• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ نجی پاور پلانٹس سےبجلی لی نہیں لیکن کھربوں روپے دے دیئے، عوام کا پیسہ آئی پی پیز کو مفت کیوں دیا گیا؟ انہی لوگوں کی وجہ سےگردشی قرضہ کھربوں روپے تک پہنچ گیا، معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں۔ اب پھر کارروائی بیورو کریٹس کے خلاف ہو گی۔ خدا جانے کہ کس کا کتنا حصہ تھامگر یہ طے ہے کہ ان کی مرضی کے بغیرسابقہ حکمران یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔ ڈی جی نیب لاہور سے ایک دوست کے گھر ملاقات ہوئی۔ موضوع ِ گفتگو بیورو کریسی رہی۔ خاص طور پر پنجاب کی بیورو کریسی۔ میں نےکہا ’’نیب کا خوف آسیب بن چکا ہے۔ بیوروکریسی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ کام رکے ہوئے ہیں۔ فائل دفتر سے نکل ہی نہیں رہی۔ فائلوں کو پہیے لگانے کی دکانیں عمران خان نے بند کرادی ہیں ‘‘۔ کہنے لگے ’’ہم کسی ایسے افسر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جس کی آمدن اور اثاثوں میں تفاوت نہ ہو۔ ہاں جنہوں نے کرپشن کی ہے انہیں نیند نہیں آنی چاہئے ‘‘۔ بے شک کرپٹ بیورو کریسی خوف زدہ ہےاور اسے ہونا چاہئے مگر توقع ہے کہ جلدان کی جگہ دیانت دار افسر سنبھال لیں گے۔ نیب حکام کا خیال ہے کہ تقریباً چالیس فیصد افسران ایسے ہیں جن کی آمدن اور اثاثے آپس میں نہیں ملتے۔ ایف بی آر کے مطابق برطانیہ سے غیر منقولہ جائیداد کی جو تفصیل آئی ہے اس میں بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے یعنی پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن کا الزام بیوروکریسی پر لگ رہا ہے۔ بیورو کریسی جو پاکستان کے ذہین ترین تعلیم یافتہ افراد کا مجموعہ ہے۔ جب سے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 65کروڑ روپے برآمد ہوئے ہیں، یہ الزامات حقائق کے قریب لگنے لگے ہیں۔ مجھے پنجاب کےایک سابق گورنر یاد آرہے ہیں جنہوں نے بیورو کریسی کے مقابلے میں ’’اللہ کریسی ‘‘ کی اصطلاح کو پروموٹ کیا تھا۔ کوئی جب ان کے پاس کسی کام کےلئے آتا تھا تو وہ دعا کےلئے ہاتھ اٹھا کر کہتے تھے ’’اللہ کریسی ‘‘۔ بیورو کریسی فرانسیسی زبان کے الفاظ ہیں۔ بیورو کامطلب دفتر ہے اور کریسی کچھ کرنے کو یعنی نظام کو کہتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ لفظ ’’کریسی‘‘ کا مفہوم سرائیکی میں بھی یہی ’’کام کرنے‘‘ کا ہے۔ نپولین کے دور میں فرانس میں یہ اصطلاح وضع ہوئی تھی اس کا مطلب ’’سول سروس‘‘ یعنی نوکر شاہی تھا۔

