• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی ڈی اے کا توہین آمیز اقدام،پارک انکلیو کا ملبہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر گرادیا

اسلام آباد (احمد نورانی) سی ڈی اے کی جانب سے ایک ناقابل یقین اور توہین آمیز حرکت سامنے آئی ہے جس میں ادارے نے پارک انکلیو میں پلاٹوں کی تقسیم میں ناکامی کا ملبہ معزز اسلام آباد ہائی کورٹ پر ڈال دیا ہے۔ وفاقی محتسب کے احکامات پر عمل درآمد سےبچنے کیلئے ، جس میں پارک انکلیو کے متاثرین کو پلاٹوں کی فوری ملکیت حوالے کرنے کا حکم دیا گیا تھا، سی ڈی اے نے سرکاری طور پر محتسب کو لکھا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم امتناع منصوبے کی تکمیل اور تجاوزات کے خاتمے میں رکاوٹ ہے۔ سی ڈی اے کے ڈائریکٹر لینڈ اینڈ ای/اےفریدالدین کی جانب سے وفاقی محتسب کے ڈی جی امپلی مینٹیشن محمد اشرف اشفاق کو 3جنوری 2019کو لکھے گئے خط CDA/ADLR/WMS-H/4613/18/2019/43 میں کہا گیا ہے کہ ’’فوری معاملے کا تعلق پارک انکلیو، اسلام آباد میں ترقیاتی کام میں تاخیر سے ہے، جس میں معزز اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسمات حمیدہ بانو اور فلک ناز وغیرہ کی جانب سے دائر پٹیشن حکم امتناع دیا، جس پٹیشن میں انہوں نے استدعا کی کہ انہیں متاثرین شمار کر کے ماڈل ولیج کری اور ریہارامیں بحالی کے فوائد دئے جائیں۔ یہ زمین 61پلاٹوں پر مشتمل ہےجس پر مجوہان اور کری گاوں کے متاثرین نے تجاوزات قائم کی ہوئی ہیں، علاقے میں ترقیاتی کام اسی وقت شروع ہوگا جب جب اسلام آباد ہ ہائی کورٹ کی جانب سے حکم امتناع ختم ہوجائے اور تجاوزات قائم کرنے والوں کو بحالی پالیسی کے مطابق فوائد مہیا کر کے تجاوزات ختم کردی جائیںــ‘‘۔ کیس کی سماعت کے بعد وفاقی محتسب نے حکم دیا تھا کہ نہ صرف ان افسران کے خلاف ایکشن لیا جائے جنہوں نے عوام کو بڑے پیمانے پر دھوکہ دیا، بلکہ زمین حاصل کر کے تمام متاثرین کو پلاٹ دئے جائیں۔ 2011میں پی پی کی گزشتہ حکومت میں سی ڈی اے نے ’اسلام آباد کا جوہر‘‘ کے نام پارک انکلیو منصوبہ متعارف کرایا جسے ن لیگی دور حکومت میں 2014اور 2015میں تودسیع دی گئی۔ منصوبے کے ذریعے حکومت نے اربوں روپے کمائے لیکن مقررہ وقت پر پلاٹوں کی ملکیت نہ دے سکی۔ منصوبے کا فیز ون 2011میں شروع کیا گیا جس کی ملکیت جنوری 2013میں ان لوگوں کو دی جانی تھی جنہوں نے یہاں کی زمین کو انتہائی زیادہ کمرشل ریٹس پر خریدا تھا۔ جنوری 2013میں ایک کنال پلاٹ کو ایک کروڑ 20لاکھ روپے میں بیچا گیا جبکہ چار سال بعد دوسرے مرحلے میں اسی رقبے کے پلاٹ کو دو کروڑ 20لاکھ روپے میں بیچا گیا۔ آٹھ سال گذرنے کے بعد بھی 60سے زیادہ متاثرین تاحال پارک انکلیو ون میں اپنے پلاٹوں کی ملکیت ملنے کے منتظر ہیں۔ سی ڈی اے حکام نے اس امر کی تصدیق کی کہ ادارے نے سیکٹر کی ترقی سے متعلق جھوٹے دعوے کر کے عوام کو دھوکا دیاجبکہ حقیقت یہ تھی کہ ادارے کے پاس منصوبہ شروع کرتے وقت زمین کی مکمل ملکیت نہ تھی۔ نہ ہی عوام کو دھوکہ دینے پر کسی کا احتساب کیا گیا اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی کہ زمین کی ملکیت حاصل کر کے منصوبہ مکمل کیا جائے اور پلاٹ ان لوگوں کے حوالے کئے جائیں جو پرائیوٹ سوسائٹیز کے دھوکے کھانے کے بعد حکومت پر اعتماد کر بیٹھے تھے۔ متاثرین اب سوال کرتے ہیں کہ اس دھوکہ دہی اور ناکامیوں کے بعد کوئی کس طرح حکومت پر بھروسہ کرسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 29اگست 2018کو وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے پارک انکلیو کے متاثرین کی شکایت سننے کے بعد سی ڈی اے کے چیئرمین کو ہدایت جاری کی تھی کہ ان افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے جو منصوبے کیلئے زمین کے حصول میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں۔ وفاقی محتسب نے سی ڈی اے کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ زمین کی ملکیت حاصل کرنے کا عمل مکمل کر کے ایک ماہ کے اندر پاک انکلیو میں ترقیاتی کام شروع کئے جائیںتاکہ جو لوگ 7سالوں سے پلاٹوںکے حوالگی کا انتظار کررہے ہیں انہیں پلاٹ دئے جاسکیں۔ تاہم وفاقی محتسب کے اس حکم سے ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ تحریک ا نصاف کی حکومت نے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت سرکاری زمینوں پر نیا پاکستان ہاوسنگ منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ تاہم حکومتی محکموں کی ماضی میں شہرت خاصی بری رہی ہے جیسا کہ وفاقی حکومت کا ترقیاتی ادارہ بھی اپنے گزشتہ تین رہائشی منصوبوں کیلئے عوام سے بھاری رقوم بٹورنے کے باوجود کچھ نہ دے سکا۔ اس وجہ سے عوام کا حکومتی محکموں پر اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔ سی ڈی اے کے سینئر افسران پارک انکلیو اسکینڈل پر میڈیا سے بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے کے مطابق ادارے کی موجودہ انتظامیہ نہ ہی ذمہ داری لیتی ہے کیونکہ منصوبہ ان سے بہت پہلے شروع کیا گیا، نہ ہی حکومتی بے حسی کی وجہ سے اسے مکمل کرنے میں کسی دباؤ میں نظر آتے ہیں۔دی نیوز کو دئے گئے ایک سابقہ جواب میں سی ڈی اے نے تحریری طور پر اعتراف کیا تھا کہ ادارے نے زمین کی ملکیت نہ ہونے کے باوجود پارک انکلیو منصوبے کا اعلان کیا تھا ۔یہ بھی بتایا گیا کہ پارک انکلیو فیز ون مکمل کرنے میں ناکامی کے باوجود سی ڈی اے نے 2014اور 2015میں منصوبے میں توسیع کا اعلان کیا، اور یہ اعلان بھی زمین کی ملکیت نہ ہونے کے باوجود کیا گیا۔ 2017میں اپنے تحریری جواب میں سی ڈی اے نے اعتراف کیا تھا کہ 7سال گزرنے کے باوجود وہ فیز ون کیلئے بھی زمین کی مکمل ملکیت حاصل نہ کرسکا۔سی ڈی اے نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ جو لوگ منصوبے کے شروع کرنے کے حوالے سے فراڈ کے ذمہ دار تھے ان کے خلاف بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ سی ڈی اے ذرائع کے مطابق ادارے نے پارک انکلیو منصوبے کا مستقبل کری ماڈل ولیج کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ جس وقت منصوبے کو شروع کیا گیا اس وقت ایسی کوئی بھی شرط نہیں تھی، لیکن ادارہ اب یہ بہانہ کر رہا ہے کہ پہلے کری ماڈل ولیج پر سے قبضہ ختم کرایا جائیگا تاکہ پارک انکلیو کے لئے زمین حاصل کی جاسکے ۔ سی ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ 2017تک (منصوبہ شروع کرنے کے چھ سال بعد) ادارے نے فیز ون کیلئے 92فیصد زمین حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
تازہ ترین