• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ طاہر القادری کے لاہور کے جلسے میں کئی اچھی باتیں کی گئیں اس کے ساتھ ساتھ اس جلسے نے کئی سوال بھی اٹھائے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات آئین کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے والے لوگ ایماندار‘ دیانتدار اور کرپشن سے پاک ہوں۔لٹیروں کو پارلیمینٹ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ انتخابات کرانے کے لئے عبوری حکومت عدلیہ ‘ فوج اور تمام جماعتوں کی مشاورت سے قائم کی جائے۔ یہ ایسی خوش کن باتیں ہیں کہ سب کے دل کی آواز لگتی ہیں۔ اس کے بعد علامہ نے انتخابی نظام میں اصلاحات کے لئے حکومت کو 10جنوری تک کی مہلت دی اور کہا کہ اگر اس دن تک یہ نہ ہوا تو پھر 16 جنوری کو 40لاکھ افراد اسلام آبادپہنچیں گے۔
لاہور کے اقبال پارک میں مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والے اس جلسے کا تھیم تھا ”سیاست نہیں ریاست“۔ علامہ طاہر القادری کے ادارے نے مہم کی تشہیر اس انداز سے کی جیسے یہ بالکل نیا فلسفہ یا بالکل نیا نعرہ ہو۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ نعرہ اس سے پہلے کئی بار لگایا گیا ہے۔ اس نعرے کی تاریخ بیان کرنے سے پہلے میں سیاست اور پاکستان کے بارے میں چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔ پاکستان کا قیام سیاست کے باعث عمل میں آیا تھا۔ پاکستان کا مطالبہ کرنے والی جماعت ایک سیاسی جماعت تھی۔ اس جماعت کے صدر کا ہر سال باقاعدگی سے انتخاب ہوتا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے عہد صدارت میں قیام پاکستان کا مطالبہ کیا گیا اور سیاسی جدجہد ‘سیاسی عمل اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے علامہ اقبال کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا گیا۔ اسی علامہ اقبال پارک میں جو اس وقت منٹو پارک تھا قرارداد پاکستان پیش ہوئی تھی اور اس کے پیش کرنے والے‘ تائید کرنے والے سب سیاستدان تھے اور اس قرارداد کو منظور کرنے والے مسلم عوام تھے۔قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کے ہجرت کے مرحلے میں جو مشکلات پیش آئیں ان کو سیاست دانوں ہی نے سنبھالا۔ کانگریسی لیڈروں پٹیل وغیرہ کا خیال تھا کہ پاکستان6ماہ سے زیادہ نہ چل سکے گا ان سے فروری48تک بجٹ نہ بن سکے گا اور مجبوراً یہ ہمارے قدموں میں آگریں گے لیکن سیاستدانوں کی حکومت نے28فروری کو جو بجٹ پیش کیا اس نے ہندی سیاستدانوں کو سوگ کی کیفیت سے دوچار کردیا۔ پاکستان کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں ملنے والی رقم کو کانگریسی حکومت نے روک لیا تھا۔ اس وقت سیاستدانوں ہی نے اپنے جذبہ ایثار اور دیانتداری سے ملک کو مشکلات سے نکالا۔پاکستان کی حکومت کی ابتدا آزمائشوں اور مشکلات سے ہوئی لیکن سیاست دانوں کی حکومت نے اس کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کرنا شروع کیا۔ سیاسی حکومتوں کے دور میں قائد اعظم کی قانون ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے پر کی جانے والی پہلی تقریر کے نکات کو پیش نظر رکھا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کا پہلا کام عوام کے جان و مال کا تحفظ اور پھر ملک کو کرپشن سے پاک اور رشوت خوری ‘ لوٹ مار اور اقربا پروری سے بچانا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کا جو انداز ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم پاکستان کے اولین سیاسی دور پر نظر کریں تو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا دامن کرپشن سے پاک نظر آتا ہے۔ نہ لائسنس لئے نہ پرمٹ‘ نہ پلاٹ لئے نہ پلازہ بنوائے۔ نہ ملکی یا غیر ملکی بنکوں میں روپیہ جمع کرایا۔ اپنی اولاد کو پارٹی یا حکومت کا کوئی عہدہ بھی نہ دلوایا۔ پھر ملک کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی ایمانداری اور دیانتداری کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ محمد علی بوگرا‘ حسین شہید سہروردی بھی کسی مالی کرپشن میں ملوث نہ ہوئے۔ چوہدری محمد علی کی دیانت کے بے شمار واقعات موجود ہیں اور ان کے دور میں کرپشن کا کوئی معمولی سا واقعہ بھی نہ ہوا۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر نہایت دیانتدار اور سادہ مزاج وزیر اعظم تھے پھر فیروز خان نون نے اپنے ذاتی سرمایہ سے گوادر کی بندرگاہ جو مسقط کا حصہ تھی خرید کر پاکستان کے جغرافیہ میں شامل کی۔ اگر گوادر مسقط کا حصہ رہ جاتا تو 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین آسانی سے اس پر قبضہ کرلیتا اور پھر شاید پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔اب بات ”سیاست نہیں ریاست“ کے فلسفے اور نعرے کی۔ تو یہ نعرہ پہلی بار نہیں لگ رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے یہ نعرہ اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے7/اکتوبر1958ء کو لگایا تھا۔ اسمبلیوں اور آئین کو توڑ کر اس نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تھا اور یہی نعرہ لگایا تھا کہ ہم نے ملک کو سیاست دانوں کے پنجوں سے نکال کر اسے بچانے کے لئے یہ اقدام کیا ہے۔ وہ صرف 20دن ہی ریاست کو بچاسکے۔ اس کے بعد جنرل ایوب خان نے ریاست کو مزید بچانے کے لئے اسکندر مرزا کا تختہ پلٹ کر حکومت سنبھال لی اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقدامات کرنا شروع کردیئے۔ پاکستان کی تاریخ میں کرپشن کا باقاعدہ آغاز اس دور سے ہوا۔ کرپشن کے ہر ہر انداز کی کاشت کا آغاز ہوا اور پھر اس کرپشن اور لوٹ مار کے نتیجے میں ریاست دو ٹکڑے ہوگئی، ایوب خان کے آخری دور میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ گول میز کانفرنس بھی ہوئی تھی لیکن پھر یحییٰ خان نے نعرہ لگایا ۔ سیاست نہیں ریاست۔ اس نے ایک بار پھر آئین توڑا۔ انتخابات کرائے اور ملک توڑدیا۔ آدھے ملک کا نام پاکستان رکھ کر ذوالفقار علی بھٹو پہلے مارشل لاء انڈمنسٹریٹر‘ پھر صدر اور پھر وزیر اعظم بنے اور 5سال بعد جب انہوں نے انتخابات کرائے تو اس میں دھاندلی کے شواہد سامنے آئے۔ ان کے خلاف مظاہرے ہوئے ۔ وہ ایک زیرک سیاست دان تھے انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں سے مذاکرات کئے۔ کئی نشستوں پر دوبارہ انتخابات پر آمادہ ہوئے لیکن اس موقع پر جنرل ضیاء الحق نے نعرہ لگایا ”سیاست نہیں ریاست“۔ انہوں نے آئین کو معطل کیا اور پھر90دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہوسکا اور وہ دس سال تک سیاست نہیں ریاست کے نعرے پر حکومت کرتے رہے۔ ذاتی طور پر وہ کرپشن میں ملوث نہ تھے لیکن ان کی حکومت میں کرپشن کے تمام کل پرزے پوری طرح سے کام کرتے اور پنپتے رہے۔ ان کے بعد پھر ایک بار یہ نعرہ جنرل پرویز مشرف نے لگایا۔ سیاست نہیں ریاست کا نعرہ لگاکر ریاست کی مدد اور عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدوں سے بھری تقریر کی۔ سات نکاتی ایجنڈا بھی دیا اور کرپشن اور لوٹ مار کو پروان چڑھاتا رہا اور ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوتا رہا۔ پرویز مشرف نے جاتے جاتے امارات میں ہونے والے این آر او معاہدے کے ذریعے موجودہ حکومت کی داغ بیل ڈالی اور آج پاکستان کرپشن کے جس مقام پر ہے اس کو بیان کرنا عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترداف ہوگا۔ قانون ساز اسمبلی کے صدر منتخب ہونے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے11/اگست1947ء کو جو تقریر کی تھی اس کے ایک ایک نکتے کی آج بھرپور انداز میں نفی ہورہی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تھے ان کو یہ عہدہ ورثے میں نہ ملا تھا۔ایک موقع پر پارٹی نے ان کو تاحیات صدر مقرر کرنا چاہا لیکن قائد اعظم نے انکار کردیا اور کہا کہ میں ہر سال ووٹ لے کر منتخب ہونا چاہتا ہوں ۔ قائداعظم کے دور میں ہمارے شمالی علاقوں میں انگریز کی ایک سو سال سے مقرر فوج ہٹالی گئی۔ قائداعظم نے قبائلیوں سے کہا کہ پاکستان ان کا وطن ہے اور اس کی حفاظت وہ خود کریں گے لیکن سیاست نہیں ریاست کا نعرہ لگانے والے جنرل نے امریکہ کی جنگی حکمت عملی کے تحت یہاں ایک لاکھ پاکستانی فوج تعینات کردی۔ اب یہاں تواتر سے ڈرون حملے ہوتے ہیں اور ملک میں آئے دن سانحات پیش آتے رہتے ہیں۔ آج امریکہ اپنی ریاست بچانے کیلئے پیرس میں سیاست کے میدان سجا رہا ہے اور افغانی طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ گیارہ سال تک افغانستان میں سر کھپانے اور شکست کھانے کے بعد اس کی سمجھ میں آیا ہے کہ امریکہ کو ٹوٹنے سے بچانا ہے تو جنگ نہیں‘ سیاست کرنی ہوگی۔مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والے اس جلسے کے شرکاء کی تعداد مختلف حوالے سے مختلف رہی۔ ادارہ منہاج القرآن نے یہ تعداد 20لاکھ بیان کی ہے۔ جلسے کے آغاز سے اختتام تک 3نمازوں کا وقت آیا۔ علامہ صاحب کی تقریر کے دوران بادشاہی مسجد کے مینار سے عصر اور مغرب کے وقت ”اللہ اکبر“ کی آواز گونجی نماز کیلئے آؤ کی دعوت بھی دی گئی لیکن مجمع ٹس سے مس نہ ہوا۔ نہ اسٹیج سے تقریر رکی ۔ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر مجمع کی تعداد 20لاکھ تھی تو تین وقت کی60لاکھ نمازوں کی قضاء کا ذمہ دار کون ہوگا، سیاست یا ریاست؟
تازہ ترین