عمران خان کی حکومت کیلئےیہ آسان نہیں ہوگاکہ اپوزیشن کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کےدوران وہ 2014کےبعد 23ویں آئینی ترمیم کےتحت فوجی عدالتوں کی توسیع کیلئےاپوزیشن کےساتھ اتفاقِ رائے کرسکیں۔ وزیراعظم نے یہ کام اپنے دو تجربہ کار رہنمائوں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اوروزیرِدفاع پرویزخٹک کوسونپا ہےکہ اِن سیکیورٹی حالات میں مرکزی اپوزیشن پارٹیوں کودوسال کی توسیع کیلئے قائل کرسکیں۔ فوجی عدالتوں کی مدت مذکورہ ترمیم کےتحت 30مارچ کوختم ہوجائےگی۔ یعنی معاملات، اس کےفوائد اورنقصانات پربحث کیلئے کچھ وقت باقی ہے۔ 2017میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامناتھا، جب دوسری توسیع کیلئےاس نےتین ماہ لگادیئے تھے۔ چونکہ فوجی عدالتوں کی ضرورت پرسوچ واضح طورپرمنقسم ہے، کچھ لوگ مانتے ہیں کہ چونکہ ہماری سول عدالتیں تاحال مضبوط نہیں ہیں لہذا اُن کی ضرورت ہے، جبکہ دوسروں کی رائے یہ ہے کہ سیکیورٹی صورتحال میں حیران کن بہتری آچکی ہےاور دہشتگردی کو شکست دی جاچکی ہےتو اےٹی اےکےتحت عام عدالتوں کےساتھ کیوں نہ چلا جائے۔ تاہم سیاسی جماعتوں کو بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی کی ذمہ داری لینا ہوگی، اسے 2014 میں فوجی عدالتوں کے وقت پر بنایاگیاتھا۔ شاہ محمود اور پرویز خٹک کا کام مزید مشکل ہوچکاہےکیونکہ ایک طرف تو پی ٹی آئی کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے اور دوسری جانب حکومت اپوزیشن کےساتھ تصادم کےموڈ میں نظر آتی ہے۔ لہذا حکومت کو کشیدگی کم کرنی ہوگی، جو اس وقت نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن کی دو میں سے ایک پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے فوجی عدالتوں کی توسیع کی حمایت اور مخالفت میں کوئی موقف اختیار نہیں کیا، پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی ترمیم کی حمایت نہ کرنے کاموقف اختیار کرچکی ہے۔ سابق چیئرمین سینیٹ رضاربانی نے کہا، ’’پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹوکمیٹی نے 27دسمبر کو اپنے اجلاس میں فیصلہ لیاہے کہ ہے مزید توسیع کی حمایت نہیں کی جائےگی۔‘‘ تاہم پارٹی میں بحث کاراستہ کھلاہے، جس سے دو رکنی کمیٹی کاکام آسان ہوگیاہے۔ لہذاجہاں تک فوجی عدالتوں میں توسیع کا تعلق ہےتو حکومت اور پی پی پی کے درمیان معاملے پرملاقات اہم ہوگی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی قسمت کے فیصلے کے ساتھ موجودہ سیاسی ماحول میں معاملےپرپی ٹی آئی اور پی ایم ایل(ن) کے درمیان ملاقات بھی آسان نہیں ہوگی، جبکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف بھی مقدمات جمع ہورہے ہیں اور وفاقی وزیرشیخ رشید احمد بھی شہباز شریف کے ساتھ لڑائی کے موڈ میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کہتے ہیں کہ اس مخصوص ایجنڈےپرکمیٹی شہباز شریف اور دیگر سینئررہنمائوں سے ملاقات کرےگی اور اس پرمثبت ردعمل متوقع ہے، پی ایم ایل(ن) کے ذرائع کہتے ہیں کہ پارٹی کی ہائی کمانڈ فیصلہ کرےگی لیکن وہ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے نفاذکیلئے کیا اقدامات کیے ہیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ پی ایم ایل(ن) اس معاملے پر کوئی سخت موقف اختیار نہیں کرےگی، اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سمجھوتے کا امکان ہے کیونکہ کس حد تک فوجی عدالتوں کو اجازت دی جائے اور دوئم نیشنل ایکشن پلان پر عمل کا منصوبہ ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ توسیع دینےکیلئےسمجھوتے کیلئے فارمولا تیار ہوسکتاہےلیکن اس کا دارومدارحکمران جماعت پرہے۔ دو رکنی کمیٹی کو جس مشکل ترین کام کاسامنا کرپڑسکتاہے وہ جماعتِ اسلامی اور خاص طورپر جمعیتِ علمائے اسلام(ف) جیسی مذہبی جماعتوں کوقائل کرنےکاہوگا، یہ کسی بھی مزید توسیع کےخلاف ہیں۔ چونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں ملک کی امن وامان اورسیکیورٹی کی صورتحال کافی بہترہوچکی ہے اور شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان، سوات اور کراچی جیسےعلاقوں میں دہشتگردی کے خلاف انتظامیہ خود 85فیصد کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے اور بلوچستان میں بھی صورتحال بہترہورہی ہے، ان کامانناہے کہ فوجی عدالتوں کی موجودگی سے دہشتگردی کو مکمل طورپر ختم کرنے میں مددملےگی۔ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنان اس کے مخالف دلیل دیتے ہیں کہ اگرصورتحال میں اتنی زیادہ بہتری آئی ہے تو فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں ہے۔