• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

موجودہ ملکی مہنگائی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ذمہ داران کا تعین نہیں ہوپارہا ہے۔ الزامات برائے الزامات یا دشنام طرازی کا سلسلہ جاری ہے۔ میڈیابجائے مسائل کے حل تلاش کروانے کہ اس دشنام طرازی کو بڑے چٹ پٹے طریقے سے سے پیش کررہا ہے۔ یوں لوگوں کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹ کر " باادب" گفتگو کی طرف لگ گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت مالی بدعنوانی کے الزام میں سابق حکمرانوں کو جیلوں میں بند کرنے کی خواہشمند ہے۔ جس کی وجہ سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جارہی ۔ بلکہ دولت واپس آنے کے بجائے سابق حکمرانوں کو سزادلوانے کی خواہش پوری کرنے کے لیے غریب عوام کے ٹیکس کی آمدنی بے دریغ لٹائی جارہی ہے۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ بغیر اسباب جانے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی اگر ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے اسباب پر نظرڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ غلطیاں کہاں کہاں ہوئی ہیں۔ جن کا خمیازہ ہم اب بھی بھگت رہے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ سے اگر شروع کریں تو ہم نے ہر دور میں وہ پالیسیاں اختیار کی جو کہ دوسرے ممالک نے اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنائی۔ ہم نے اپنے حالات کو جانچے بغیر وہ دوسرے ممالک کی پالیسیوں کو اپنالیااور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔مثال کہ طور پر 70 کی دہائی میں نجی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جاناتھا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کس قدر ٹھیس پہنچے گی؟ اور آگے چل کر نئی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہونے پہ کون سرمایہ کاری کرے گا؟ لیکن چونکہ اس وقت روس کی وجہ سے "اشتراکیت کا فیشن" تھا۔ لہذا یہ کام کردیا گیا اور پھر یوں ہوا کہ 2000 کی اوائل میں جب 9/11 کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافہ ہوا اور بنکوں کے پاس زرمبادلہ کثیرتعداد میں جمع ہوگیا، شرح سود دو فیصد تک آگئی ۔ پھر بھی سرمایہ دار سرمایہ کاری کی طرف راغب نہ ہوئے۔پرویز مشرف ، زرداری اور نوازشریف حکومتوں نے بھی سرمایہ داروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرنے کہ بجائے مخالفین کے خلاف زہراگلنے اور انہیں للکارنے میں لگے رہے ۔اورتحفتاً کرائے کے بجلی گھر، IPPs ، امریکہ کی محبت میں افغانستان سے ملنے والی سرحدوں کو غیرمحفوظ، اربوں ڈالروں کی ملک سے منتقلی، زبردستی روپے کا استحکام، توانائی اور آمدورفت کے شعبوں میں ناہونے کہ برابرحکومتی سرمایہ کاری ، صاف پانی، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے صرف نظرکرنا۔ جہاں ابتدائی تعلیم کے 2015 تک کے MDGs پورے نہ ہوئے ہوں، 50 فیصد بچے پرائمری تعلیم نہ حاصل کرتے ہوں۔Elementary Education Commissionبنانے کے بجائے بغیر منصوبہ بندی کے HECبناکر تعلیمی اخراجات کا 75 فیصدتک کا خرچہ اس پر کرنا اور حاصل بے روزگار پی ایچ ڈیز اور ناقص ریسرچ اور اعلیٰ عہدیداروں کی شاہ خرچیاں! اب ایک راگ ہےکہ "سی پیک (CPEC)سے انقلاب آئے گا"، Knowledge Parks اور Industrial Parksبنیں گے۔ اسپیشل اکنامک زون (SEZs) بنیں گے۔ مگر کیسے؟کیا خوبصورت الفاظ مستعار لے لینے سے ترقی ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں Potential بہت ہے۔ مگر اس کا استعمال کب ہوگا؟ جب ہم سب ملک کو اپنا سمجھیں گے۔ حکومت کا کام مخالفین کو زیرکرنا نہیں بلکہ عوامی اور ملکی صلاحیتوںکا بہترین استعمال کرنا ہے۔ اس لیے ہنگامی بنیادوں پرتعلیم اورصحت کے معیاروں کو بلندکرنا، آمدورفت کے ذرائع اور توانائی کی بھرپور فراہمی کے لیے کوشش کرنا اور سب سےبڑھ کر ملکی افراد کے اندر سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی پیدا کرنا ہے۔ سرمایہ داروں کو اعتماد فراہم کرنا، ان کے لیے سرمایہ داری کے مراحل کے لیے سہولتیں پیدا کرنی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں سے زیادہ ملکی سرمایہ داروں کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہر سیاسی پارٹی اور اداروں کے بڑوں کو پہلے خود یہاں سرمایہ کاری کرناہوگی۔تب ہی دوسرے لوگ تیار ہوں گے کیونکہ ترقی غیروںکے کرنے سے نہیں بلکہ اپنے قوت بازی پہ اعتماد کرنے سے ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ہی ملک میں قومی پیداوار اور روزگاربڑھنا کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اگر اب بھی یہ اقدامات نہ اٹھائے گئے اور صرف درآمدات پرہی گزاراکیا گیا تو روپے کی بے قدری مزید بڑھتی جائے گی پھر افراط زر کی شرح میں ہوش ربا اضافہ ہوگا۔ وہ اخراجات جن سے حاصل کچھ نہیں ہے۔ ان کی طرف سے توجہ ہٹائی جائے۔ ملکی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بجلی، گیس، پانی، سیوریج ، ریلوے کے منصوبوں پہ توجہ دیتے ہوئے ملکی سرمایہ کاروں کو بیرونی سرمایہ کاروں کے برابر یاان سے زیادہ فوقیت دی جائے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہوسکے۔ ورنہ لگے رہیے الزامات در الزامات کے کھیل میں۔

تازہ ترین