر معصوم بنا دیتے ہیں ۔اطالوی مافیا کے خلاف بھی ہر طرح کا ثبوت موجود ہونے کے باوجود کوئی ان کے خلاف ایکشن لینے کی جرأت نہیں کرتا تھا کیونکہ مافیا سیاستدانوں، ججوں ، وکلا اور گواہان تک کو اڑا دیتا تھا۔بالآخر 1980میں اٹلی کی حکومت نے مافیا سے نمٹنے کے لئے ایک خاص قانون بنایا جو 1982میں لاگو کر دیا گیا۔اس قانون کی تجویز دینے والے سیاست دان کو مافیا نے قتل کردیا، بے تحاشا خوں ریزی ہوئی اور سینکڑوں افراد کو مافیا جنگ کے نتیجے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے جن میں اٹلی کے کاؤنٹر ٹیررازم کے سربراہ کے علاو ہ دیگر بے شماربڑے لوگ بھی شامل تھے ۔اٹلی کی حکومت ہل کر رہ گئی ۔اس نے ایک Antimafia Poolتشکیل دیا جو کہ تفتیشی مجسٹریٹس پر مشتمل ایک گروپ تھا جس نے جدید خطوط پر مافیا کے خلاف تفتیش شروع کی ،ثبوت اکٹھے کئے اور آپس میں ان تمام معلومات کے تبادلے کو یقینی بنایا تاکہ کسی ایک ممبر کے قتل کی صورت میں بھی تمام معلومات محفوظ رہیں۔ ستم ملاحظہ ہو کہ اس Antimafia Poolکے بنانے والے جج Rocco Chinniciکو بھی مافیا نے 1983میں قتل کردیا۔کئی برسوں کی انتھک محنت کے بعدبالآخر 1986میں مافیا کے خلاف مشہور زمانہ Maxi Trialشروع ہوا ،یہ ٹرائل سسلی کی ایک انیسویں صدی کی تعمیر شدہ جیل کے بنکر میں ہوا جس کی تعمیر کنکریٹ سے کی گئی تھی ۔سخت سیکورٹی میں600صحافیوں کی موجودگی میں یہ ٹرائل اٹلی کی تاریخ میں مافیا کے خلاف سب سے بڑا مقدمہ ثابت ہوا جس میں 475 مافیا ممبران کو اپنا دفاع کرنا تھا۔ 16دسمبر1987کو مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا، 474ملزمان میں سے 360کو سزا سنائی گئی اور انہیں کل ملا کر 2665برس کی قید ہوئی۔ اس کے علاوہ مافیا کے 19سرکردہ لیڈران کو عمر بھر کے لئے جیل میں ڈالا گیا۔ 114ملزمان کو ناکافی ثبوت کی بنا پربری کر دیا گیا جس سے یہ تاثر بھی زائل ہوا کہ یہ ٹرائل محض ایک دکھاوا تھا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بری ہونے والوں میں سے 18کو خود مافیا نے ان کے رہا ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر قتل کر دیا ۔بہرحال اس Maxi Trailنے اطالوی مافیا کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
مثال نمبر3،پاکستان: پشاور ایئرپورٹ پر حملہ کیا جاتا ہے ،دہشت گرد مارے جاتے ہیں ،ان کے جسموں پر ٹیٹو بنے ہوئے ملتے ہیں اورہم بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھا بلیک واٹر کا ثبوت مل گیا ،مسلمان دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتے ۔بشیر بلور پر خود کش حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا جاتا ہے ،میاں افتخار حسین کا بیٹا قتل کر دیا جاتا ہے ،طالبان ذمہ داری قبول کرتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ نہیں یہ تو دراصل صیہونی طاقتیں ہیں جو طالبان کا نام استعمال کر رہی ہیں ۔داتا دربار اور عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حملے میں درجنوں لوگ مارے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ ڈرون کا رد عمل ہے،گویاڈرون حملوں کا کنٹرول روم داتا دربار میں تھا۔مون مارکیٹ لاہور،مینا بازار پشاور اور لکی مروت گراؤنڈ میں خود کش حملوں میں عورتیں ،بچے اور بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں تو یہ امریکی جنگ میں شامل ہونے کا نتیجہ ہے لہٰذا بھگتو۔اسرائیلیوں اور اطالویوں کے برعکس، ہمیں اپنے قاتلوں سے کس قدر پیار ہے !
اگر ہم دہشت گردی کے عذاب سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں دو کام کرنے ہوں گے۔ پہلا،Code of Criminal Procedure،Civil Procedure Codeاور قانون شہادت میں ترامیم کرنی پڑیں گی جن کے تحت اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردی کے تمام مقدمات facelessانداز میں بھگتائے جائیں ۔سسلی کی طرح یہاں بھی ایک عمارت ایسے تمام مقدمات کے لئے مخصوص کر دی جائے جہاں پرندہ پر نہ مار سکے ۔ججوں کا کوئی نام یا چہرہ نہ ہو،گواہان اور وکلا کو بھی نمبروں سے پکارا جائے۔ عدالت میں ملزم کو لایا جائے تو اسے یہ پتہ ہی نہ ہو کہ اس کا مقدمہ کس جج کی عدالت میں ہے ،کون گواہ ہے، کون استغاثہ کاوکیل ہے ۔ان تمام لوگوں کی آوازیں بھی voice chanagerکے ذریعے بدل دی جائیں تاکہ پہچانے جانے کا ذرابھی احتمال نہ رہے ۔پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں نے دہشت گردی کے درجنوں کیسوں میں ملزم پکڑے مگرگزشتہ کئی برسوں میں ایک بھی ملزم ایسا نہیں ہے جسے دہشت گردی کے جرم میں پھانسی دی گئی ہو اور اس کی وجہ بالکل سادہ ہے کہ کوئی بھی جج ، وکیل یا گواہ کسی دہشت گرد کو سزا دلوانے کا رسک لینے پر تیار نہیں۔ جس دن ایسے کسی ایک مقدمے میں بھی اصل مجرم کو پھانسی دے دی گئی ،اس دن ہم یہ جنگ جیتنی شروع کر دیں گے ۔دوسرا اقدام سیاسی نوعیت کا ہے۔کسی ایک بڑی سیاسی جماعت کو دہشت گردی کی اس جنگ میں ایک فیصلہ کن پوزیشن لینی پڑے گی کہ یہ جنگ ،کبھی امریکہ کی تھی مگر اب ہماری ہے ۔بڑی سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ کھو دینے کے ڈر سے یہ پوزیشن لینے میں تامل کرتی ہیں کیونکہ بظاہر اس نقطہ نظر کی عوام میں مقبولیت نہیں ہے ۔لہٰذا جب تک عوام کھلم کھلا دو ٹوک انداز میں دہشت گردی کے خلاف یک زبان نہیں ہوں گے تب تک سیاسی جماعتیں شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دبائے رکھیں گی ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان کی گردن ریت سے باہر نکلے تو ہمیں اپنے قاتلوں کی وکالت چھوڑنی پڑے گی تاکہ کوئی” پاکستانی گولڈا مئیر“ دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ آپریشن شروع کر سکے۔ اگر ہمیں یہ منظور نہیں تو پھر اگلے دہشت گرد حملے کا انتظار کریں ۔اور یہ انتظار زیادہ طویل نہیں ہوگا۔
تازہ ترین