• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج بے نظیر بھٹو شہید کی پانچویں برسی ہے۔ محترمہ شہید نے راہ جمہوریت میں باپ کے نقش قدم پر شہادت دی۔ انہوں نے زندگی کی کٹھن مسافت کو لغزش کے بغیر طے کیا۔ اس میں کئی جاں گھسل مراحل بھی آئے مگر محترمہ پوری آب و تاب کے ساتھ ثابت قدم رہیں۔ مردوں کے اس معاشرے میں عورت نے ہمیشہ آمریت سے ٹکر لی۔ ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح ، ضیاء الحق کے خلاف پہلے بیگم نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو نے بے نظیر جدوجہد کی۔ پرویزمشرف کے خلاف شروع میں بیگم کلثوم نواز اور پھر بے نظیر بھٹو شہید نے بے مثال جدوجہد کی۔ بے نظیر بھٹو شہید نے جدوجہد کے مراحل میں پرویز مشرف کو اپنی سیاسی چالوں سے مات دی۔ انہوں نے اپنی بہترین سیاسی حکمت عملی سے نہ صرف اپنا بلکہ میاں نواز شریف کا بھی راستہ ہموار کیا اگر یہ راستہ ہموار نہ ہوتا تو پرویز مشرف کیلئے میدان کھلا رہ جاتا۔
2007ء کے اختتامی مہینوں میں بے نظیر بھٹو نے مادر وطن کو بچانے کے لئے بڑے ولولہ انگیز خطاب کئے۔ بس ان کی یہ تقریریں کسی کو راس نہ آئیں اور انہیں دسمبر کے آخری عشرے کی ایک شام شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے لئے جس شہر کا انتخاب کیا گیا وہیں ان کے باپ کو پھانسی چڑھایا گیا تھا۔ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کی تاریخ میں تلخ یادیں زیادہ ہیں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھی راولپنڈی ہی میں شہید کیا گیا تھا۔ راولپنڈی تین وزرائے اعظم کی جان لے چکا ہے، کئی وزرائے اعظم اس شہر سے خراب مراسم کے باعث گھر بھیج دیئے گئے۔ کسی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ دیہات حکومتیں بناتے ہیں اور شہر حکومتیں گراتے ہیں۔ بس یہاں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔
بے نظیر بھٹو پاکستان کو بچاتے بچاتے جاں سے گزر گئیں جیسے چند روز پیشتر بشیر بلور کو راہ حق میں شہادت نصیب ہوئی۔ بشیر بلور نے بھی بڑی جوانمردی سے حالات کا سامنا کیا۔ اسے حسن اتفاق کہئے کہ میری بے نظیر بھٹو اور بشیر بلور دونوں سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ دونوں کی پارٹیوں کو پاکستان میں تلخیوں کا سامنا کرنا پڑا، دونوں جماعتوں نے اقتدار کے حصول کے بعد بے شمار قربانیاں دیں حالانکہ سیاست میں قربانیوں کے بعد اقتدار نصیب ہوتا ہے مگر یہاں کبھی اقتدار سے پیشتر قربانیاں دینا پڑیں تو کبھی اقتدار کے بعد قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اس عاصی و خاطی خاکسار نے بے نظیر بھٹو شہید پر ”شہید مشرق“ کے نام سے ایک کتاب بھی رقم کی۔ میرا یقین ہے کہ پیپلزپارٹی کا موجودہ اقتدار بے نظیر بھٹو کی قربانی کے طفیل ہے۔ پیپلزپارٹی کی حالیہ قیادت کا دعویٰ ہے کہ وہ شہید بی بی کا مشن پورا کر رہے ہیں۔ اس وقت جب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی ساڑھے چار سالہ کارکردگی پر کتاب لکھ ماری ہے۔ وزارت اطلاعات کی جانب سے شائع کردہ اس کتاب میں ساڑھے چار سالہ کارکردگی کو لفظوں کے لبادے کا آئینہ دیا گیا ہے۔ اس ”شاندار“ کارکردگی کے باعث پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ اگلا الیکشن بھی جیت جائے گی۔ کارکردگی کے آئینے میں پیپلزپارٹی نے جو کامیابیاں گنوائی ہیں ان میں صوبائی خود مختاری، مالیاتی توازن، جمہوریت کا فروغ، اختیارات کی منتقلی، سیاسی مفاہمت، معیشت اور زراعت کی بہتری کے لئے اقدامات شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی خود کو ورکرز کی پارٹی کہتی ہے اس لئے بے نظیر ایمپلائی اسٹاک آپشن اسکیم کا اجراء کیا گیا، مزدور کی ملکیت کے حصے کا تعین کیا گیا، ٹریڈ یونین کی بحالی، کنٹریکٹ اور نکالے گئے ملازمین کی بحالی، تنخواہوں میں 158 فیصد اضافے کے ساتھ ورکرز کی تنخواہ کو چھیالیس سو سے بڑھا کر آٹھ ہزار کردیا گیا، غریب پروری کی خاطر ستر ارب روپے سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا۔ یہ رقوم پینتیس لاکھ مستحقین میں تقسیم کی گئیں، ہیلتھ انشورنس کے علاوہ بیت المال سے ایک لاکھ پینتیس ہزار بیواؤں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد کی گئی۔ یتیم بچوں کے لئے سوئیٹ ہومز کا قیام عمل میں لایا گیا، بلوچوں سے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگی گئی۔ بلوچستان کے وسائل پر بلوچوں کا حق تسلیم کیا گیا، سول ملٹری اداروں میں شرائط نرم کرکے بلوچوں کا حصہ بڑھایا گیا۔ این ایف سی میں بلوچستان کا حصہ پانچ فیصد سے بڑھا کر 9فیصد کردیا گیا، کنکرنٹ لسٹ کا بننا اور ایک سو بیس ارب روپے گیس سرچارج دینا اہم اقدامات نہیں تو اور کیا ہے۔ پیپلزپارٹی چونکہ دیہاتوں سے اکثریت حاصل کرتی ہے لہٰذا اس نے کسانوں کا خصوصی خیال رکھا ہے اسی لئے گندم، چاول اور کپاس کی امدادی قیمت میں اضافہ کرکے کسان کو خوشحال بنادیا گیا ہے۔ اسی لئے ملک پچھلے تین برسوں سے خودکفیل ہے۔ خوراک و زراعت کے اہم معاملات صوبوں کے حوالے کرنے کے علاوہ بے نظیر ٹریکٹر اسکیم کا اجراء کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کارکردگی کے آئینے میں بتاتی ہے کہ چونکہ ان کی شہید رہنما ایک عورت تھی اس لئے انہوں نے عورت کی ترقی کیلئے بہت سے اقدامات کئے ہیں۔ عورتوں کے لئے ملازمتوں میں دس فیصد کوٹے کے علاوہ، کام کی جگہ پر تحفظ کا قانون، گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنے اور وراثت کے حوالے سے قانون سازی کے علاوہ لاکھوں خواتین کے شناختی کارڈ پہلی مرتبہ بنائے گئے۔ درست ووٹر لسٹ، متفقہ الیکشن کمشنر اور متفقہ نگران سیٹ اپ کے لئے کاوشیں شامل ہیں۔ شناخت بڑی اہم چیز ہے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو نام دے کر، سرائیکی صوبے کیلئے کوششیں کی گئیں جو ہنوز جاری ہیں۔ سیاسی جماعتوں کیلئے فاٹا کا راستہ کھولنا۔ بینک اکاؤنٹ اور نادرا کو جوڑ کر کرپشن کا راستہ روکنا۔ سوات، باجوڑ، مہمند اور جنوبی وزیرستان کی مدد کے علاوہ سیلاب زدگان کی امداد کی گئی۔
آئینی اصلاحات کو پیپلزپارٹی ایک بڑے کارنامے کے طور پرگردانتی ہے۔ اس عہد میں ایک سو آئینی ترامیم اور ایک سو دس قوانین منظور ہوئے نوّے فیصد سی او ڈی پر عملدرآمد ہوا۔ صدر سے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار لے لیا گیا۔ صدر اور بیوروکریسی سے اختیارات لے کر وزیراعظم اور وزراء کو دے دیئے گئے۔ سینیٹ میں اقلیتوں کیلئے چار نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔ قدرتی وسائل پر صوبوں کو کنٹرول دے کر صوبائی خود مختاری کا وعدہ پورا کیا گیا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وفاقی حکومت کا حصہ 42.5 فیصد سے کم کر کے صوبائی حصہ 670/ارب سے بڑھا کر بارہ سو ارب کر دیا گیا۔کونسل آف کامن انٹرسٹ کے اختیارات میں اضافہ، صوبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے صوبائی اسمبلی کی منظوری لازم قرار دی گئی۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے بے شمار منصوبے شروع کئے گئے۔ یہ سب کچھ کرنے کیلئے پیپلزپارٹی کو مفاہمت کی سیاست کرنا پڑی، دو وزیراعظم، تین وزیر اطلاعات اور تین چار وزرائے قانون لانے پڑے اتنی بڑی کامیابیوں کے بعد بھی اگر عام آدمی کا ”چہرہ“ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے تو پیپلزپارٹی کیا کہہ سکتی ہے کیونکہ غریب تو ازل ہی سے پریشان ہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے مشن کی تکمیل کی خاطر پی پی پی کی کارکردگی ”مثالی“ ہے۔ طاہر القادری سمیت کچھ رہنماؤں نے ساری صورتحال کو چیلنج کرکے رکھ دیا ہے جس سے الیکشن خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ آج 27دسمبر کے دن بے نظیر بھٹو شہید کو یاد ہی کیا جاسکتا ہے ۔ رخسانہ نور نے بے نظیر بھٹو شہید کی یاد میں ایک نظم کہی تھی اس نظم کا آخری حصہ پیش خدمت ہے
خدائے برتر تو جانتا ہے
تجھے خبر ہے
وہ ناسمجھ لوگ جو جسد خاکی کو دفن کرکے
یہ سوچتے ہیں
وہ اب نہیں ہے!!!!
وہ بھولتے ہیں!!
وہ جسم کب تھی…وہ جسم کب ہے
وہ سوچ ہے جو
ہزار صدیوں سے اک سفر پر رواں دواں ہے
تازہ ترین