• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر منموہن سنگھ سے کسی نے پوچھا کہ انہوں نے کبھی سوچا تھا کہ ہندوستان کے وزیراعظم بن جائیں گے۔ موصوف نے جواباً کہا تھا”کبھی نہیں، میں تو کسی اچھی یونیورسٹی میں پڑھانا چاہتا تھا“۔ واقعتاً تقدیر انسان کو ایک سے ایک نئی ڈگر پر لے نکلتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہماری وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر کے ساتھ بھی ہوا۔ فطرتاً مہم جو اور رفعتوں کی دیوانی حنا ربانی اپنے آپ کو منوانے اور نمایاں کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ K-2 اور نانگا پربت پر ٹریکنگ بھی۔ مگر انہوں نے کبھی سوچا نہیں ہوگا کہ محض 34برس کی عمر میں پاکستان کی وزیر خارجہ بن جائیں گی۔
2001ء میں میسا چوسٹس یونیورسٹی سے ہوٹل مینجمنٹ کی ڈگری لے کر وطن پلٹیں تو دو ہی جنون تھے۔ فوڈ اور رائیڈنگ، اور دونوں کو یکجا کرنے کے لئے لاہور کے پولو گراؤنڈ کے اندر پولو لاؤنج کے نام سے ریسٹورنٹ کھول لیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے خوب چل نکلا۔ بزنس کو بڑھاوا دینے اور مختلف شہروں میں پولولاؤنج کی برانچز کھولنے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی کہ2002ء کے انتخابات آگئے۔ پرویز مشرف کو نہ جانے کیا سوجھی کہ امیدواروں کے لئے بی اے پاس کی شرط رکھ دی۔ یوں نامی گرامی پیشہ ور سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد میدان سے باہر ہوگئی مگر وہ بھی کوئی کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں تھے۔ خلا کو پُر کرنے کی غرض سے اپنی گریجویٹ اولادوں کو میدان میں لے آئے۔ بعض جگہ تو عجب لطیفے بھی ہوئے۔ پورے کا پورا گھرانہ نان گریجویٹ نکلا، تو نظریہ ضرورت کے تحت بیٹے کی دوسری شادی گریجویٹ خاتون سے کرکے اسے میدان میں اتار دیا۔
مظفر گڑھ کے ملک غلام نور ربانی کھر بھی ڈگری کی نذر ہوگئے تو اپنی ہونہار صاحبزادی حنا کھر کو میدان میں لے آئے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ انتخابی مہم خود چلائی اور بی بی کو جلسے جلوسوں سے دور رکھا۔ حتیٰ کہ پوسٹروں پر ان کی تصویر بھی نہ چھپی۔ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں تو نیا شعبہ بہت چیلنجنگ لگا اور شاکی ہوئیں کہ مرد پارلیمنٹیرین خواتین کو لیگز کے حوالے سے متعصب ہیں اور برابری کا مقام دینے کی بجائے مربیانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مگر یہ شکایت زیادہ دیر تک نہ رہی۔ جلد ہی اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں آگئیں۔ دو تین وزارتوں میں جونیئر منسٹر رہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مملکت کی اہم ترین وزارت یعنی خارجہ امور کی فل وزیر بن گئیں۔ وہ مسند جس پر بیٹھنے والوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو ایک سے ایک بڑھ کر نام سامنے آتا ہے۔ سرظفر اللہ خان، محمد علی بوگرہ، فیروزخان نون، منظور قادر، ذوالفقار علی بھٹو، آغا شاہی، صاحبزادہ یعقوب خان، خورشید قصوری وغیرہ جن میں سے بعض تو وزارت عظمیٰ اور قصر صدارت تک بھی پہنچے۔
ویسے تو پاکستان میں پبلک عہدوں کی لوٹ سیل لگی ہے۔ میٹرک پاس ملک کی سب سے بڑی کارپوریشن او جی ڈی سی جیسے ادارے کا چیئرمین لگ سکتا ہے۔ کابینہ میں بھی مرضی کا اسٹف بھرتی کیا جاسکتا ہے مگر ایک عہدے پر کمپرومائز کسی طور پر زیبا نہیں اور وہ ہے وزیرخارجہ۔ جو کسی بھی ملک کا چہرہ ہوتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر اس کے ملک کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں لحاظ اور رواداری کا رواج کم ہے اور چیزوں کو سختی سے میرٹ پر لیا جاتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگاکہ پہلی خاتون اور کم عمر ترین وزیر خارجہ کا ٹیگ سجائے محترمہ حنا ربانی ہندوستان کے دورے پر گئیں تو وہاں کے میڈیا اور اہل سیاست نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ ان کے کیمروں اور قلموں کا تمام تر فوکس محترمہ کے فیشن، ملبوسات، زیورات، برینڈڈگلاسز اور بیگز پر تھا اور پوچھنے والوں نے تو یہ بھی پوچھ لیا کہ اگر بالی ووڈ کی طرف سے آفر ہو تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟ اور مذاکرات کی میز پر محترمہ کا سامنا79سالہ مشاق سیاستدان اور ماہر امور خارجہ ایس ایم کرشنا سے تھا۔ ایسے میں کارکردگی کا اندازہ لگانے کیلئے افلاطونی ذہن کی ضرورت ہرگز نہیں، پاکستان ہائی کمیشن کے عشائیہ میں معروف بھارتی وکیل اور رکن پارلیمینٹ رام جیٹھ ملانی کا محترمہ کو مخاطب کرکے یہ کہنا کہ ”آج کے اخباروں میں آپ کی تصویر دیکھنے کے بعد میں اس ڈنر میں آئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہاں موجود پاکستانیوں کو پانی پانی کر گیا تھا۔
پاکستان کی فارن سروس اکیڈمی میں ایک آئیڈیل وزیرخارجہ کے خدوخال کے بارے میں کچھ بتایا جاتا ہے یا نہیں، وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شاید بیماری غیرضروری رواداری اور پردہ داری کی عادت یہاں بھی مانع ہو، مگر بھارت میں اس پر مباحث ہوتے آئے ہیں۔ سابق سفیر آئی جے بہادر سنگھ کے مطابق ایک آئیڈیل وزیرخارجہ کو درج ذیل خصوصیات کا حامل ہونا چاہئے۔ 1۔پارٹی اور پارلیمینٹ کے اندر اس کی پوزیشن مضبوط ہو، 2۔ وزیراعظم کا منظور نظر ہو اور کیبنٹ میں اس کی آواز وزن رکھتی ہو، 3۔ پارٹی اور حلقہ انتخاب کے بکھیڑوں سے دور ہو تاکہ وزارت کو وقت دے سکے۔ 4۔فارن پالیسی کے حوالے سے افسران کی رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ اسے اوور رول نہ کرسکیں اور وہ ان سے اس طور سیکھے کہ اپر ہینڈ بہرطور قائم رہے۔5۔ سفارت کاری ایک اسپیشلائزڈ شعبہ ہے جس کو چلانے کے لئے رجحان طبع ، ٹیمپرامنٹ اور اسٹیمنا کی ضرورت ہے۔ ایشوز پر concentrate کرنے کی صلاحیت بھی ہونا چاہئے، 6۔ وزیرخارجہ کو اختلافات و تنازعات سے بالاتر ہونا چاہئے۔ محترمہ اس چیک لسٹ پر کہاں تک پورا اترتی ہیں؟ اس کا فیصلہ آپ پر ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کروں گا کہ ماضی میں ان کا فیملی بزنس بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے حوالے سے خبروں میں رہا ہے اور انہی کی پارٹی اور انہی کے ضلع کے ایم این اے جمشید دستی نے اعلان کر رکھا ہے کہ آئندہ انتخابات میں محترمہ سمیت ان کے خاندان کے ہر فرد کو ٹف ٹائم دیں گے پھر فارن سروس کے چار سو سے زائد سنجیدہ پروفیشنلز کو لیڈ کرنے کے لئے غیرمعمولی پیشہ ورانہ صلاحیت کی ضرورت ہے۔ ورنہ پھبتی اڑنے میں وہ ثانی نہیں رکھتے۔ چند برس کی بات ہے کہ سینئر افسران میٹنگ کے لئے نیچے ہال میں جمع تھے۔ عمر رسیدہ، جہاندیدہ، سفید ریش وزیرخارجہ کا انتظار تھا۔ جب کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی تو ایک اہلکار کو وزیر صاحب کے دفتر بھیجا گیا۔ وہ وہاں بھی نہ ملے تو ایک سینئر افسر کی رگ ظرافت پھڑکی۔ بولے، کیا کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا؟ اہلکار بولا، جناب! نائب قاصد تھا“۔ جواب ملا اسی کو لے آتے، ایک ہی بات ہے Equally good۔
فارن آفس میں محترمہ حنا ربانی کھر کی عمر کے افسران 17، 18 گریڈ میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنی باس کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ وزیرخارجہ ملک کا چہرہ مہرہ ہوتا ہے۔اس منصب کیلئے ہر لحاظ سے بہترین شخصیت کو سامنے لایا جانا چاہئے تھا۔ ہم تو جونیئر لوگ ہیں، بڑے لوگوں سے کیا مقابلہ؟ مگر خدا لگتی کہئے کہ محترمہ حنا ربانی کھر کا سیکرٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن، برطانوی ہم منصب ولیم ہیگ، فرنچ وزیرخارجہ لارنٹ فیبی اس روسی وزیرخارجہ سرگی لیوروو، بھارتی منصب سلمان خورشید، حتیٰ کہ ان کی نائب وزیرخارجہ محترمہ پرینیت کور کے ساتھ کوئی جوڑ بنتا ہے؟
تازہ ترین