• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلائی تحقیق کا امریکی ادارہ ناسا، خلا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اب تک متعدد مشنز بھیج چکا ہے ۔اسی سلسلے میںحال ہی میں اس نے خلائی جہاز ’’نیو ہورائزن ‘‘ یعنی ’’ اُفقِ جدید ‘‘خلا میں روانہ کیا۔یہ خلائی جہاز کام یابی سے پلوٹو کے پاس سے گزرااور وہاں سے سگنلز بھیجےجن سے یہ تصدیق ہوئی کہ خلائی مشن بر فیلے سیارچے ’’الٹیما تھولی ‘‘ کے پاس پہنچ گیاہے۔یہ سیارچہ برف کی دو چٹانوں پر مشتمل ہےاور زمین سے تقریباً ساڑھے چھ ارب کلو میٹرزکے فاصلے پر موجود ہے۔ الٹیما تھولی نظامِ شمسی کی کوئپر بیلٹ میں واقع ایک جسم ہے جو بہت قدیم ہے اور اپنے اندر نظامِ شمسی کے کئی راز چھپائے ہوئے ہے۔الٹیما تھو لی کا مطلب ’’معروف دنیا سے باہر‘‘ ہے ۔نیو ہورائزن نے اس کی تصویر بہت قر یب سے لے کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ اس خلائی جہازنے انسانی تاریخ کے سب سے طویل فلائی بائے ( خلائی جہاز کا کسی سیارے کے قریب سے مشاہدہ)کا کارنامہ انجام دیا ہے، جس میں وہ الٹیماتھولی سے ٹکرا بھی سکتا تھا۔ اس کے سگنلز ناسا کے ڈیپ اسپیس نیٹ ورک نے وصول کیے جو اسپین میں واقع ہے۔

سائنس دانوں کو اُمید ہے کہ اس تحقیق کے ذریعے یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ سیارےکسی طر ح وجود میں آتے ہیں ۔ناسا کے اس خلائی جہا زنے کافی فاصلے ہی سے بر فیلے سیارچے کی نشان دہی کر دی تھی ۔نیو ہورائزن نے الٹیما تھولی سے صرف2200 میل دورسے گز ر تے ہوئے سیارچے کی تصاویر لی ہیں ۔قبل ازیں 2015 ء میں نیو ہورائزن نے پلوٹو پر تحقیق میں مدد فراہم کی تھی اور اس کی تصاویر بھی لی تھیں۔تاہم الٹیما تھولی سے نیو ہورائزن کا قُرب پلوٹو کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ تھا ۔ یہ جگہ ممکنہ طور پر سب سے زیادہ دور اورقدیم ہے ۔ 2006 ء مین زمین سے روانہ کیےگئےنیو ہورائزن نامی اس خلائی جہاز نے 2015 ء میں پلوٹو کا فلائی بائے کیا تھا۔ کیو ئپر بیلٹ میں 20 میل طویل چٹان زمین سے 4 ارب میل کے فاصلے پر موجود ہے اور اس کا سگنل زمین تک آنے میں چھ سے آٹھ منٹ لگتے ہیں ۔جان ہاپکنزیونیو رسٹی کی اطلاقی طبیعیات کی تجربہ گاہ میں کام کرنے والےماہرین کے مطابق یہ اس طشتری (ڈسک) کا حصہ ہے، جس سے نظامِ شمسی کا سورج اور سیارے بنے ہیں۔اس کے بارے میں ملنے والی معلومات کی مدد سے ماہرین یہ بھی جان سکیں گے کہ سیاروں کی شکل کس طر ح کی ہوتی تھیں ۔

سائنس داں ،ایلن سیٹرن کا کہنا ہے کہ ہم الٹیما تھولی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کی کوشش کررہے ہیں،مثلا یہ کس طر ح تشکیل پایا ،اس کی ساخت اور جغرافیائی حدود کیا ہیں ،اس کی شکل کیسی ہے، سطح کا نقشہ کیسا ہے اوراس کے اردگرد کا درجہ ٔ حرارت کیا ہے ۔اس کے علاوہ وہاں کاماحول، آب وہوا اور اس طر ح کی دیگر چیزیں کیسی ہیں۔نیوہورائزن کو اس طر ح بنایا گیا تھا کہ جب یہ پلوٹو کے پاس سے گزرےتو الٹیماتھو لی کی 900 تصاویر اور معلومات روانہ کر سکے ۔ ماہرین نےاس بات کی توثیق کی کہ نیوہورائزن کے بر قرار رہنے کے 10 گھنٹے بعد الٹیماتھولی کی تصویر ناسا کی جانب سے موصول ہوئی تھی ۔اس نے گزشتہ ہفتے 1.2 ملین کے فاصلے سے ایک دھندلی تصویر بھیجی تھی جودیکھنے میں گول دائرے کی طر ح نہیں بلکہ مونگ پھلی کے جیسی ہے ۔سائنس دانوں کو اُمید ہے کہ تھوڑے دنوں میں الٹیما تھو لی کی بالکل صاف تصاویر حاصل کرلی جائیں گی ۔

