• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پانی نایاب ہونا شروع ہو چکا ہے جو سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا۔

زیر زمین پانی کے استعمال اور قیمت کے تعین کے حوالے سے کیس کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت ہوئیے۔

صوبوں کی جانب سے زیر زمین پانی کے استعمال پر ٹیکسوں کے حوالے سے عدم پیش رفت پر چیف جسٹس نے دوران ِ سماعت اظہارِ برہمی کیا

سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کے گوش گزار کیا کہ ابھی تک صوبوں کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نہ آپ لوگوں کی نیت ہے، نہ صلاحیت، میں کہتا ہوں تو پھر خبر لگ جاتی ہے۔

سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے کہا کہ ابھی تک پانی کی بچت کے حوالے سے آگہی مہم بھی شروع نہیں کی جا سکیخ، پانی کی قیمت کے حوالے سے عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ ای سیون میں 4 کنال کے گھر کے پانی کا بل 100روپے ماہانہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پانی کے بل کی صرف دو سلیب ہیں، 5مرلے کے گھر کا بل 60روپے اور اس سے اوپر صرف 100روپے پانی کا بل ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو سمری بھجوا دی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ منرل واٹر کمپنیاں پانی استعمال کر رہی ہیں، بتایا جائے کہ صوبوں اور وفاق نے کیا میکینزم بنایا ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بوتل کے پانی کے علاوہ دیگر صنعتوں کے پانی کے استعمال کی قیمت کا بھی تعین ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ صنعتیں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنائیں، لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اچھی تجویز پیش کی ہے کہ مساجد میں وضو کے لیے استعمال ہونے والے پانی کو دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔

سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے کہاکہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے پانی کی قیمت اور استعمال سے متعلق رپورٹ جمع کروائی ہے، جس میں چند تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اربوں کا پانی مفت میں استعمال کرنے دیا گیا،اب واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جانے چاہئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ عوام میں آگاہی کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کے 4 کنال اور 5 مرلے کے گھر کا پانی کا یکساں بل ہے۔

عدالت نے پانی کے حوالے سے صوبوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت نے بار بار کہا ہے کہ پانی کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کوئٹہ میں زیر زمین پانی 12 سو فٹ پر چلا گیا ہے، جبکہ گوادر میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے صوبوں اور اسلام آباد کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں، عملی طور پر متعلقہ صوبوں اور اسلام آباد انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا، لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے مرتب کی گئی سفارشات پر وفاق اور صوبوں کو عملی اقدامات کا حکم دیا گیا تھا۔

عدالتِ عظمیٰ نے جمع کروائی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سفارشات پر شق وار جواب طلب کر لیا اور کہا کہ تمام صوبے اور وفاق دو ہفتوں میں عملی اقدامات کر کے جواب دیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی۔

تازہ ترین