• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائبر سیکیورٹی انڈسٹری میں ایک بحران کی کیفیت طاری ہے۔ وجہ؟ سائبر سیکیورٹی انڈسٹری کو اس صنعت میں تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ افرادی قوت میسر نہیں آرہی۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق، آئندہ دو برسوں میں صرف بھارت کو 20لاکھ سائبر سیکیورٹی پروفیشنلز درکار ہوں گے۔ ایک اور اندازے کے مطابق، 2022ء تک دنیا بھر میں 35لاکھ سائبر سیکیورٹی پروفیشنلز کی ضرورت ہوگی۔ مارکیٹ میں سائبر سیکیورٹی پروفیشنلز کی بڑھتی مانگ کا اندازہ اس شعبے میں پیش کی جانے والی تنخواہوں سے بھی ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل، ورلڈ اکنامک فورم کی جابز رپورٹ2018ء میں کہا گیا تھا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی تبدیلیاں روایتی نوکریوں اور روایتی کیریئر کے لیے بتدریج بڑا چیلنج بنتی جائیں گی۔ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا کی کوئی ترقی یافتہ ریاست ایسی نہیں ہوگی، جو ہنرمند افرادی قوت کی کمی کے خلاء کو پُر کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہ کررہی ہو۔ تاہم یہ کہنا کہ دنیا کو زیادہ سے زیادہ ’سائبر‘ پروفیشنلز کی ضرورت ہے، ایسا ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ دنیا کو زیادہ سے زیادہ ’میڈیکل‘ پروفیشنلز درکار ہیں۔ دونوں باتیں ہی درست ہیں۔ دنیا بھر کی حکومتیں اور کارپوریشنز سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میتھس (STEM)پر کام کررہی ہیں۔ اس ٹیلنٹ پول میں ایسی افرادی قوت کو شامل کیا جارہا ہے، جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہر لمحے آنے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور ان تبدیلیوں سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ان تبدیلیوں کے پیشِ نظر ، ماہرین کا ماننا ہے کہ ، چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ’سائبر ورلڈ‘ کے لیے دنیا کو ایسے ماہرین کی ضرورت ہوگی، جو مندرجہ ذیل چار خصوصیات کے حامل ہوں گے۔

1- تخلیق

آرٹیفیشل انٹیلی جنس، آٹومیشن اور مشین لرننگ ٹیکنالوجی کے لیے سائبر سیکیورٹی کو دنیا کی اہم ترین صنعتوں میں شمار کیا جارہا ہے۔ آج بھی سائبر حملوں کا تجزیہ کرنے اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے ’وکٹورین فیکٹری ماڈل‘ کی طرح دستی مہارت کا طریقہ (Manual Process)اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک سیکیورٹی آپریشنز سینٹر کی ہی مثال لے لیجئے۔ آج دنیا کا ہر سیکیورٹی آپریشنز سینٹرایسے ’پراسیس‘ اور ’ایکشنز‘ کی ایک طویل فہرست رکھتا ہے، جن کے ذریعے وہ مکمل آٹومیشن کی طرف جانا چاہتا ہے۔ آٹومیشن پر جانے کے بعد، ان ماہرین کو نئی صلاحیتیں درکار ہوں گی۔

سیکیورٹی آپریشنز سینٹر کو چلانے کے لیے آٹومیشن ان دونوں وسائل کو بہت سا وقت لینے والے کاموں سے فرصت فراہم کرے گا، جس کے نتیجے میں ان وسائل کو نئی ٹیکنالوجی کی ترقی، سیکیورٹی کے نئے معاملات، سائبر رِسک کو جانچنے کے نئے طریقے ایجاد کرنے، تحقیق کرنے اور خطرات کی وجوہا ت جانچنے پر لگایا جاسکے گا اور یہی وہ ہنر ہیں،جو مستقبل قریب میں اس انڈسٹری کو درکار ہوں گے۔

2-مسائل حل کرنا

ان میں ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ ’سائبر سیکیورٹی ماہرین پیچیدہ ریگولیٹری اور قانونی ماحول میں سائبر خطرات کے خلاف جدت اور سرحد پار اشتراک کے لیے حالات کو کس طرح زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں سازگار بناسکتے ہیں‘۔

ورلڈ اکنامک فورم کے ’سینٹر فار سائبر سیکیورٹی‘ کے حالیہ سالانہ اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ عالمی ریگولیٹری ماحول میں عدم موافقت کے باعث بین الاقوامی اشتراک میں درپیش رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں سائبر سیکیورٹی پروفیشنلز کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنے ٹیکنکل ہونے کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا اور دنیا بھر کی حکومتوں اور ریگولیٹری اداروں کو اس جانب مائل کرنا ہوگا۔

3-قائدانہ صلاحیتیں

مستقبل کے سائبر لیڈرز کو مشکل چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ انھیں نہ صرف سائبر سیکیورٹی کے بتدریج پیچیدہ ہوتے ٹیکنیکل سسٹم کو سمجھنا ہوگا بلکہ انھیں دنیا بھر میں کام کرنے والے اپنے ماہرین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے، ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے اور متنوع سماجی و ثقافتی طبقات سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز کی ضروریات کو بھی سمجھنا ہوگا۔ ایسے میں وہ سائبر سیکیورٹی منیجرز ہی اپنا وجود برقرر رکھ پائیں گے اور ترقی کی منازل طے کریں گے، جو نہ صرف اپنے ٹیکنکل اسٹاف سے بہترین کام لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں گےبلکہ وہ پیچیدہ ریگولیٹری ماحول میں حکومتوں کے ساتھ اشتراک اور اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہوں گے۔

4- غیرمعمولی سوچ

سائبر جرائم کی تحقیقات کرنا ایک مشکل طلب کام ہے۔ نئے سسٹم اور جدید ٹیکنالوجیز جیسے Offensive AIاسے مزید مشکل بنادیں گی۔ بچاؤ کے مؤثر ماڈل بنانے میں انتساب (Attribution) اور استغاثہ (Prosecution) دو ایسے خلاء ہیں، جنھیں بھرنا آسان نہیں۔ سائبر سیکیورٹی پروفیشنلز کو اس غیرمعمولی سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا کہ مجرم حملے کرنے کے لیے ٹیکنیکل سسٹم کو کس کس طرح استعمال کرسکتے ہیں اور انھیں یہ سوچنا ہوگا کہ انھیں ان حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کرنا ہوگابلکہ ان کے جرم کو عدالت میں کس طرح ثابت کیا جاسکے گا۔ یہ سب کرنے کے لیے سائبر سیکیورٹی پروفیشنلز کو ٹیکنیکل اور مشینی انداز سے نکل کر انسانوں کے انداز میں سوچنا ہوگا۔

تازہ ترین