نیو ہورائزن نے2006 ء میں پلوٹو اور اس کے پانچ چاند کے بارے میں تحقیق شروع کی تھی تو اُس وقت تک سائنس داں الٹیما تھولی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ اُس وقت سے نیو ہورائزن نظام شمسی کی سر حد کی جانب بڑھتا رہا۔اب یہ خلائی جہاز، سیارچہ الٹیما تھولی کے پاس پہنچ چکاہے۔اگر چہ اب ماہرین اس کے بارے میں کافی حدتک معلومات حاصل کر چکے ہیں ،تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس خلا ئی مشن کےذریعے وہ اس سیارچے کے بارے میںکافی حد تک معلومات بآسانی جمع کر سکیں گے ۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کوئپر بیلٹ اس لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہ سورج سے بہت زیادہ فاصلےپر موجودہےاور اس نے وہاں پر موجود خلائی سیاروں کی اربوں سال قبل کی اصل حالت کو محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ نیو ہورائزن 51.5 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے آگے بڑھ رہاہے ۔یعنی یہ خلائی مشن روزانہ تقریباً 10 لاکھ میل کا فاصلہ طے کر تا ہے ۔ واضح رہے کہ ماہرین نے 2014 ء میں ہبل ٹیلی اسکوپ کے ذریعےالٹیما تھولی کو دریافت کیا تھا ۔سائنس داں 1990 ء تک کو ئپر بیلٹ کے فاصلےکے بارے میں نہیں جانتے تھے۔جان ہاپکنزیونیو رسٹی کی اطلاقی طبیعیات کی تجربہ گاہ میں کام کرنے والے سائنس داں ،ہال ویور کے مطابق آخر کار ہم نظام ِشمسی کے مضافات میں پہنچنے میں کام یاب ہو گئے ہیںاور اہم بات یہ ہے کہ جوچیزیں وہاں ابتدا میں موجود تھیں وہ آج بھی وہاں ہیں۔ ان میں بہ مشکل تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے ۔ مشن مینیجر ایلسن بو مین کے مطابق یہ خلائی جہاز ہر لحاظ سے بہتر ہے اور ہم نے اس کے ذریعے اب تک کافی زیادہ فاصلہ طے کر لیا ہے ۔

نیو ہورائزن کے حوالے سے جوپہلا پیغام موصول ہوا وہ انجینئر نگ سے متعلق تھا، لیکن اس میں یہ بھی بتا یا گیا تھا کہ نیوہو رائزن نے سیارے کے قریب سے گزرتے ہوئے بہ غور اس کا مشاہدہ کیا ہے۔اس دور افتادہ کوئپر بیلٹ میںالٹیماکی طر ح کے لاکھوں اجسام موجو دہیں ۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان اجسام میں 4.6 ارب سال قبل نظام ِشمسی کی تشکیل کے راز پو شیدہ ہیں ۔اس بات کا اندازہ ان اجسام کی منجمد حالت دیکھ کر لگا یا گیاہے ۔یاد رہے کہ ماہرین کوتین دہائیوں پہلے کوئپر بیلٹ کے بارے میں علم ہوا تھا۔تب سے ماہرین اس کا مکمل نقشہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

نیو ہورائزن اور زمین کے بیچ سب سے بڑا فرق 15 واٹ کے ٹر انسمیٹر کا ہے،تاہم نیو ہورائزن اور زمین کے اعداد وشمار میں فرق ہونے کی وجہ برف کے تودے ہیں۔ ماہرین کو اُمید ہے کہ الٹیما تھولی کی صاف شفاف تصاویر ستمبر 2020 ء تک حاصل کرلیں گے ۔سائنس داں ،ایلن سیٹرن کا کہنا ہے کہ فروری تک زمین پر پہلی سب سے بڑی تصویرآنے کی توقع ہے ۔

الٹیما تھولی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر سورج کی روشنی انتہائی مدہم ہے او ر اس خطے میں سورج کا در جہ ٔ حرارت 30 سے 40 ڈگری کے در میان رہتاہے ۔ اس پر کوئی کیمیائی عمل بھی نہیں ہو تاہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ الٹیما منجمد حالت میں ہے اور یہ کو ئپر بیلٹ میں مکمل طور پر محفوظ ہے ۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ الٹیما کاحجم تقریباً 30 کلومیٹرز پر محیط ہے۔یاد رہے کہ الٹیما تھولی کوئپر بیلٹ میں بہت پر سکون ماحول میں ہے ۔اس پر تحقیق جاری ہے ،تا کہ اس کے مزید راز منظرِعام پر پیش کیے جا سکیں ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین