• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ سب جانتے ہیں کہ میں کس قدر جنونی محب وطن ہوں۔جب میں سنتا ہوں کہ کسی بدبخت نے میرے وطن پر بری نظر ڈالی ہے یا اس کم بخت نے میلی آنکھ سے میرے وطن کی طرف دیکھا ہے، تب میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ یہ جو میں ایک لمبے عرصہ سے خون کے دبائو یعنی فشار یعنیHyper tensionمیں مبتلا ہوں، اس کا سیدھا سادا سبب یہ ہے کہ اپنے وطن کے بارے میں ناقابل قبول بات سن کر میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ میں غصہ سے بے قابو ہوکر کانپنے لگتا ہوں۔ مٹھیاں بھنچ جاتی ہیں۔ اور دانت پیسنے لگتا ہوں۔ مگر جب میں دوسرے اور تیسرے نمبر کا محب وطن تھا، تب میرا خون نہیں کھولتا تھا۔ اس لیے میں خون کے دبائو یعنی فشار کا شکار نہیں ہوتا تھا۔ میں چپ چاپ اپنی حب الوطنی میں لگا رہتاتھا۔ درودیوار پر لکھے ہوئے نعروں پر چونے کی پوچی پھیرتا رہتا تھا۔ نامعقول سیاسی اور اشتہاری نعرے اور فقرے پڑھ کر مجھے شرم آتی تھی۔میں اپنے آپ کو ایک پسماندہ معاشرے کا فرد محسوس کرنے لگتا تھا۔ اس طرح کا نوشتہ دیوار میں ایک لمحے کے لیے برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ تم ایک بھاری بھرکم تھیلا اٹھائے کیوں پھرتے رہتے ہو؟کسی کو کیا بتاتا! میرے تھیلے میں چونے کا محلول اور برش پڑے ہوئے ہوتے تھے۔ جہاں کہیں کسی دیوار پر لکھا ہوا بیہودہ فقرہ نظر آتا تھا، میں وہیں کے وہیں فقروں پر پوچی پھیر دیتا تھا۔ ان دنوں اسپرے پینٹ کے ڈبے بھی ملتے تھے۔ چونے سے زیادہ مہنگے ہوتے تھے۔ میں لازماً سفید اسپرے پینٹ کے دو ڈبے بھی اپنے تھیلے میں رکھتا تھا۔ جب میں تیسرے اور چوتھے درجے کا محب وطن تھا، تب ہاتھ میں جھاڑو لیے ہوئے پھرتا تھا۔ سڑکوں، فٹ پاتھ، روڈ،راستوں، گلی کوچوں میں جہاں کہیں مجھے گند، کچرا، کوڑا کرکٹ دکھائی دیتا تھا، میں وہیں کےوہیں رک جاتا تھا۔ تمام کام کاج بھلاکرمیں صفائی کرنے میں جت جاتا تھا۔ میں بھول جاتا تھا کہ مجھے دفتر جانا ہوتا تھا ! تب ایک جنون میرے سر پر سوار رہتا تھا۔ میں اپنے وطن کو صاف ستھرا رکھوں گا۔ یہ میرا نصف ایمان ہوتا تھا۔ دفتر میں بالم نام کے تین لوگ کام کرتے تھے۔ دفتر کے لوگ مجھے بالم جھاڑو والا کہتے تھے، سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے کوڑا اٹھاتے مجھے کسی قسم کا عار محسوس نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مجھے پاگل سمجھنے لگے جب انہیں پتہ چلا کہ دفتر بند ہونے کے بعد میں ٹوائلٹ صاف کرنے لگتا تھا۔ تب میری ذہنی صحت کے بارے میں شک وشکوک افسران بالا تک پہنچے۔ مجھے بلایا گیا۔ افسر اعلیٰ نے فرمایا: دیکھو بالم، تم اتنے بڑے ادارے میں اعلیٰ عہدے پر کام کرتے ہو۔ تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے ادارے کا نام بدنام ہورہا ہے۔ تم اپنی حرکتوں سے باز آئو، ورنہ تمہیں ہم فارغ کردیں گے۔میں بیروزگار ہونے کے تصور سے ڈر گیا۔ کیا کرتا ! بال بچوں والا آدمی ہوں، میرے بے انتہا بوڑھے ماں باپ ہیں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بھائی بہن ہیں۔ میں حب الوطنی کے جذبے سے دست بردار ہوسکتا ہوں، لیکن اپنے بال بچوں، بوڑھے ماں باپ، چھوٹے چھوٹے بھائی بہنوں کو بھوک سے بلکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ میں نے راستوں، گلی کوچوں اور فٹ پاتھ پر جھاڑو دینا چھوڑ دیا۔ کوڑا کرکٹ اٹھانا چھوڑ دیا۔ ٹوائلٹ کے کموڈ، واش بیسن اور فرش صاف کرناچھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ میں نے روزی روٹی کے لیے کیا تھا۔ ہم دنیا کی ہر ذلت ایک نوالے کی خاطر برداشت کرلیتے ہیں۔چونکہ حب الوطنی میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، میں دیواروں پر لکھے بے ہودہ فقرے دیکھ کر تلملانے لگا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا۔ گلی کوچوں اور سڑکوں پر پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیروں میں اتنی گندگی نہیں ہوتی جتنی کہ ذہن کو گندا کرنے کے لیے دیواروں پر لکھے ہوئے فقروں میں ہوتی ہے۔میں چھپ چھپ کر دیواروں پر لکھے ہوئے، غلیظ فقروں اور نعروں پر پھر سے پوچی پھیرنے لگا۔ انسان کا ظاہر گندا ہوجائے تو دھل سکتا ہے۔ اگر باطن گندا ہوجائے تواسکو دھوکر صاف کرنا امکان سے باہر ہوتا ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری قوم کا ذہن گندا ہوجائے۔ میں روپ بدل بدل کر نوشتہ دیوار پر پوچی پھیرنے لگا۔ مجھے نوشتہ دیوار سے ڈر لگتا ہے۔ میں رات رات بھر دیواروں پر لکھی عبارتیں صاف کرتااور دن میں دفتر میں اونگھتا رہتا۔ دفتر والوں نے میرے پیچھے جاسوس لگادئیے۔ آخرکار میں دیواروں پر لکھا صاف کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ اعلیٰ افسران کے سامنے پیشی ہوئی۔ مجھے ملازمت سے نکال دینے کی دھمکی دیتے ہوئے ایک اعلیٰ افسر نے کہا:اپنے شایان شان حب الوطنی کا مظاہرہ کرو۔ دیوار پر لکھے کو چھوڑ دو۔ میں نےدیوار پر لکھے کومٹانا چھوڑ دیا۔ مگر میں بہرحال اپنے وطن سے محبت کا اظہار کرناچاہتا تھا۔ میری سمجھ سے بالاتر تھا کہ میں کیسے اور کس طرح اپنی حب الوطنی کا اظہار کروں؟ اور وہ بھی اس طرح کہ میرے اعلیٰ افسران ناراض نہ ہوں؟ میں نے قدیم دور کے ایک ریٹائرڈ محب وطن سے مشورہ کیا۔ گھاگ محب وطن نے مجھے مشورہ دیتے ہوئے کہا : گلی کوچوں کو صاف رکھنا، لوگوںکو کوڑا کرکٹ سڑکوں پر پھینکنے سے روکنا، ٹوائلٹ صاف کرنا اور اسی طرح کے دیگر کام چھوٹے محب وطن کرتے ہیں۔ تم بہت بڑے ادارے میں اہم عہدے پر کام کرتے ہو۔ تمہیںاپنے شایانِ شان طریقے سے حب الوطنی کا اظہار کرنا چاہیے۔

میں نے پوچھا :حضرت، تو پھر بتائیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ گھاگ محب وطن نے کہا:تم وہی کرو جو میں کیا کرتا تھا۔

میںنے پوچھا : حضرت آپ کیا کرتے تھے؟

گھاگ محب وطن نے کہا :میں دشمن کو للکارتا پھرتا تھا، دشمن میں تیرے دانت کھٹے کردوں گا۔

آج کل میں لیموں لیکر دشمن کو للکارتا پھرتا ہوں کہ اے دشمن، لیموں رگڑ رگڑ کرمیں تیرے دانت کھٹے کردوں گا۔

میں نے نوشتہ دیوار پر پوچی پھیرنا چھوڑ دیا ہے۔

تازہ ترین