• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لئے ایسی خبریں بہت ہیں جنہیں واقعی خبریں کہا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کچھ شائع اور نشر بھی ہوتی ہیں مگر بیشتر خبریں اور تجزیاتی رپورٹیں صحافیوں کو لاحق جسمانی خطرات ذہنی تشدد، دباؤ اور دھمکیوں کے باعث قلم وقرطاس کی زینت بننے کی بجائے سینوں میں ہی دبی رہ جاتی ہیں۔ پاکستان جرنلسٹس سیفٹی فنڈ کے ایک تحقیقاتی مشن نے اس حساس صوبے کے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کرنے والے صحافیوں سے گفتگو اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ان رکاوٹوں کا تفصیل سے ذکر کیاگیا ہے جن کی وجہ سے صوبے میں صحافت کی آزادی بری طرح مجروح ہورہی ہے۔ رپورٹ میں ایک صحافی کی یہ رائے نقل کی گئی ہے کہ صحافت کہیں اور ریاست کا چوتھا ستون ہوگا مگر بلوچستان میں نہیں۔ سیاسی مذہبی اور عسکریت پسند گروپ اپنے بیانات جن میں خبریت کا عنصر کم اور جماعتی یا گروہی پروپیگنڈا زیادہ ہوتا ہے اپنی مرضی کی جگہ پر اور نمایاں طورپر شائع کرانا چاہتے ہیں اس کی وجہ سے صحافی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں نامساعد حالات میں یہ انہی کا حوصلہ ہے کہ صحافت کو روزگار سے زیادہ مشن سمجھ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور بلوچستان کی تعمیرو ترقی عوام میں شعور وآگہی کے فروغ اور ان کے مسائل و مشکلات حل کرنے کیلئے اقتدار کے ایوانوں کو جھنجھوڑنے میں اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ رپورٹ میں میڈیا کو درپیش خطرات کے حوالے سے بلوچستان کو تین ریجنوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے ریجن میں شمال مشرقی اضلاع ڈیرہ بگٹی، کوہلو، نصیرآباد، جعفرآباد، جھل مگسی، بولان اور بارکھان کے علاقے شامل ہیں ان میں سے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو صحافیوں کیلئے عملی طورپر نوگو ایریاز بن چکے ہیں کیونکہ یہاں فوج، ایف سی اور زیرزمین علیحدگی پسند گروپ بہت فعال ہیں۔ علیحدگی پسندوں کے فوج، ایف سی پولیس لیویز اور سرکاری تنصیبات پر مسلسل حملوں کے نتیجے میں یہاں فوج اور ایف سی کی آپریشن نما کارروائیاں تقریباً روزمرہ کا معمول ہیں اور ان کے اثرات ملحقہ علاقوں تک بھی پہنچتے ہیں۔ ایسے میں بگٹی ومری مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائیوں کی رپورٹنگ ہو یا سرکاری چوکیوں، قافلوں اور تنصیبات پر حملوں کی صحافیوں کیلئے تادیب وتعذیب کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کوئی بھی فریق اپنے موقف یا دعوے کیخلاف کچھ برداشت کرنے کو تیار نہیں پھر اس ریجن میں جاگیردارانہ نظام کی بدولت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہیں اور ذاتی دشمنی کی بنا پر بھی ٹارگٹ کلنگ جاری رہتی ہے۔ صحافیوں کو جانیں اور آبرو بچانے کیلئے ان واقعات کی رپورٹنگ میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ دوسرے ریجن میں بلوچ ساحلی پٹی کے اضلاع گوادر، پنجگور، تربت آواران اور وسطی علاقے خضدار وغیرہ شامل ہیں ان علاقوں میں ڈاکٹراللہ نذر کے بلوچستان لبریشن فرنٹ کا زیادہ زور ہے اور اسے متوسط اور پڑھے لکھے طبقے کی حمایت حاصل ہے یہاں بھی مسلح اداروں اور ریاست مخالف عناصر کے مفاد کے خلاف خبروں پر صحافیوں کو خطرات لاحق ہیں تیسرا ریجن افغانستان سے ملحق پشتون علاقوں پر مشتمل ہے یہاں اکثر سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں میڈیا کو دباؤ میں رکھتی ہیں۔ کچھ عرصہ سے طالبان بھی ان علاقوں میںآ رہے ہیں اس کے علاوہ سرحدی علاقے اسمگلروں کے گڑھ بنے ہوئے ہیں جو صحافیوں کی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں خطرات کا موجب ہیں۔
