• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرد ہو یا قوم، زندگی کی خوبصورتی و رعنائی یہ ہے کہ وہ اپنے آج کے لیے جیے۔ اس سے جو اعتماد آتا ہے وہ ترقی یا سربلندی کا زینہ بنتا ہے لیکن اگر کوئی انسان یہ سمجھے کہ میرا آج تو بہت خراب ہے، جو گزرے ہوئے برُے کل سے جڑا ہوا ہے لیکن میں آنے والے کل کو اچھا بنانا چاہتا ہوں، اگرچہ سوچ یہ بھی برُی نہیں ہے مگر نتائج کے لحاظ سے اس کی آؤٹ پُٹ مثبت کے بجائے ہمیشہ منفی رہے گی، یعنی حاصل حصول کچھ نہیں، صرف یہ دکھائی دے گا کہ میں تو گزرے کل کی کوتاہیوں کو درست کر رہا ہوں، اچھے دن تو ابھی آنے ہیں، بس اُن کے لیے محنت یا پلاننگ کر رہا ہوں۔ یوں وہ پوری زندگی انہی سہانے خوابوں میں گزار کر منزلِ مقصود حاصل کیے بغیر مر جائے گا۔ اس کی جو کیفیت آغازِ کار میں تھی وہی اختتامِ کار پر بھی رہے گی۔افراد کی طرح ترقی پذیر اور ترقی یافتہ اقوام کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ترقی پذیر اقوام اپنے آنے والے کل کے لیے جیتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ اقوام نہ صرف اپنے حاضر و موجود، آج کے لیے جیتی ہیں بلکہ نئے صبح و شام پیدا کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام اور ان کے افراد دنیا کو نئی سے نئی ایجادات ہی نہیں دیتے ہیں بلکہ ہر شعبہ حیات میں نئی کونپلیں اگاتے اور علم و ہنر کی نت نئی خوشیاں بانٹتے ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان لاریب ایک ترقی پذیر ملک یا قوم ہے بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ بارہایوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم ترقی پذیر کی بجائے تنزلی پذیر قوم ہیں جس کا آج اس کے گزرے کل سے بہتر نہیں بلکہ بارہا بد تر محسوس ہونے لگتا ہے، کبھی چار قدم آگے بڑھتے محسوس ہوتے ہیں تو اچانک ریورس گیئر لگ جاتا ہے اور ایک ہی جھٹکے میں پانچ قدم پیچھے جا گرتے ہیں۔ پھر کپڑے جھاڑ کر اٹھتے ہیں اور بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ نعرے ہانکتے ہیں کہ ماضی میں تو سب غلط تھا، اب ہم نیا پاکستان بنانے آگئے ہیں لیکن سال نہیں گزرتا کہ تجزیہ کار رونے لگتے ہیں کہ نیا کیا خاک بننا تھا، یہ تو پرانے کی بھی بربادی ہو رہی ہے۔

اصلیت جو بھی ہے اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر آج کے دن تک ہم کبھی بھی اپنے آج کے لیے نہیں جئے، ہمیشہ سہانے کل کے لیے سپنے دیکھتے ہیں یا دکھاتے ہیں۔ 70سالہ تاریخ کا جائزہ لے لیں، وہ کل ہمیں کبھی میسر نہیں آ سکا اور درویش کو سرنگ کے پار کسی نوع کی کوئی روشنی کم از کم اگلی ایک صدی تک بھی نہیں دکھتی۔ بنے گا بگڑے گا مگر میرے خیال میں یہ ملک ایسے ہی رہے گا، تاوقتیکہ نئی جغرافیائی تبدیلیاں وقوع پذیر نہ ہو جائیں۔ اسی تصو یر کا دوسرا رخ بھی ہے وہ یہ کہ مجھ سمیت کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ منفی منظر نامے کی یوں تصویر کشی کرے، تلخ زمینی حقائق یا سچائیاں جو بھی ہیں مگر یہ دنیا امید کے سہارے پر قائم ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ جیسے تیسے پتلے حالات میں ہم نے آگے بڑھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا، سوئی سے بسم اللہ پڑھتے ہم سوئی گیس نکالنے تک پہنچے، ہمارا مجموعی انفرااسٹرکچر اتنا برُا نہیں ہے کہ جس پر ٹسوے بہانا شروع کر دیں۔ ہم پاکستانیوں نے اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک جا کر بھی اتنی محنت کی ہے، اتنا زیادہ زرمبادلہ کمایا ہے کہ جس سے اندرونِ ملک ہمارے گھروں میں خوشحالی آئی ہے، کچے مکانوں سے پکے مکانوں میں منتقل ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر ہمارا معیارِ زندگی بڑھا ہے، قومی سطح پر ہم ایک علاقائی طاقت ہی نہیں پوری دنیائے اسلام میں واحد نیوکلیئر حیثیت کی حامل قوم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر رونا کس بات کا ہے؟ آخر ہم کیوں کشکول اٹھائے جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے ہیں؟ سب سے بڑا رونا اس بات کا ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم اپنے اصل دکھ درد یا بیماری کو سمجھ نہیں پا رہے۔ اصل بیماری یہ ہے کہ ہم لوگ مجموعۂ تضادات یا بھان متی کا کنبہ ہیں، کوئی قومی سوچ ڈویلپ کر سکے ہیں نہ کوئی ٹھوس نظریۂ حیات یا سسٹم تشکیل دے پائے ہیں۔ ہماری کوئی جاندار قومی اقدار ہیں نہ کوئی ترجیحات۔ نہ ان کے لیے کوئی خاص معیارات۔ دفاعی لحاظ سے ہم جتنی بھی مضبوطی پر ہیں، اخلاقی و انسانی حوالوں سے اتنی ہی پستی میں گرے ہوئے ہیں۔ کیا ہم نے بحیثیتِ قوم کبھی غور کیا ہے کہ دفاعی حوالوں سے بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں، اخلاقی، سیاسی اور معاشی کوتاہیوں کے کارن قہر مذلت میں جا گری ہیں، ایسی بربادیاں ہوئی ہیں کہ پھر کبھی اٹھ نہیں سکیں؟ عصرِ حاضر میں سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔مغربی اقوام نے جب تک اپنے لیے اعلیٰ اخلاقی، سیاسی یا انسانی معیارات نہیں اپنائے ان کے تمام تر وسائل بدترین عالمی جنگوں کا ایندھن بنتے رہے، بالآخر انہی اقوام کو Hague Conventionsکے بعد جنیوا سے نیویارک تک لیگ آف نیشن سے اقوامِ متحدہ تک امن و سلامتی اور پُرامن بقائے باہمی کے اصول و ضوابط اپنانا پڑے۔ جب تک ہم لوگ کائنات کے ابدی حقائق اور سچائیوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتے، وہ ابدی سچائیاں کہ اگر آپ دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ جینا چاہتے ہو تو دوسروں کو عزت و احترام دو، اگر آپ پُرامن قومی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو دوسروں کی طرف امن کے پھول بھیجو، تب تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔ خود ستائی کی بجائے خود احتسابی کی سوچ اپناؤ، ڈنگ ٹپائو پالیسی کو ختم کرو۔ اپنی 70سالوں پہ محیط کوتاہیوں پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے اپنا چہرہ ماضی پرستی سے مستقبل کی طرف پھیرو۔ سیاسی عدم استحکام نے آپ کو ایسی دلدل میں پھینکا کہ نکلنے اور گرنے کی مشق میں مستقل مبتلا ہو کر رہ گئے ہو۔ قیادتیں آسمانوں سے نہیں ٹپکتی ہیں، فکری طور پر زرخیز زمینوں سے ہی نمودار ہوتی ہیں لیکن اگر قیادت کی نرسریوں پر طاقتوری کا زہر پھینک دیا جائے تو کہاں سے آئے گی صدا لا الہ الا اللہ، پھر تو ڈنگ ٹپائو پالیسی ہی چلے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین