• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے فلاپ فلمیں بہت پسند ہیں۔ دوست احباب جب کسی فلم کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بالکل ڈبہ ہے، تو میری باچھیں کھل جاتی ہیں۔ پھر میں ٹائم نہ ہونے کے باوجود بھی کسی نہ کسی طرح وہ فلم دیکھ ہی لیتا ہوں۔ ایک دفعہ پتا چلا کہ ایک فلم بری طرح پٹ گئی ہے اور بس ایک دو روز میں سینما سے اتر جائے گی۔ میں نے پہلی فرصت میں ٹکٹ لیا اور سینما پہنچ گیا۔ گیلری کے دروازے پر ٹکٹ چیکر اونگھ رہا تھا۔ میں نے اسے ہلکا سا چھوا تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ میں نے ٹکٹ اس کی طرح بڑھائی۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا پھر جماہی لیتے ہوئے بولا ’’کی گل اے؟‘‘۔ مجھے خود بھی بھول گیا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔ کچھ دیر ذہن پر زور ڈالا‘ پھر خوش ہو کر کہا ’’فلم دیکھنی ہے‘‘۔ ٹکٹ چیکر نے بیزاری سے ہاتھ ہلایا ’’جائو دیکھو لو‘‘۔ میں بوکھلا گیا ’’لیکن میری سیٹ تو بتا دو‘‘۔ اس نے نیم وا آنکھوں سے دیکھا اور گال پر خارش کی ’’جا جتھے مرضی بہہ جا‘‘۔ اور میں سمجھ گیا کہ فلم ’سپر پٹ‘ جا رہی ہے۔

اندر داخل ہوا تو خوشی اور بڑھ گئی۔ الحمدللہ میری توقعات کے عین مطابق سارا ہال کھچا کھچ خالی تھا۔ فلم شروع ہوئی تو تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور صاحب میری ساتھ والی کرسی پر آکر بیٹھ گئے اور بڑے انہماک سے فلم دیکھنے لگے۔ میرا تجسس بڑھا کہ اتنی علانیہ فلاپ فلم دیکھنے والا یہ مردِ جری کون ہیں۔ انٹرول ہوا تو میں نے ان سے سلام لیا اور پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ فلم فلاپ ڈکلیئر ہو چکی ہے؟ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے کنپٹی کھجائی ’’تو پھر بھی آپ اسے دیکھ رہے ہیں‘ کوئی خاص وجہ؟‘‘۔ انہوں نے غصے سے مجھے گھورا ’’صرف تمہاری وجہ سے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ میں ساری بات سمجھ گیا۔ یقیناً انہوں نے مجھے ٹکٹ خریدتے دیکھا ہو گا تو سوچا ہو گا کہ فلم اچھی ہو گی۔ میں نے ان سے معذرت کی ’’معافی چاہتا ہوں لیکن آپ کو پہلے کسی سے پوچھ لینا چاہئے تھا کہ فلم کیسی ہے‘‘۔ وہ غرائے ’’مجھے پتا ہے فلم بکواس ہے‘ فلاپ ہے‘‘۔ میں بوکھلا گیا ’’لل…لیکن آپ تو کہہ رہے تھے آپ میری وجہ سے فلم دیکھ رہے ہیں؟‘‘۔ انہوں نے دانت پیسے ’’کیونکہ تم اٹھ کر جائو گے تو میری ڈیوٹی ختم ہو گی‘ میں نے ہال کو تالا لگانا ہے‘‘۔

میرے اکثر دوستوں کو شکایت ہے کہ میں کامیاب فلموں سے دور کیوں بھاگتا ہوں۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ کامیاب فلمیں مجھے زہر لگتی ہیں۔ دوسری بلکہ تیسری وجہ بھی یہی ہے۔ فلاپ فلم بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ مجھے کامیاب لوگوں کی کہانیاں بھی بہت بور لگتی ہیں۔ یہ چند لوگ ہوتے ہیں جو کروڑوں لوگوں کو بیوقوف اور جاہل ثابت کرکے خود کو نمایاں کر لیتے ہیں۔ یہی سب سے محنتی ہوتے ہیں‘ یہی زندگی کو سب سے الگ دیکھتے ہیں اور یہی کامیاب ہوتے ہیں۔ کامیاب لوگوں کی کہانیاں مسالا لگا کر بیچنا بڑا آسان ہے۔ مجھے مارکیٹ میں کوئی ایسی کتاب نظر نہیں آئی جس کا عنوان ہو ’’100ناکام ترین لوگ‘‘۔ ہر دوسری کتاب ’’ہاں تم کر سکتے ہو… کامیابی کے نسخے… کامیابی کی ضمانت… اور ناکامی کو کامیابی میں بدلیں‘‘ جیسے فارمولوں پر مشتمل ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ آدھے سے زیادہ لوگ ان کتابوں کو پڑھ کر ناکامی کے عروج پر پہنچے ہیں۔ کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ ایک بندہ بھوکا مر رہا ہو تو وہ کیا کرے؟ کسی کے پاس نوکری نہیں تو وہ کہاں جائے؟ زور صرف محنت پر ہے لیکن محنت کس چیز پر؟… ہوائی باتیں‘ خیالی قلعے…!!!

