• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیخ الاسلام حضرت علامہ طاہر القادری کی مدبرانہ شخصیت، عالمانہ تمکنت، قائدانہ بصیرت، دانشورانہ وجاہت، ساحرانہ خطابت، صوفیانہ عظمت، دلیرانہ قیادت اور لاکھوں عوام کی ان کی ذات بابرکات سے والہانہ عقیدت کے پیش نظر کچھ لکھتے ہوئے قلم پر کپکپی طاری ہورہی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام نے اتوار کی شام 1.35منٹ کے خطبہ عالی میں جو کچھ فرمایا، اس پہ کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، سیاسیات کے طالب علم مقالے رقم کرسکتے ہیں۔ تبصروں تجزیوں اور کالموں کی موسلادھار برکھا پہلے ہی برس رہی ہے۔ میں بھی حصول سعادت کے لئے اس کارخیر میں شرکت کا آرزومند ہوں لیکن میں لغت ہائے حجازی کا مالک فقیہہ شہر نہیں سو اردو کے ایک غریب و سادہ سے محاورے پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے ”بلی تھیلے سے باہر آگئی“۔
خبریں ایک عرصے سے آرہی تھیں کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد کی نگہبان روایتی قوتیں، انتخابات کی مشق رائیگاں سے کنّی کتراتے ہوئے ایک فرشتہ خصلت طویل المیعاد نگران سیٹ اپ چاہتی ہیں جو پہلے وطن کا چہرہ نکھارے، اس کے پژمردہ عارض و رخسار میں بہاریں کاشت کرے، اس کی اجڑی ہوئی مانگ میں سیندور بھرے، اس کے الجھے ہوئے گیسو سنوارے اور جب پاکستان، دنیا بھر کے حسینوں کے جھرمٹ میں حسینہ عالم کے طور پر سنہری تاج پہنے کھڑا ہو تو الیکشن کا اعلان کردیا جائے۔ عوام جوق درجوق گھروں سے نکلیں اور ہماری پارلیمینٹ شیخ الاسلام جیسے پاک دل و پاکباز لوگوں سے بھر جائے۔ یہ نسخہ کیمیا جمہوریت گریز عناصر کو ہمیشہ بڑا محبوب رہا ہے۔
مسئلہ یہ تھا کہ اس آرزو کو ہونٹوں پہ کون لائے۔ شیخ الاسلام نے اس مجاہدانہ کردار کی ہامی بھرلی۔ وہ گرجے بھی اور برسے بھی۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر حضرت نے جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
”جمہوریت بجا، الیکشن برحق، لیکن آئین کے تمام تقاضوں کی تکمیل سے پہلے ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ سترہ دن کے اندر اندر یہ تقاضے مکمل کر لئے جائیں ورنہ چالیس لاکھ انسان، 14جنوری کو اسلام آباد میں جمع ہوں گے۔ بیسویں ترمیم بجا لیکن نگراں حکومت کا قیام دو جماعتوں کے مک مکا پہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کے لئے فوج اور عدلیہ سمیت تمام تعلق داروں سے مشاورت کرنا ہوگی، نوّے دن میں انتخابات ضروری نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 254 اجازت دیتا ہے کہ اس میعاد میں حسب ضرورت توسیع کرلی جائے“۔
اچھے، صاف ستھرے، مثبت اور تعمیری نتائج کے لئے جمہوریت کی بساط لپیٹے رکھنے اور انتخابات کے تکلف کو پس پشت ڈال دینے کا تصور کچھ نیا نہیں۔ ماضی میں چار جرنیل، جنہیں ”شیوخ العساکر“ کہا جاسکتا ہے ، اسی جذبہ خیر و فلاح سے سرشار ہو کر چھاؤنیوں سے نکل آئے تھے جس جذبہ خیر و فلاح کے باعث، الیکشن کی خبر سنتے ہی شیخ الاسلام کینیڈا کے عافیت کدے سے نکلے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے لاہور آن پہنچے۔54سال قبل جنرل محمد ایوب خان نامی شیخ العساکر کے دل میں اسی دردمندی نے انگڑائی لی۔ اس نے اعلان شدہ انتخابات کو کہنی مار کر اقتدار پر قبضہ جمایا اور 8/اکتوبر 1958ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا
