• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر قادری کا تاریخی خطاب سننے کے بعد کینیڈا کی قسمت پر رشک آیا کہ اس نے ہماری اتنی قیمتی شخصیت اپنے پاسپورٹ کی چمک سے اچک لی ہے۔ اب وہ کینیڈا کے ہیں اور کینیڈا ان کا ہے۔ پاکستان بے چارا تو اب ڈاکٹر صاحب کے بارے میں صرف اتنا ہی دعویٰ کر سکتا ہے کہ ”میلا بھی تو ہے! بہرحال سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا لاہوری جلسہ اس شہر کے عظیم الشان جلسوں میں سے ایک تھا اور جہاں تک ڈاکٹر صاحب کے خطاب کا تعلق ہے، ان کی خطابت کا میں پہلے سے قائل ہوں بلکہ ان کے علم و فضل کا بھی، تاہم اس دفعہ اس میں ڈرامائی عنصر کی آمیزش بھی تھی، میں دہلی سے تھکا ماندہ لاہور پہنچا تھا اور آرام کرنا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کا خطاب شروع ہوا تو انہوں نے اپنے آخری اعلان کے ضمن میں جتنا سسپنس پیدا کیا، وہ اس سے پہلے صرف الفرڈ ہچکاک کی ڈراؤنی فلموں میں دیکھنے کو ملا کرتا تھا۔ سو میں نے سونا کیا تھا، ڈاکٹر صاحب کے خطاب ہی میں کھویا رہا! میں کیا خود ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی حال تھا چنانچہ جب وہ اپنی خطابت کے عروج پر تھے، بادشاہی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی تو انہوں نے غصے سے بادشاہی مسجد کے میناروں کی طرف دیکھا اور پھر کہا ”میں عصر کی نماز پڑھ چکا ہوں چنانچہ میں شرعاً تقریر جاری رکھ سکتا ہوں“ لیکن جب مغرب کی اذان ہوئی، اس وقت ظاہر ہے وہ مغرب کی نماز نہیں پڑھ چکے تھے، لیکن اذان کی فضیلت اور اسے خاموشی سے سننے کا حکم اپنی جگہ اور قوم کی بھلائی کی خاطر الیکشن ملتوی کرانے کے ایجنڈے کی اہمیت اپنی جگہ، چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر دلپذیر جاری رکھی، البتہ انہوں نے کرم یہ کیا کہ اس دفعہ بادشاہی مسجد کے میناروں پر غصے کی نظر نہیں ڈالی!
میں جانتا ہوں ڈاکٹر صاحب کا ارادہ الیکشن ملتوی کرانے کا نہیں بلکہ وہ انتخابی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں الیکشن ملتوی ہوتا ہے تو ہو، میں بہرحال ان سے متفق ہوں کیونکہ الیکشن میں ایسے لوگ بھی کامیاب ہو جاتے ہیں جو نہ ٹیکس ادا کرتے ہیں نہ بجلی کے بل دیتے ہیں، جو بے ایمان ہیں، چنانچہ وہ بجا طور پر کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا رستہ روکنے کے لئے نظام میں تبدیلی ضروری ہے، ایسے عناصر کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہیں ہونا چاہئے، میں ایک قدم ڈاکٹر صاحب سے بھی آگے جانا چاہتا ہوں، میرے خیال میں ایک ان پڑھ ووٹر کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہونا چاہئے کیونکہ وہ ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کر سکتا، چنانچہ جب تک پاکستان میں خواندگی کی شرح سو فیصد نہیں ہو جاتی، اتنی دیر تک الیکشن نہیں ہونا چاہئے، اسی طرح ہمارے عوام کی اکثریت خود بھی کرپٹ ہے، لوگ رشوت لیتے ہیں، بجلی، گیس چوری کرتے ہیں، ڈاکے مارتے ہیں، لوگوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرتے ہیں، چنانچہ جب تک یہ سب لوگ بھی نیک اور صالح نہیں بنتے، آئین کی شق 62، 63 کی روشنی میں انہیں ووٹ کا حق نہیں دیا جا سکتا، سو یہ سارے معاملات ٹھیک ہونے تک انتخابات نہیں ہونا چاہئیں۔ اس کام میں مجھے یقین ہے، دس سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں لگے گا، قوم کے کئی دانا لوگ جو خودنمائی جیسی لعنت سے دور رہنے کی وجہ سے پردے میں رہتے ہیں، گزشتہ کئی برسوں سے نجیومیوں اور ”اللہ والوں“ کے ذریعے قوم کو یہ نقطہ سمجھاتے چلے آ رہے ہیں، مگر اس کند ذہن قوم کے پلے یہ بات ہی نہیں پڑتی، چنانچہ اب پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری الیکشن سے صرف چند ہفتے قبل قوم کو سمجھانے بجھانے بطور خاص کینیڈا سے تشریف لائے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے پاکستانی، اپنے پاکستانیوں کی بات پر کان نہیں دھرتے اللہ کرے وہ اپنے اس مہمان کی بات کی لاج رکھ لیں اور کہیں یہ سوال نہ اٹھائیں کہ کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں انتخابات کو استحصالی نظام کے خاتمے کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے؟
اور ہاں اگر سوئے ادب نہ ہو تو یہ عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ طاہر القادری مدظلہ العالی کی میں نے بہت سی تقریریں سنی ہیں جن میں وہ چوروں، ڈاکوؤں، غنڈوں، اچکوں، اٹھائی گیروں، قبضہ گروپوں، اسمگلروں، ٹیکس چوروں اور ہر طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کسی نماز یا کسی اور عبادت کے فضائل بیان کرتے ہوئے ان سب کی بخشش کا اعلان کرتے آئے ہیں جو مجھے ہی نہیں مجھ ایسے تمام حقوق العباد کی پامالی کرنے والوں کو علامہ صاحب کی یہ باتیں اچھی لگتی تھیں اور یوں ہم سب لوگ بغیر کسی ضمیر کی خلش کے نماز روزے کے ساتھ اپنے اپنے دھندوں میں بھی مگن رہتے تھے۔ میں بہت ادب کے ساتھ علامہ صاحب کی خدمت میں گزارش کروں گا کہ اگر وہ کرپٹ سیاست دانوں کے لئے بھی ان کی نمازوں کے طفیل عام معافی کا اعلان کر دیں تو ان کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ کی غفور الرحیم والی صفت کی مزید توسیع ہو جائے گی۔ میں نے یہ بات بھی اس لئے کہی ہے کہ علامہ صاحب کے خیالات میں بہت لچک پائی جاتی ہے، ممکن ہے وہ کسی مرحلے پر عام معافی کا اعلان کر ہی دیں۔
یوں تو علامہ صاحب کی ساری تقریر دل کو چھو لینے والی تھی لیکن مجھے ان کی دو باتیں خصوصاً بہت پسند آئیں ایک تو وہ جب انہوں نے جلسے میں شامل اپنے معتقدین سے کہا کہ جو ان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں وہ بیٹھے رہیں اور جو کسی مجبوری کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے انہیں میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ جا سکتے ہیں، اپنے اس عمل کے حوالے سے انہوں نے حضرت امام حسین کی مثال دی کہ میدان کربلا میں انہوں نے چراغ بجھا کر کہا تھا کہ جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے، مینار پاکستان کا احاطہ اگرچہ میدان کربلا نہیں تھا اور نہ ہی علامہ طاہر القادری نعوذ باللہ حضرت امام حسین کے مرتبے کے شخص ہیں مگر انہوں نے اس مثال کے ذریعے اپنے اور حضرت امام حسین کے درمیان جو مماثلت تلاش کی اس پر اگرچہ کچھ لوگ ناک بھوں چڑھائیں گے لیکن میں حسن ظن کا قائل ہوں، چنانچہ مجھے تو ان کی اس خواہش میں امام سے عقیدت ہی نظر آتی ہے۔ ان کی دوسری بات کراچی کی بدترین صورتحال کے بارے میں تھی اور کراچی کے بے تاج بادشاہوں یعنی ایم کیو ایم کے وفد کی موجودگی میں کراچی کے حالات کا ذکر کوئی احمق ہی کر سکتا تھا یا وہ جو ہر طرح کے حالات میں کلمہ حق کہہ سکتا ہو۔ علامہ ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری کو میں حق گو علماء میں شمار کرتا ہوں۔