صوبے کے اخبارات، اخباری مالکان، ایڈیٹروں اور کارکنوں پر دباؤ شروع ہی سے ہے اب ٹی وی چینلز کے کارکن بھی متاثرین کی صف میں شامل ہوگئے ہیں صحافیوں کی جانیں لینے کا عمل 2000ء سے شروع ہوا۔ روزنامہ جنگ کوئٹہ کے فیچررائٹر ڈاکٹر چشتی مجاہد قتل ہونے والے پہلے صحافی تھے یہ انتھک نوجوان اپنے فیچرز میں سیاسی، معاشی وسماجی مسائل بے باکانہ انداز میں اجاگر کرنے کی شہرت رکھتا تھا۔ اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی مگر اس کا قتل ایک بڑی خبر اور دوسرے صحافیوں کیلئے عبرت کا سبق بن سکتا تھا سو اسے قتل کر دیا گیا۔ دوسرا نشانہ مجھے (اس وقت ایڈیٹر جنگ کوئٹہ ) بنایاگیا۔ 4دسمبر2001ء کی شام گھر سے دفتر جاتے ہوئے میری گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی میں معجزانہ طورپر بچ گیا مگر ڈرائیور نام حق شدید زخمی ہوگیا۔ گولیاں فرنٹ سیٹ پر مجھے چھوئے بغیر اسے لگتیں یا خطا ہوتی رہیں۔ دو گولیاں آنتوں کو پھاڑتے ہوئے اس کے پیٹ میں پیوست ہوگئیں اور تین بازوؤں پر لگیں۔ ڈاکٹروں نے کمال مہارت سے آپریشن کرکے اسے اس وقت تو بچالیا مگر پیٹ کے زخموں میں ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں کہ بالآخر وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔اس کے بعد صحافیوں کے قتل ناحق کا سلسلہ اور تیز ہوگیا چنانچہ اب تک جو صحافی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ان میں جنگ کوئٹہ کے ایڈیٹر اخترمرزا کے علاوہ محمد اقبال، ملک محمد عارف، محمدسرور، اعجاز رئیسانی، جمشید کھرل (کوئٹہ) خلیل سمالانی، رحمت اللہ شاہین(مچھ) ،خادم حسین شیخ (حب) وصی احمد قریشی، فیض ساسولی، محمدخان ساسولی، منیراحمد شاکر، عبدالحق بلوچ (خضدار) لالہ حمیدبلوچ، دلشادہانی (گوادر)،ولی خان بابر (ژوب)،عبدالستار رند، ظریف فراز، رزاق گل بلوچ (تربت) صدیق عیدو (پسنی) محمدرفیق اچکزئی (چمن) عبدالقادر حاجی زئی (واشک)، رحمت اللہ عابد (پنجکور) بھی شامل ہیں۔ خضدار پریس قلب کے صدر ندیم گرگناڑی تو بچ گئے مگر ان کے نوجوان بیٹے سراج احمد اور منظور احمد قتل کردیئے گئے۔ بیشتر صحافیوں کے قتل کی ذمہ داری کسی نہ کسی مزاحمتی تنظیم نے قبول کی ہے تاہم بعض کے قاتلوں کی نشاندہی ابھی تک نہیں ہوسکی۔ ان میں سے کچھ مبینہ طور پر سرکاری سرپرستی میں قائم مسلح گروپوں کا نشانہ بنے بلوچستان کے خیرخواہوں کیلئے خواہ ان کا تعلق مزاحمتی تحریک سے ہو یا قوم پرست اور اعتدال پسند سیاسی پارٹیوں سے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے انہیں بلوچستان کیلئے میڈیا کی خدمات کا ادراک کرنا چاہئے اور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے صحافیوں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دینا چاہئے تاکہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح محرومیوں اور مایوسیوں کا شکار یہ پسماندہ صوبہ بھی آزادی صحافت کے بے پناہ فوائد سے متمتع ہوسکے۔
تازہ ترین