پچھلے دنوں میرے ایک موٹیویشنل اسپیکر دوست نے فرمائش کی کہ میں ان کے نئے سیشن میں شرکاء کو کامیابی کے نسخے بتائوں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے پچاس ہزار کا چیک میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ ظاہری بات ہے اب تو انکار بالکل بھی ممکن نہیں تھا۔ میں نے ان سے ایک وعدہ لیا کہ میں اپنی مرضی سے بولوں گا اور وہ مجھے بولنے دیں گے۔ و ہ خوشی خوشی راضی ہو گئے۔ میں مقررہ وقت پر ہوٹل پہنچ گیا ۔ پتا چلا کہ کامیابی کے نسخے والے سیشن کے لیے فی کس 5ہزار روپے فیس رکھی گئی ہے اور کوئی دو سو کے قریب خواتین و حضرات یہ رقم ادا کرکے تشریف لا چکے ہیں۔ یہ سب کسی منتر کی تلاش میں جمع ہوئے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ جب یہ یہاں سے نکلیں گے تو رکشے والے سے پہلے کامیابی اِن کے پاس آن کھڑی ہو گی۔ مجھے ڈائس پر بلایا گیا۔ میں نے ایک نظر حاضرین پہ ڈالی۔ ان کی نگاہوں میں عجیب سی بے بسی تھی‘ گویا ترس رہے ہوں کہ خدا کے لیے جلدی سے کامیابی کا نسخہ بتائو تاکہ زندگی کچھ آسان ہو سکے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ سب لوگوں نے پانچ ہزار فی کس کے حساب سے آج کے سیشن کی فیس ادا کی ہے؟ سب کا مشترکہ جواب آیا ’’جی ہاں‘‘۔

’اللہ والیو! پہلے تو میں آپ کو بتا دوں کہ مجھے ایک گھنٹہ کے لیے آپ پر مسلط کیا گیا ہے تاکہ آپ پر کامیابی کا راز افشا کروں۔ اس کام کے لیے مجھے پچاس ہزار روپے دیئے گئے ہیں۔ یعنی آپ لوگ پانچ ہزار دے کر یہاں آئے ہیں جبکہ میں پچاس ہزار وصول کرکے یہاں کھڑا ہوں۔ پہلے تو ذہن میں بٹھا لیجئے کہ مالی طور پر اس وقت آپ ناکام ہیں اور میں کامیاب۔ گویا ناکام لوگوں کی مدد سے زیادہ آسانی سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ آپ میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے یہ بات پتا نہ ہو کہ زندگی میں محنت کرنی چاہئے‘ اپنے کام پر توجہ دینی چاہئے‘ اللہ سے دعا کرنا چاہئے‘ اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر آ پ مجھ سے کیا سننے آئے ہیں؟ یہ جو پانچ ہزار روپے آپ نے میری چکنی چپڑی باتیں سننے کے لیے خرچ کیے ہیں، ان سے آپ کی بہت سی چھوٹی موٹی پرابلمز حل ہو سکتی تھیں۔ بچوں کے کپڑے بن سکتے تھے‘ کچن کی چیزیں آ سکتی تھیں‘ ٹیلی فون وغیرہ کا بل ادا کیا جا سکتا تھا‘ گھر کی کوئی چیز مرمت کرائی جا سکتی تھی… لیکن نہیں… چونکہ آپ کے ذہن میں بٹھایا گیا تھا کہ پانچ ہزار خرچ کرکے آپ خزانے کا نقشہ پالیں گے لہٰذا آپ اچھل پڑے کہ اس سے آسان طریقہ بھلا کیا ہو سکتا ہے۔ تو بہنو، بھائیو! میں صرف یہی کر سکتا ہوں کہ آپ کو گھسی پٹی باتیں ذرا دلچسپ انداز میں سنا دوں۔ میں یہ تو بتائوں گا کہ زندگی میں اپنے کام پر فوکس کریں لیکن یہ مجھے نہیں پتا کہ ایک الیکٹریشن جو صرف اپنے کام کو ہی جانتا ہے اور اسی پر دھیان دیتا ہے وہ مزید فوکس کیسے کرے؟ میں یہ تو بتائوں گا کہ بس اللہ سے محبت کرنا شروع کر دیں لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ جو لوگ پانچ وقت کے نمازی بھی ہیں‘ ایماندار بھی ہیں‘ کام بھی دیانتداری اور محنت سے کرتے ہیں وہ کیوں ناکام ہیں۔ آپ سب کا یہاں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اپنی ناکامی تسلیم کر چکے ہیں لہٰذا اب آپ جو بھی کہتے رہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اتنی صلاحیت تو مجھ میں ہے کہ آپ کی ناکامی کو ثابت کرنے کے لیے آپ کی ہر بات میں ایک دلیل نکال کر پیش کر دوں کہ آپ اس وجہ سے ناکام ہیں۔ اپنی ناکامیوں کی تشہیر کریں گے تو میرے جیسا ہر بندہ آپ کی چھوٹی سی خامی کو سو سے ضرب دے کر پیش کرے گا۔ کامیاب بننا ہے تو ناکام لوگوں سے ملیں‘ فلاپ فلمیں دیکھیں… بڑی آسانی سے پتا چل جائے گا کہ خامی کہاں ہے۔ ناں بھی پتا چلے تو کم از کم مجھ سے نہ پوچھئے گا۔ میرے پاس کسی چیز کا دو ٹوک حل نہیں‘ صرف خوشنما باتیں اور احساسِ کمتری میں مبتلا کر دینے والی کہانیاں ہیں۔ اجازت دیجئے! مجھے ذرا چیک جمع کرانا ہے‘‘۔

تازہ ترین