• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے مستقبل کو اسکول، گھر پہنچاتی غیر محفوظ ویگنیں

میں اپنے معمول کے مطابق نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد دفتر جارہا ہوں۔ گاڑی گلی سے نکل کر آگے بڑھ رہی ہے۔ چلڈرن پارک کے قریب کھڑی ایک گاڑی اچانک مڑتی ہے۔ ہمارے ڈرائیور کو اچانک بریک لگانا پڑتا ہے۔ عین اسی وقت پیچھے گاڑی کے ٹکرانے کی آواز آتی ہے۔ ہماری کار پوری طرح ہل جاتی ہے۔ کانپتے لرزتے نیچے اترتے ہیں تو ایک پرانی بڑی اسکول وین دکھائی دیتی ہے۔ جو ہماری گاڑی سے ٹکرائی ہے۔ وین میں بچوں کے چہروں پر خوف دکھائی دے رہا ہے۔ خیریت گزری ہے۔ صرف ہماری کار کو نقصان پہنچا ہے۔ کسی کو چوٹ یا خراش تک نہیں آئی۔ ہمارا ڈرائیور چوکناتھا۔ اس نے بریک لگالی تھی۔ اسکول وین کے ڈرائیور نے بریک لگانے کی بجائے گاڑی ٹکرادی۔ ڈرائیور کے عینک لگی ہوئی ہے اور کہہ رہا ہے میری نظر نہیں پڑی۔بچوں کے سہمے ہوئے چہرے دیکھ کر میں گاڑی کا نقصان بھول گیا ہوں۔ وین ڈرائیور سے کہہ رہا ہوں اتنی بڑی گاڑی پر نظر نہیں پڑی۔ بچے لے کر جارہے ہو۔ ہمارا قیمتی مستقبل۔ تمہیں تو عام ڈرائیوروں سے کہیں زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔

یہ اسکول وینیں یا ویگنیں ہمارے مستقبل کو گھر سے اٹھاتی ہیں۔ پھر گھر چھوڑتی ہیں۔ ہم بچے ان کے حوالے کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کبھی نہیں سوچتے کہ ان کا ماڈل کونسا ہے۔ ان کی فٹ نس(صحت) کے سر ٹیفکیٹ کس نے جاری کئے ہیں۔ ڈرائیور کون ہیں۔ ان کا سابقہ ریکارڈ کیا ہے۔ ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے یا نہیں۔ وین کا مالک کون ہے۔ڈرائیور خود بھی پرانے ہوتے ہیں۔ گاڑیاں ان سے بھی پرانی۔ صرف کراچی میں نہیں پورے ملک میں یہی حال ہے۔ منافع کمانے کے لئے یہ گیس کے سلنڈر لگاتے ہیں۔ جن سے یہ اور بھی خطرناک ہوجاتی ہیں۔ ایسے ایسے المناک حادثے ہوچکے ہیں۔ مائوں کے کلیجے پھٹ چکے ہیں۔ باپ رو رو کر تھک چکے ہیں۔ مگر یہ کاروبار جاری ہے۔

آج اتوار ہے۔ آپ گھر پر ہوں گے۔ ابھی ابھی سو کر اٹھے ہوں گے۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے بات کرنے ان کی سننے کا وقت ضرور نکالتے ہوں گے۔ ورنہ لنچ تو اکٹھا ہی کرتے ہوں گے۔اس لئے میں آج اپنے مستقبل کی حفاظت کی بات چھیڑ رہا ہوں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بچوں بچیوں کو اسکول چھوڑنے ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو ضرور جانا چاہئے۔ یہ مقدس کام ڈرائیوروں اور نوکروں پر نہ چھوڑیں۔ بڑے بڑے اسکولوں کے باہر دیکھنے میں آتا ہے۔ ڈرائیور یا خادمائیں بچوں کے کارڈ سنبھالے انہیں اسکول کے گیٹ پر چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ ممی ڈیڈی سورہے ہوں گے۔اسکولوں کے سامنے طبقاتی تضاد کھل کر سامنے آتا ہے۔ امیروں کبیروں کی بڑی بڑی اور قیمتی گاڑیاں متوسط طبقے کی چھوٹی گاڑیاں۔ موٹر سائیکل۔ پھر کرائے کی اسکول ویگنیں۔ ہر صبح ہمارا مستقبل اس طرح طبقات میں تقسیم ہوتا ہے۔کچھ بچے احساس برتری، زیادہ تر احساس کمتری کے ساتھ علم حاصل کرنے داخل ہوتے ہیں۔

مہذّب اور ترقی یافتہ ملکوں نے تو اس تفریق کو مٹانے کے لئےپیلی اسکول بسوں کا اہتمام کیا ہے۔ سب بچے ان بسوں کے ذریعے اسکول آتے اور جاتے ہیں۔ یہ بسیں مستقبل کی امانت دار ہیں۔ جب یہ کہیں بچوں کو سوار کررہی ہوتی ہیں یا اتار رہی ہوتی ہیں تو ٹریفک رُک جاتا ہے۔ سب کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ہماری آنے والی نسل مستقبل کو روشن اور محفوظ بنانے کے لئےعلم کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ہم چند منٹ توقف کرلیں گے تو ہمارے کئی برس محفوظ ہوجائیں گے۔

یہ مثالی دَور تو اس مملکت خداداد میں نہ جانے کب آئے گا۔ کوئی صوبائی یا وفاقی حکمراں اس حوالے سے سوچتا بھی ہے یا نہیں۔ کسی قومی سیاسی پارٹی کے منشور میں بھی یہ وژن شامل ہے۔اس وقت پورے ملک میں جو اسکول وینیں چل رہی ہیں یہ تو چلتے پھرتے موت کے ہرکارے ہیں۔ بہت پرانی کھٹارہ گاڑیاں جو اور کسی کام نہیں آسکتیں۔ وہ پیارے بچوں بچیوں کو لے جانے پر لگادی جاتی ہیں۔ ڈرائیور گٹکے کھاتے ہیں۔ نسوار لیتے ہیں۔اسکول مالکان اور ٹرانسپورٹ مالکان کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ چھٹیوں میں جب گاڑیاں استعمال ہی نہیں ہوتیں ان کے بھی کرائے لئے جاتے ہیں۔ جب چاہیں کرایہ بڑھادیتے ہیں۔ سیٹوں کا برا حال ہے۔ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے۔ عام ویگنوں میں صرف ایک ڈرائیور ہوتا ہے۔ کوئی کنڈکٹر نہیں۔ ٹائر فرسودہ۔ جو بار بار پنکچر ہوتے رہتے ہیں۔

یہ اسکول وینیں بہت تیز چلائی جاتی ہیں۔ غلط رُخ پر بھی تیز چلتی ہیں۔ اسکول مالکان ان کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتے۔والدین کو تو فرصت نہیں ہے۔ وہ تو یہ سوچ کر مطمئن ہوتے ہیں کہ چند گھنٹے تو انہیں بچوں کی ذمہ داری سے چھٹی مل گئی ہے۔ اسکولوں میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ اس پر تو بات پھر کسی وقت کریں گے۔ ماں باپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ بچوں کو کونسی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں۔ ان کے مرتب کون ہیں، مصنّف کون،ان میں کس قسم کے مضامین ہیں۔

آپ بھی بچوں والے ہیں۔ پتہ نہیں آپ اسکول خود چھوڑنے جاتے ہیں یا وین لگوائی ہوئی ہے۔ شہر میں آپ کے آس پاس سے بھی اسکول وینیں تیزی سے گزرتی ہوں گی۔بچوں کو بھی بعض اوقات اس دوڑ میں مزاآرہا ہوتا ہے۔ وہ بچے جنہیں وین سب سے پہلے اٹھاتی ہے۔ اکیلے ہوتے ہیں۔ جنہیں سب سے آخر میں چھوڑتی ہے۔ اکیلے ہوتے ہیں۔ وہ ڈرائیوروں کے ہاتھوں میں کتنے محفوظ ہیں۔ایسے ڈرائیور جنہیں آگے چلتی یا کھڑی گاڑی نظر نہیں آتی۔ ان کے ہاتھوں میں ہمارے بچے کتنے بے اماں ہیں۔

یہ تو ہمارے کرنے کے کام ہیں۔ عمران خان۔ نواز شریف۔ زرداری کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اسکول مالکان۔ ٹرانسپورٹ مالکان۔ ڈرائیور بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ یہ سب بھی بچوں والے ہوں گے۔ یہ بھی دولت کے پیچھے اسی طرح بھاگ رہے ہیں جیسے نیب کو مطلوب یہ بڑے وزیر سفیر۔ حکمراں قائدین۔ اپنے اجتماعی مستقبل کا درد ان میں سے کسی کو نہیں ہے۔ صرف نوٹ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے وزیر۔ سیکریٹری۔ اور دیگر عہدیداران کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان خطرناک گاڑیوں کو ہمارے مستقبل سے نہ کھیلنے دیں۔ سب کو گھر بیٹھے ان کا حصّہ مل جاتا ہے۔ اتنی این جی اوز بنی ہوئی ہیں۔ امیر ملکوں سے تعلیم اور تحقیق کے نام پر ہزاروں ڈالر لیتی ہیں۔ وہ بھی اس انتہائی اہم اور حساس مسئلے کو قابل توجّہ نہیں سمجھتیں۔

یورپ امریکہ کینیڈا میں ہم نے دیکھا ہے کہ ریاست ہر بچے کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔اتنے سخت قوانین اور اصول بنارکھے ہیں۔ کس طرح کے بچے کو کار میں کس طرح لے جانا ہے۔ اس کی سیٹ کیسی ہوگی۔ اسکول بسیں کس معیار کی ہوں گی۔ اسکولوں میں بچوں کے لئے کیا کیا سہولتیں ہوں گی۔ وہاں حکومت اور مملکت کوفکر ماں باپ سے زیادہ ہوتی ہے۔ والدین کو جرمانے بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے دن آنے چاہئیں ہر بچہ یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ اللہ ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا ہے۔

تازہ ترین