یوں لگتا ہے کہ افغانستان میں سترہ سالہ جنگ کا خون آشام سلسلہ اس برس کسی انجام کو پہنچ سکتا ہے۔ لیکن عالمی و علاقائی کھلاڑیوں کا ایک نہایت گنجلک اور متحارب کھیل جانے کیا گُل کھلائے گا، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ جو سب سے غیریقینی اور فیصلہ کُن عامل ہے، وہ ہے صدر ٹرمپ کا کسی بھی وقت کوئی بھی دھماکہ خیز فیصلہ۔ وہ شام کی طرح کسی بھی وقت افغانستان سے 14,000 امریکی فوجیوں میں سے کم از کم آدھے تو نکال سکتے ہیں۔ اس کا عندیہ دیا جا چکا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغان طالبان نے اپنی یک طرفہ شرائط پر اپنا موقف اور سخت گیر کر دیا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے موجودہ دور کی چوتھی اہم ملاقات ایجنڈے پر اختلافات کی نذر ہو گئی ہے۔ طالبان نے نہ صرف افغان حکومت سے مذاکرات کرنے، جنگ بندی اور مستقبل کی وسیع البنیاد حکومت کے بارے میں بات چیت سے انکار کر دیا ہے، بلکہ پہلے امریکی فوجیوں کے انخلا اور طالبان قیدیوں کی رہائی پر اپنا اصرار بڑھا دیا ہے۔ امریکی صدر کے وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط کے جواب میں پاکستانی انتظامیہ نے امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ساتھ نہ صرف طالبان کی اعلیٰ سیاسی و حربی قیادت کے ساتھ اسلام آباد میں ملاقات کا اہتمام کروا دیا، بلکہ ابوظہبی میں امریکی وفود کے علاوہ، پاکستانی، سعودی اور خلیجی نمائندوں کی موجودگی میں طالبان سے مذاکرات کا اہم دور ہوا۔ اس اہم دور کے خاصے مثبت نتائج مرتب ہوئے اور طے پایا کہ جنوری کے وسط میں سعودی عرب میں ایک اور دور ہوگا۔ امریکہ کی جانب سے فوجوں کے انخلا پر لچک دکھانے سے اُمید بندھی تھی کہ طالبان افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت پر راضی ہو جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا اور قطر میں جو بات چیت ہونی تھی، طالبان نے اُسے معطل کر دیا۔ اس تعطل کو توڑنے کے لئے امریکی ایلچی خلیل زاد پھر سے خطے کے ممالک کے دورے پر نکلے ہیں، کہ طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت پر راغب کیا جائے۔ افغانستان کے صدر کے خصوصی نمائندے عمر دائود زئی نے اسلام آباد میں وزیرِ خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں، جن میں افغان حکومت کو یقین دلایا گیا ہے کہ پاکستان پوری کوشش کرے گا کہ طالبان افغان حکومت کے وفد کی مذاکرات کے اگلے دور میں شرکت پر آمادہ ہو جائیں۔ تادمِ تحریر طالبان کی جانب سے اس بارے میں آمادگی کا اظہار سامنے نہیں آیا۔
امریکی اور ناٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کا سوال افغانستان میں مستقبل کے سیاسی بندوبست سے جڑا ہوا ہے جس کا تمام تر دارومدار اس امر پر ہے کہ افغانستان کی خانہ جنگی میں شامل دو بڑے فریقوں یعنی افغان حکومت و سابق افغان مجاہدین اور طالبان کے مابین کوئی قابلِ عمل سیاسی سمجھوتہ ہو جو ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کو یقینی بنا سکے۔ لیکن طالبان کا اصرار ہے کہ اصل سوال بیرونی افواج کا انخلا ہے اور انخلا کی صورت میں وہ امریکہ کے تحفظات دور کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یعنی یہ کہ افغانستان عالمی دہشتگردی کے لئے استعمال نہیں ہوگا، نہ القاعدہ کی طرح کے کسی گروہ کی پشت پناہی کرے گا۔ افغان حکومت کو وہ امریکہ کی پٹھو حکومت گردانتے ہوئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل کرنے پر راضی نہیں۔ ایک بار پھر افغانستان اُسی طرح کے دوراہے پر کھڑا ہے جیسا کہ 1988 میں جنیوا معاہدے اور سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں صدر نجیب اللہ کی حکومت سے افغان مجاہدین نے اقوامِ متحدہ کے تحت کسی معاہدے سے انکار کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں نجیب اللہ کی حکومت کے 1992 میں خاتمے پر افغانستان نہ صرف ایک طویل خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا تھا بلکہ جو کچھ ریاستی ڈھانچہ تعمیر ہوا تھا وہ بھی زمین بوس ہو گیا۔ اور ایک طویل خانہ جنگی کے بعد طالبان نے کابل پر قبضہ تو جما لیا تھا لیکن افغانستان نسلی و حربی اعتبار سے منقسم ہو کر رہ گیا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ افغان طالبان اپنے پیشرو افغان مجاہدین کی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں۔ امریکہ کے واپسی کے ارادوں نے افغان طالبان کو یہ اُمید دلائی ہے کہ ممکنہ امریکی پسپائی سے فائدہ اُٹھا کر وہ افغان انتظامیہ کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ایک اور طویل خانہ جنگی کی صورت میں برآمد ہوگا۔ یہ شاید 2014 میں ممکن ہوتا، اگر امریکہ اُس وقت عام فوجیں نکال لیتا۔ ایک لاکھ سے زیادہ بیرونی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان کی قومی فوج (جو ساڑھے تین لاکھ لوگوں پر مشتمل ہے) نے اس تمام عرصےمیں طالبان کا مقابلہ کیا ہے۔ اگر امریکی پشت پناہی حاصل رہے اور مالی امداد بھی تو طالبان کا کابل پر قبضہ بہت مشکل ہوگا۔
لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اب جلدی میں ہے اور وہ وسط 2019 تک افغانستان میں کسی سمجھوتے کے لئے آخری کوششیں کرے گی۔ امریکیوں کا افغانستان میں زیادہ سے زیادہ مفاد یہ ہے کہ وہاں پھر سے عالمی دہشتگردی کا اڈہ نہ بن جائے، جس کی روک تھام کے لئے وہ افغانستان میں دو تین فوجی اڈے برقرار رکھنا چاہیں گے۔ جبکہ پاکستان کے مفاد میں یہ نہیں ہے کہ افغانستان سے امریکہ مکمل نکل جائے، افغانستان میں عدم استحکام پاکستان کو متاثر کرے یا پھر سے افغانستان ایک متحارب ملک بن جائے۔ دوسری جانب روس، وسط ایشیائی ریاستوں، ایران، چین اور بھارت کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات ہیں۔ اب تو صدر ٹرمپ روس، چین، پاکستان اور بھارت سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سنبھالو افغانستان ہم چھ ہزار میل دور ہوتے ہوئے کیوں یہ بلا مول لئے رکھیں۔ اندریں حالات، افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے تین طرح کے امکانی مناظر اُبھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اوّل:تمام عالمی و علاقائی قوتیں افغانستان میں پائیدار امن اور ریاستی و معاشی استحکام کے لئے مشترکہ کوششیں کر کے ایک وسیع البنیاد مصالحتی حکومت کی تشکیل ممکن بنائیں۔ دوم:امریکہ اچانک افغانستان سے راہِ فرار اختیار کر لے اور افغانستان پھر سے ایک بڑی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ اور اس کا ملبہ پھر سے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے سر آن پڑے۔ سوم:امریکی انخلا کا انتظار کرتے ہوئے اور اس کے انخلا پر طالبان پھر سے کابل پر قبضہ کر لیں اور افغانستان مستقل طور پر تقسیم ہو جائے۔ اگر اوّل الذکر منظر بپا نہیں ہوتا اور افغانستان پر ایک عالمی سمجھوتے کے نتیجے میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین کوئی قابلِ عمل سیاسی سمجھوتہ نہیں ہوتا تو پھر افغانستان میں پھر سے ایک نئی خانہ جنگی پھیلے گی جو خطے کے ممالک کو بھی غیرمستحکم کر سکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ افغانوں کے مابین سمجھوتے اور عالمی پشت پناہی سے مستقبل کی پیش بندی اور استحکام اس کے مفاد میں ہے۔ یا پھر امریکہ کے افغانستان سے راہِ فرار کی صورت میں پیدا ہونے والے خلا کو افغان طالبان کو کابل میں براجمان کرانا اس کے مفاد میں ہے۔ کابل پر افغان طالبان کے قبضے کی صورت میں، نہ صرف افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں رہے گا بلکہ پاکستانی طالبان کو پھر سے تقویت حاصل ہوگی۔ پاکستان کے لیے یہ سوچنے کا وقت ہے کہ 60 ہزار لوگوں کی قربانی دے کر شمال مغرب میں پائیدار امن کے قیام کی راہ ہموار کرنی ہے یا پھر اسٹرٹیجک گہرائی کے لئے طالبان کو کابل پر براجمان کرانا ہے۔ میرے اپنے خیال میں ایک وسیع البنیاد مفاہمتی حکومت جس کی عالمی برادری پشت پناہی کرے پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔ افغانستان کو پھر سے طالبان کے دور میں دھکیلنا ایک بڑا سانحہ ہوگا، جس کے پاکستان پر نہایت مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ دیکھتے ہیں کہ افغانستان کی خانہ جنگی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