مجھے ابھی ڈاکٹر صاحب کی عظیم شخصیت کے مزید پہلوؤں کا ذکر کرنا تھا لیکن کالم کی طوالت کے خوف سے صرف دو مزید باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، ایک تو یہ کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر حلف اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ یہ سب کچھ نیک نیتی سے کر رہے ہیں، ان کے پیچھے کوئی ملکی یا غیر ملکی طاقت نہیں، میری چونکہ شہرت اچھی نہیں ہے لہٰذا میں اگر اللہ اور اس کے رسول کا حلف اٹھا کر بھی کچھ کہوں گا تو بھی کوئی میری بات پر یقین نہیں کرے گا، چنانچہ میں بغیر حلف کے علامہ صاحب کی تائید کرتا ہوں، اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے کوئی فکر نہیں کیونکہ میں چند ماہ بعد عمرے کے لئے جا رہا ہوں، دوسری بات یہ کہ علامہ صاحب کے عظیم الشان مجمع سے پاکستان کی وفاداری کا حلف لیا جبکہ انہوں نے خود کینیڈا سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ کینیڈا کی شہریت ملتے وقت وفاداری کا جو حلف اٹھایا جاتا ہے اس میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کینیڈا کسی ملک کے ساتھ جنگ کا مرحلہ درپیش آتا ہے خواہ وہ حلف اٹھانے والے شخص کے آبائی وطن کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو تو حلف بردار کینیڈا کا ساتھ دے گا، میرے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے کہ ایک غیر ملکی پاکستانیوں سے پاکستان کی وفاداری کا حلف لے رہا ہے۔ یہ کام علامہ طاہر القادری ایسا عالی ظرف ہی کر سکتا تھا جو پاکستان سے ہر قسم کی مجبوریوں میں محبت کرتا ہو! یہاں میں نے ایک افسوس ناک ذہنیت کا ذکر بھی کرنا ہے، گزشتہ رات وجاہت مسعود کے ڈنر میں 25 کے قریب مختلف الخیال دانشور جمع تھے اور یہ سب یک زبان یہ کہہ رہے تھے کہ علامہ صاحب کی ڈوری کسی نے ہلائی ہے اور یوں وہ انتخابات ملتوی کروانے اور یوں جمہوریت کو ”ڈی ریل“ کرنے پاکستان آئے ہیں۔ افسوس اس وقت پوری قوم جمہوریت کو پاکستان بچانے کا واحد ذریعہ سمجھ چکی ہے، میں نامعقولوں کی اس محفل میں لاحول ولا، لاحول ولا، کا ورد کرتے ہوئے واک آؤٹ کرنا چاہتا تھا، مگر آواز آئی کہ کھانا لگ گیا ہے۔
اور اب آخر میں خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیں، امید ہے حضرت والا میری یہ جسارت معاف فرمائیں گے، آپ نے انتخابی نظام میں جو خرابیاں بیان کی ہیں، ان میں سے بہت سوں کی آپ نے صحیح نشاندہی کی ہے، مگر آپ یہ کام چھ ماہ پہلے بھی تو کر سکتے تھے تاکہ کوئی شک نہ کرتا کہ آپ الیکشن ملتوی کرا کے غیر جمہوری قوتوں کو غیر معینہ مدت کے لئے برسراقتدار لانا چاہتے ہیں، آپ کی آمد بالکل اس فلمی ولن جیسی ہے جو عین سہرا بندی کے وقت شادی والے گھر میں پہنچتا ہے اور چھاتی چوڑی کرکے چیختے ہوئے کہتا ہے ”یہ شادی نہیں ہو سکتی“ حالانکہ اس طرح کے دوسرے بہت سے ہتھکنڈوں کے باوجود شادی ہو کر رہتی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ ”شادی“ بھی ہو کر رہے گی۔
تازہ ترین