• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جعلی مقابلے میں نقیب کی موت کو ایک سال ہوگیا

کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی موت کو ایک سال گزر گیا تاہم کیس کو اب تک حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا ۔

نقیب اللہ سمیت چار افراد کو کراچی میں دہشت گرد قرار دے کر پولیس نے مار دیا تھا،اس واقعے کے بعد نقیب کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو یہ ہائی پروفائل کیس کی شکل اختیار کر گیا ۔


واقعے کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور بہت طاقتور سمجھے جانے والے سابق ایس ایس پی راو انوار کو نہ صرف عہدے سے ہٹایا بلکہ نام بھی ای سی ایل میں شامل کیا گیا ۔

گزشتہ سال 13جنوری کوشہر کے مضافاتی علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں مار دیاگیا ۔

یہ جعلی مقابلہ ملیر پولیس نے کیا تھا تاہم اس کے بعد 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث خوب لے دے ہوئی ۔اور اس خبر نے پورے ملک کو اپنی جانب متوجہ کرلیا، اور معاملہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ۔

کراچی سمیت اسلام آباد میں کئی روز دھرنا جاری رہا۔ سپریم کورٹ نے بھی جعلی مقابلے کا نوٹس لیا اور پھر ریٹائر ہوجانے والے سابق ایس ایس پی ملیر راوانوار سمیت دیگر کے خلاف دو مقدمات درج ہوئے۔

پہلے موجودہ آئی جی گلگت بلتستان ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی بنائی گئی اورپھر ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں دوسری کمیٹی بنی، تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت اب بھی جاری ہے۔

دونوں کمیٹیز نے نقیب اللہ کے خلاف کسی بھی قسم کے ثبوت ملنے کی تردید کی۔

سابق ایس ایس پی ملیر اور ان کی ٹیم کی گرفتاری کےلیے بہت کوششیں کی گئیں اور کچھ اہلکار گرفتار بھی ہوئے تاہم راو انوار احمد نے خود ہی ڈرامائی انداز میں سپریم کورٹ پہنچ کر گرفتاری دی جس کے بعد انھیں کراچی منتقل کیا گیا۔

اس کیس کو حتمی انجام تک تاحال نہیں پہنچایاجاسکا ۔ تحقیقات اب بھی جاری ہیں لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین