• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
سیاست ایک بے رحم کھیل ہے جس میں مخالفین بہت کم ہی رعایت دینے کی طرف بڑھتے ہیں اور جس طرح کی غیر متوازی سیاست ہمارے معاشرہ میں پائی جاتی ہے، وہاں سیاست ایک فل ٹائم پیشہ کی طرح تسلیم کی جاتی ہے اور اس پیشہ نے کم از کم دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا ہوتا ہے، اس لئے تمام لوگ اپنی جگہ بناتے وقت کنجوسی سے کام لیتے ہوئے دوسروں کو جگہ نہیں دیتے، ملک میں دو بڑی جماعتوں اور فوجی حکمرانی کے درمیان چلتی باریوں کے درمیان طویل عرصہ تک یہ خواہش اٹھتی گرتی رہی کہ ملکی مفاد میں ضروری ہے کہ ایک مضبوط تیسری سیاسی جماعت عمران خان تقریبا بائیس برس قبل ایک خواب کو لے کر چلے اور اس طرح تقریبا ایک دھائی قبل پی ٹی آئی ایک معقول حجم کی جماعت کے طورپر میدان میں آچکی تھی۔ کچھ بین الاقوامی امور پر عمران خان کے دلیرانہ موقف کی وجہ سے 2013 کے انتخابات میں جماعت کے پی میں برسر اقتدار آگئی۔ اس پوری ٹیم کے لئے اقتدار پہلا تجربہ تھا ایک لحاظ سے جہاں عوام کا بڑا حصہ اس جماعت کے لئے دعا گو تھا وہاں ایک خوف نے تمام ماحول کو دبوچ رکھا تھا کہ ناتجربہ کاری نجانے کیا مسائل پیدا کردے گی اور مرکز مداخلت کرنے کی طرف بڑھ جائے گا۔ بعض وجوہات کی بنا پر مرکز اور صوبہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر متفق رہے۔ ان حکومتی مراحل کی تکمیل تک بیشتر وزرا اور ان کے لگائے لوگ پی ٹی آئی کی پہلی نرسری سے ارتقا پانے والے کارندے تھے جو ناکامی کے خوف سے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے محنت اور لگن سے کام کرتے رہےجس کے نتیجہ میں جولائی 2018میں اس جماعت کو اکثریت مل گئی، روٹی کپڑا اور مکان والا نعرہ آج بھی اتنا ہی واضح ہے جتنا کہ روزاول تھا، مگر تحریک انصاف کا جہاں گزشتہ انتخاب میں کوئی مخصوص انتخابی نعرہ نہیں تھا اور پچھلے پانچ سالہ دورانیہ میں جماعت اپنے اقتصادی پروگرام کو لوگوں کے ذہنوں میں اچھی طرح نہ بٹھا سکی۔ یہ جماعت کیونکہ عمران خان کے گرد گھومتی ہے اس لئے ایک اہل فنکشنل ٹیم کا تصور نہیں ابھرسکا ہے اور نہ ہی حکومت چلانے کے لئے ایک اہل ٹیم تیار ہوسکی۔ دونوں بڑی دوسری جماعتوں کو درپیش مشکلات 2018الیکشن سے قبل ہر کسی پر واضح تھیں۔ اس درمیانی عرصہ میں جتنا وقت پی ٹی آئی نے مختلف احتجاجی کارروائیوں میں ضائع کیا اگر وہی وقت اقتصادی منصوبہ بندی، متوقع حکومت کے خدوخال طے کرنے اور طریقہ آئے حکمرانی کو سیکھنے میں صَرف کردیا جاتا تو یقینا جماعت جن بحرانوں کا سامنا کرتی نظر آرہی ہے اس سے بچ جاتی، پاناما کیس سامنے آتے ہی واضح ہوچکا تھا کہ شاید حکومت مسلم لیگ ن کو نہیں ملے گی۔ پی پی دوستانہ اپوزیشن کہلوا کر قومی سطح پر اپنا وزن کھوچکی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے بڑھتے مواقع ہر کسی کو مطلع کرتے رہے کہ آنے والی قیادتی ٹیم کے طرز ہائے اعمال کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس ناتجربہ کار ہجوم کو اکھٹا کرکے ایک مضبوط ٹیم بنانے کی طرف توجہ دی جانی چاہے تھی۔ قومی سطح کے بیشتراہم کردارخواہ وہ معیشت پر کام کرنے والے ماہرین ہوں یا بیرون ملک سے دولت واپس لانے کے ماہرین آخر وقت تک عمران خان ٹیم کے ساتھ نہ جڑ سکے۔ یہاں قصور پی ٹی آئی قیادت کے صلاح کاروں کا ہے کہ وہ اپنے بندوبست نہ کرواسکے۔ اس دلیل میں بھی وزن ہے کہ شاید پی ٹی آئی کی اعلیٰ کمانڈ کو خود یقین بھی نہیں تھا کہ اس بار انہیں اقتدار مل جائیگا۔ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے عمران خان بھی مسائل کا فوری حل پیش کرنے میں کبھی دوسروں سے پیچھے نہ رہے اور یہ پاکستانی سیاست ہے اب وزیر اعظم اور ان کی ٹیم جس ہمت سے ملک کی بگڑتی معاشی حالت سے نمٹ رہی ہے اس میں انہیں جہاں کامیابیاں ہوںگی وہاں ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ 100دن میں مکمل ہونے والے کئی بیانات پر اگر کام تاحال مکمل نہیں ہوسکا تو کم از کم شروع ضرور ہوچکا ہے وزیراعظم روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے پہلے دو سال مشکل ہوںگے، لہٰذا وہ معقول وقت کے مستحق ہیں۔ مسائل میں گھرے معاشرہ میں پریشانیوں کی وجوہات معاشی مشکلات ہیں جب پیسے نہیں ہیں تو دوسرے کئی وعدے بھی پورے نہیں کیے جاسکتے۔ حکومت پر تنقید اپوزیشن جماعتوں کی قبل از وقت غیر معقول تنقید اور اخبارات میں حکومتی مشکلات کا بڑھا چڑھا کر بیان ہونا یہ سب کچھ جمہوریت کا حصہ ہیں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ دو اہم ٹیمیں مرکز سے باہر ہوچکی ہیں چار ماہ والی حکومتی ٹیم کے بارے میں الزامات لگائے جاسکتے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ٹیم کرپٹ ہے یا بدنیت ہے اور کوشش نہیں ہورہی چار ماہ میں اٹھائے گئے تقریبا دو درجن چھوٹے بڑے اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ حکومت متحرک بھی ہے اور عوام دوست بھی ۔ اب جبکہ پاکستانی سیاست میں تیسری ہی قوت حکومت میں آچکی ہے اگرچہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اسے کام کرنے میں دشواریاں آرہی ہیں مگر پوری حکومتی ٹیم عوامی مفاد کے بڑے معاملات سے نمٹنے میں کوشاں نظر آتی ہے، تمام حکومتی ادارے اپنے طے شدہ ماحول میں کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ ملک دو دھائیوں بعد بزنس کے لئے کھلا ہے بین الاقوامی قائدین پاکستان آرہے ہیں ۔ بین الاقوامی کھلاڑی بھی پاکستان آرہے ہیں بین الاقوامی کھلاڑی بھی پاکستان آرہے ہیں، حکومت اپنی کمزور اکثریت کے باوجود پُراعتماد انداز میں کام کررہی ہے اور اہم ترین یہ کہ دوست ممالک کا اعتماد بحال ہورہا ہے اور مالی معاونت مل رہی ہے ایک پُر اعتماد معاشرہ اٹھان پکڑرہا ہے اور ملک بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام قائم کررہا ہے ہر کوئی آگاہ ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت کن حالات میں ملی ہے اور ایسے کس طرح کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے اتنے کم عرصہ میں ہی پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی کا سوچنا ملک سے بے وفائی ہے جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو، اسے درست کرنے میں وقت لگتا ہے اور یہی حال آج کے پاکستان کا ہے ۔ جائز حد کی تنقید جمہوریت کا حسن ہے۔ اگست 2020 صحیح وقت ہوگا کہ عمران خان پراجیکٹ پر بات بھی جائے اور رہنمائی کے لئے تنقید بھی پاکستان میں اس فنکشنل حکومت کو کام کرنے کے لئے مواقع دینا ہی پاکستان کی بہترین خدمت ہے ۔ اللہ مملکت پاکستان پر مہربان رہے۔
تازہ ترین