• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
27دسمبر 2007 کا دن مجھے آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے۔ اس دن صبح سے آسما ن پربادل چھائے ہوئے تھے۔ ان بادلوں نے اسلام آباد کے موسم کو خوشگوار بنانے کی بجائے پراسراربنارکھا تھا۔ کئی دنوں سے اسلام آباد میں یہ سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ کسی اہم سیاسی شخصیت پرقاتلانہ حملہ ہوگا اور پھر جنوری 2008 میں ہونے والے انتخابات کوملتوی کردیاجائے گا۔ان سرگوشیوں کی وجہ اس وقت کے صدرجنرل پرویز مشرف اور محترمہ بینظیربھٹو میں مفاہمت کاخاتمہ تھا۔ محترمہ بینظیربھٹو نے3نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اس مفاہمت کے خاتمے کا خود ہی اعلان کردیا تھا۔ ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد مشرف حکومت نے امریکہ کے ذریعے محترمہ بینظیربھٹو پردباؤڈالا کہ وہ پاکستان سے واپس چلی جائیں اور انتخابات کے بعد واپس آئیں۔ محترمہ بینظیربھٹو پر دباؤڈالنے والوں میں جان نیگروپونٹے اورپاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نمایاں تھیں۔ ایمرجنسی نافذ ہونے کے چند دنوں کے بعد محترمہ بینظیربھٹو نے ایک صبح مجھے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ناشتے پر بلایا۔ انہوں نے اندر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کی بجائے باہر صحن میں پلاسٹک کی کرسیاں لگوائیں اورہم وہیں پر بیٹھ گئے۔ شاید وہ کوئی بہت اہم باتیں کرنا چاہتی تھیں اور انہیں شک تھاکہ ان کا ڈرائنگ روم محفوظ نہیں۔گفتگو کاآغاز ہوا تو محترمہ بینظیربھٹو نے مجھے پوچھا کہ کل ججز کالونی کے باہرمیں نے جو تقریر کی اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ آپ نے معزول چیف جسٹس جناب افتخارمحمد چودھری کے گھر پر دوبارہ پاکستان کا پرچم لہرانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان عوام کی اکثریت کے جذبات کی ترجمانی ہے لیکن جنرل پرویزمشرف اسے اپنے خلاف اعلان جنگ سمجھے گا۔ یہ سن کر محترمہ بینظیربھٹو مسکرائیں اورکہنے لگیں کہ پرویز مشرف نے جنگ شروع کردی ہے لیکن اعلان نہیں کیا۔ امریکی حکومت کے ذریعے مجھے پاکستان سے واپس جانے کے لئے کہا جارہاہے لیکن میں پاکستان سے واپس نہیں جاؤں گی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے بہت سے خطرات پیدا ہوچکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے سفارتکاروں کویہ بتایا جارہا ہے کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ دہشت گردوں کی مدد کر رہے تھے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ 3نومبر کی رات مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد طالبان لیڈر بیت اللہ محسود کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت جنوبی وزیرستان میں اغواکئے جانے والے فوجیوں کے عوض اڈیالہ جیل سے ایسے ملزمان کو رہا کردیا ہے جو بہت خطرناک ہیں اور ان ملزمان کے ذریعے مجھ پرحملہ کرایاجاسکتا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ حکومت اورعدلیہ میں محاذ آرائی کا آغازکہاں سے ہوا؟
میں نے محترمہ بینظیربھٹو کو بتایا کہ محاذ آرائی کا آغاز تو 2006 میں پاکستان سٹیل ملز کی پرائیوٹائزیشن کے خلاف عدالتی فیصلے سے ہوا تھا لیکن اس میں شدت لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت سے پیدا ہوئی۔ محترمہ بینظیربھٹو نے پوچھاکہ کیا اکثر لاپتہ افرادکاتعلق طالبان اور القاعدہ سے نہیں؟ میں نے انہیں جواب دیاکہ اکثر لاپتہ افرادکا تعلق بلوچستان سے ہے اگران کے خلاف دہشت گردی کے الزامات ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیاجانا چاہئے۔ محترمہ کے چہرے پر موجود سنجیدگی اب تشویش میں بدل رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ نواب خیربخش مری کے بیٹے بالاچ مری کے قتل پرافسوس کے لئے ان کے پاس کراچی گئی تھیں۔ نواب خیربخش مری نے محترمہ بینظیربھٹو کو کہا کہ ہماری فکر چھوڑو اپنی خیر مناؤ وہ آپ کو بھی قتل کروادیں گے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعدانہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یاد رکھنا اگر مجھے قتل کیا گیا تو ذمہ دار جنرل پرویز مشرف ہوگا۔ ان الفاظ نے مجھ پر سکتہ طاری کردیا۔ میں نے اس سکتے سے نکلنے کی کوشش کی اور بڑبڑاتے ہوئے کہاکہ آپ کو مروا کر مشرف کو کیافائدہ ہوگا؟ محترمہ بینظیربھٹو نے کہا کہ 17 اکتوبر کوکراچی میں میرے جلوس پر حملے کا ذمہ دار بھی مشرف ہے۔ آئندہ حملے کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔ وہ کبھی امریکہ کے ذریعہ کبھی کسی عرب ملک کے ذریعہ مجھے کہلواتا ہے کہ پاکستان سے چلی جاؤتمہیں طالبان مار دیں گے لیکن خود طالبان کے ساتھ خفیہ سودے بازیاں کرتاہے۔ میں ان چالاکیوں کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ جب سے میں نے مشرف کی پالیسیوں پر تنقید شروع کی ہے اس نے میری سکیورٹی کم کردی ہے۔ وہ چاہتا ہے میں ڈر کر بھاگ جاؤں اور اگر نہ بھاگوں تو مجھے مار دیاجائے گا۔ ذمہ داری طالبان قبول کرلیں گے لیکن میں آپ کو باربار کہہ رہی ہوں ذمہ دار مشرف ہوگا اور میری موت کے بعد میرے قاتلوں کو بے نقاب کرنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہوگی۔یہ ملاقات ختم ہوئی تو میں سخت پریشان تھا۔ ان دنوں مشرف حکومت نے مجھ پرپابندی لگا رکھی تھی اور میں جیو ٹی وی پرپروگرام نہیں کر رہا تھا لیکن میں نے اپنے قلم کے ذریعے محترمہ بینظیربھٹو کی زندگی کو درپیش خطرات کا اظہار شرو ع کردیا۔ محترمہ نے انتخابی مہم شروع کردی تھی اور 27دسمبر کو وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرنے والی تھیں۔ ایک رات قبل 26 دسمبر کو آئی ایس آئی کے سربراہ ندیم تاج نے ان کے ساتھ ملاقات کی تھی اور انہیں لیاقت باغ جانے سے روکا تھا۔ محترمہ نے انہیں جواب میں کہا تھاکہ اگر آپ جانتے ہیں کہ وہاں مجھ پر حملہ ہوگا تو حملہ آوروں کو پکڑیئے مجھے جانے سے نہ روکئے۔ 27دسمبر کی دوپہر میں جلسے کاماحول دیکھنے کے لئے لیاقت باغ گیا۔ وہاں کافی چہل پہل تھی لیکن محترمہ بینظیربھٹو کے ایک محافظ نے مجھے کہا کہ میر صاحب واپس چلے جاؤ آج یہاں خطرہ ہے۔ میں واپس اسلام آباد آ گیااور دعا کررہا تھا کہ خیر خیریت رہے لیکن شام کو محترمہ بینظیر بھٹو پر حملہ ہوگیا۔ انہیں شہید کردیاگیا۔ حملے کے ایک گھنٹے کے اندر جائے وقوعہ کو دھو کر سب کچھ مٹا دیا گیا۔ کئی گھنٹے تک لاش کا پوسٹ مارٹم بھی نہ کیاگیا اور حملے کی ذمہ داری طالبان پرڈال دی گئی۔جب بھی 27 دسمبر آتی ہے میں محترمہ بینظیربھٹو کے یہ الفاظ یاد کرتاہوں کہ اگر انہیں قتل کیا گیا تو ذمہ دار مشرف ہوگا۔ ان کی قربانی کے نتیجے میں ان کی پارٹی نے مرکز کے علاوہ سندھ اوربلوچستان میں حکومت بنائی۔ ان ہی کی وجہ سے آصف زرداری صدر پاکستان، راجہ پرویز اشرف وزیراعظم اور رحمن ملک وزیرداخلہ ہیں۔ پانچ سال پورے ہونے کو ہیں لیکن محترمہ بینظیربھٹو کے اصلی قاتلوں کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ رحمن ملک آج بھی اسی کہانی کے گرد گھوم رہے ہیں جومشرف نے تیار کی تھی اور مشرف لندن میں گھوم رہا ہے۔ محترمہ بینظیربھٹو نے مارک سیگل کے نام ای میل میں بھی مشرف کو اپنے قتل کا ذمہ دارقرار دیا تھا ۔ میں تو حکومت میں نہیں ہوں لیکن 27 دسمبر کو مجھے تو شہید بی بی سے بہت شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
تازہ ترین