”سیاستدانوں نے کمینگی، اوچھے پن، فریب دہی اور ذلت کی انتہا کر دی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ملک اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی بدنظمی کا شکار ہے۔ اچھے بھلے ملک کو مذاق بنادیا گیا ہے۔ ہمیں اس کا علاج دریافت کرنا ہے۔میں واشگاف الفاظ میں اعلان کررہا ہوں کہ ہمارا مقصد بالآخر جمہوریت بحال کرنا ہے،ایسی جمہوریت جسے عوام سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں“۔ساڑھے دس سال نذرِ خزاں ہوگئے۔ تب یکایک ایک اور مسیحائے قوم کا دل درد سے پھٹنے لگا تو اس نے ملک کی کمان سنبھالی لی۔ اس نئے ”شیخ العساکر“ نے 26مارچ 1969ء کو قوم کے نام اپنے خطبے میں کہا
”صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ قانون برقرار رکھنے کے تمام طریقے کاملاً غیرموخر ہوچکے ہیں۔ جان و مال کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ خوف و ہراس نے قومی زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ ملکی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ ملک تباہی و بربادی کے غار کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ ازبس ضروری ہوگیا ہے کہ قومی سلامتی کا تحفظ کیا جائے۔ میری اس کے سوا کوئی خواہش نہیں کہ صحیح معنوں میں ایک آئینی جمہوری حکومت قائم کی جائے۔ ایک ہوشمندانہ اور تعمیری سیاست کا احیا کیا جائے۔ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے ذریعے ایک نہایت صاف ستھری اور دیانتدار انتظامیہ وجود میں لائی جائے“۔ڈیڑھ برس کے اندر اندر پاکستان کو دولخت کرنے اور بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد یہ مسیحائے قوم رخصت ہوگیا۔ ساڑھے سات سال بعد تیسرے شیخ العساکر نے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا اور5جولائی1977ء کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد قوم سے کہا
”اس ملک کی بقا جمہوریت اور صرف جمہوریت میں ہے۔ میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں۔ مجھے اس خلا کو پُر کرنے کے لئے آنا پڑا جو سیاستدانوں نے پیدا کردیا ہے۔ میں نے اسلام کے ایک سپاہی کے طور پر یہ چیلنج قبول کرلیا ہے۔ میرا واحد مقصد آزادانہ، منصفانہ انتخابات کرانا ہے جو اس سال اکتوبر میں ہوں گے۔ انتخابات مکمل ہوتے ہی اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جائے گا“۔
گیارہ برس سفرِ رائیگاں کی نذر ہوگئے۔ کوئی دس سال کے دوران چار جمہوری اور چار مجبوری حکومتیں برداشت کرنے کے بعد کارگل کے برف پوش پہاڑوں سے ایک نیا ”شیخ العساکر“ اترا، اقتدار پر قبضہ کیا اور17/اکتوبر 1999ء کو سات نکاتی انقلابی ایجنڈا دیتے ہوئے قوم سے کہا
”باون برس پہلے ہم نے امید کی ایک شمع کی روشنی میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا آج وہ شمع گل ہوچکی ہے۔ بے یقینی، مایوسی اور نامرادی ہمارا احاطہ کئے ہوئے ہے، ہم پستیوں میں لڑھکتے جا رہے ہیں، معیشت ہچکیاں لے رہی ہے، ہماری ساکھ ختم ہوچکی ہے، ریاستی ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ ہمارا مقصد صرف ایک ہے اس جمہوریت کا قیام جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا“۔ نو سال بعد یہ نجات دہندہ رخصت ہوا تو ملک دہشت گردی کی چتا میں جل رہا تھا اور ریاست، عالمی اوباشوں کی چراگاہ بنی ہوئی تھی۔
آج بوجھنے والی پہیلی یہ ہے کہ چوّن برس کے دوران وقفے وقفے سے نمودار ہونے والے چار ”شیوخ العساکر“ کی روحیں، شیخ الاسلام کے قلب حساس میں حلول کرگئی ہیں یا زمان و مکاں پر محیط شیخ الاسلام کے روحانی تصرف کا کرشمہ ایوب خان سے پرویز مشرف تک سب کے دلوں میں دھڑک رہا تھا اور سب انہی کی بولی بول رہے تھے۔ چاروں ”شیوخ العساکر“ فوج جیسے منظم ادارے کی پشت پناہی کے باوجود، 33برس تک سیاہ و سفید کے مالک رہتے ہوئے وہ کچھ نہ کر پائے جس کا بیڑا کینیڈا کے شیخ الاسلام نے اٹھایا ہے اور جس کے لئے حضرت نے رخت سفر باندھتی مضمحل سی حکومت کو صرف سترہ دن دیئے ہیں۔
لیکن تھیلے سے باہر آجانے والی بلی اور بھی تو بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین