• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غربت، بے روزگاری اور روز افزوں مہنگائی کی چکی میں پستے، علاج معالجے کی عام سہولتوں سے بھی محروم کروڑوں پاکستانیوں کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے ملک بھر میں جان بچانے والی ادویات سمیت تمام دواؤں کی قیمتوں میں نو سے پندرہ فیصد اضافے کا فیصلہ ان کے روز و شب کی تلخیوں کو یقیناً مزید بڑھانے کا سبب بنے گا۔ گزشتہ روز ڈریپ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق دوا ساز کمپنیوں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی منظوری سے جان بچانے والی تقریباً ساڑھے چار سو دوائوں کی قیمت میں نو فیصد جبکہ بقیہ تمام دوائوں کی قیمت میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی وکالت کرتے ہوئے غربت کے مارے عوام کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑکنا بھی ضروری سمجھا گیا کہ اس اضافے کے باوجود پاکستان میں ادویات کی قیمتیں بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر قیمتوں سے کم رہیں گی۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھی جانی چاہیے تھی کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں تمام شہریوں کو علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہے اور محض وسائل کی کمی کے سبب کوئی شہری ان سہولتوں سے محروم نہیں رہتا۔ ڈریپ کے ترجمان کے بقول ڈالر کی قدر، گیس اور بجلی کے نرخوں، ایڈیشنل ڈیوٹی، شرح سود اور ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں بڑھانا ضروری تھا جبکہ قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض ادویات اور ویکسین کی عدم دستیابی کی شکایات بھی سامنے آ رہی تھیں، کئی کثیر القومی کمپنیاں ناسازگار صورتحال کے باعث پاکستان سے واپس جا چکی اور مزید کئی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹنے کا ارادہ کر رہی تھیں، ان حالات میں دوا سازی کی مقامی صنعت کی جانب سے دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ مسلسل بڑھ رہا تھا، لہٰذا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تمام متعلقہ فریقوں سے مشاورت کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ ملک میں ادویات کی دستیابی، نئی انویسٹمنٹ اور فارما سیوٹیکل صنعت کے فروغ کیلئے قیمتوں میں نو اور پندرہ فیصد اضافہ کیا جائے چنانچہ اس مقصد کیلئے وزارتِ صحت کی جانب سے ضروری کارروائی کے بعد وفاقی حکومت کی منظوری سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا یہ بیانیہ بظاہر مکمل طور پر معاملے کے صرف ایک فریق یعنی دوا ساز کمپنیوں کے موقف کی وکالت پر مبنی نظر آتا ہے۔ صارفین اور عوام کے موقف کا اس میں کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا جبکہ اس فیصلے کا اصل ہدف وہی ہیں۔ برسوں سے دواؤں کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہ ہونے کے دعوے کے برعکس عام صارف کا تجربہ یہ ہے کہ آئے دن مختلف ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ان کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہتی ہیں، تاہم اگر ادویہ کی قیمتیں بڑھانا بالکل ناگزیر ہو تب بھی علاج معالجے کی سہولتوں کو ہر شہری کی دسترس میں رکھنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ملک میں کم سے کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے جبکہ بہت سے اداروں میں آج بھی اس کی پابندی نہیں ہوتی، تاہم اگر چار پانچ افراد کے ایک کنبے کو پندرہ ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی حاصل ہو رہی ہو تب بھی اس رقم میں روز کی دال روٹی، گھر کے کرائے، بجلی گیس پانی کی بلوں کی ادائیگی اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا یقیناً محال ہے۔ ایسی صورت میں تمام ادویہ کی قیمتوں میں یکایک یہ اضافہ کروڑوں پاکستانیوں پر بجلی گرانے کے مترادف ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر غور لایا جائے اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد کوئی ایسا طریقِ کار تلاش کیا جائے جو دوا سازی کی صنعت کے مسائل بھی حل کرے اور عوام کے لیے ادویات اور علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی بھی یقینی بنائے۔ اس مقصد کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس کی اسکیم متعارف کرائی جا سکتی ہے اور اس کے لیے وسائل دولت مند طبقات پر خصوصی ٹیکس عائد کر کے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

تازہ ترین