جمہوریت میں اِس نوکر شاہی کے نظام کو پنپنے کا بہت موقع ملا۔ جو بھی جمہوری حکومت آتی تھی وہ چار یا پانچ سال کےلئے ہوتی تھی اوربیوروکریسی موجود رہتی تھی۔ یوں اصل اقتدار ہمیشہ انہی کے پاس رہتا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ نےاپنے اپنے انداز میں اس بیوروکریسی سے نجات حاصل کی۔ وہاں وقت کے ساتھ ساتھ اقتدار زیادہ سے زیادہ عوامی نمائندوں کے ہاتھوں میں منتقل کیا گیا مگر ہم پاکستان میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں لا سکے۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں اس کام کا آغاز کیا تھا مگر اس کے جاتے ہی دفتری بابوئوں نے پھر سارا کچھ واپس لےلیا۔ یہ نظام انگریزوں نے بر صغیر کےلوگوں کےلئے ترتیب دیا تھا۔ غلاموں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کےلئے ایک نظام بنایا گیا تھا۔ انگریز چلے گئے مگر کالے انگریز ابھی تک ہم پر مسلط ہیں۔ ذرا غور کیجئے ہم جسے ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں برطانیہ میں وہ شہر کی کونسل کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ اُسے اس ملازمت پر شہر کے منتخب شدہ کونسلر رکھتے ہیں اور وہ اسے کسی وقت فارغ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر ڈپٹی کمشنر کو رہائش کےلئے ایک بہت بڑا گھر ملتا ہے۔ وہاں چیف ایگزیکٹو رہنے کےلئے خود کرائے پر گھر لیتا ہے اور کرایہ وہ اپنی تنخواہ سے دیتا ہے۔ کونسل اسے کوئی گاڑی بھی نہیں دیتی۔ وہ اپنی گاڑی پر دفتر آتا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے اوپرکوئی عہدہ دار بھی نہیں ہوتا کوئی کمشنر نہیں ہوتا، کوئی ایڈیشنل کمشنر بھی نہیں ہوتا۔ وہ کونسلرز کے سواکسی کوجواب دہ نہیں ہوتا۔ وہ کسی منسٹر کے استقبال کےلئے موجود نہیں ہوتا۔ اسے کسی پرائم منسٹر کے جلسے کا اہتمام نہیں کرنا پڑتا۔ اسے کوئی ہائوس آف کامن کا ممبر جاکر یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص کا تبادلہ فلاں علاقے میں کردو۔ اس کی پہلی اور آخری ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ اس کے شہر میں جو لوگ موجود ہیں انہیں زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں حاصل ہوں۔

پاکستان میں بیورو کریٹس کوجتنی سہولتیں حاصل ہیں دنیا کے کسی اور معاشرہ میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی پچھلے سال پنجاب میں بیوروکریٹس اور ایم پی ایز کے علاج معالجے کےلئے پانچ کروڑ روپے کا ایک فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ پتا نہیں اُس کا کیا ہوا مگرجس ملک میں غریب کےلئے دوا میسر نہ ہووہاں بیوروکریٹس کےلئے ایسے فنڈز کا قیام کسی مذاق سے کم نہیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ نئے پاکستان میں کوئی بیورو کریٹ ملک سے باہر جا کر علاج نہیں کرائے گا مگر ابھی اس سلسلے میں کوئی حکم نامہ جاری نہیں ہوا۔ گزشتہ حکومتوں میں بیورو کریٹس کے غیر ملک میں علاج پر کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

ایک جائزہ کے مطابق بیس، اکیس اور بائیس گریڈ کے ساٹھ فیصد افسران کے بچے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں یا کررہے ہیں۔ ڈیڑھ، دو لاکھ تنخواہ میں یہ کیسے ممکن ہوجاتا ہے؟ بیوروکریٹس کو جو مراعات حاصل ہیں ان کی تفصیل بھی حیرت انگیز ہے۔ گاڑیاں، پٹرول، ملازمین کی فوج ظفر موج، سرکاری پلاٹس اور پتا نہیں کیا کیا کچھ، قانونی طور پر۔ مگر ان تمام مراعات کے ہوتے بھی وہ اپنے بچوں کو بیرونِ ملک تعلیم نہیں دلا سکتے کیونکہ وہ بہت زیادہ مہنگی ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں جہاں ہمارا ڈیڑھ لاکھ روپیہ جب پہنچتا ہے تووہاں کے ہزار، گیارہ سو میںبدل جا تا ہے لیکن اصل معاملہ اس وقت یہ ہے کہ بیورو کریٹس کے اثاثے اِن مراعات سے کہیں زیادہ نکل رہے ہیں یعنی مبینہ طور پر وہ تمام غیر قانونی طریقے سے کمائی گئی دولت سے بنائے گئے ہیں۔

تازہ ترین