• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے جب خیبر پختون خوا کے مایہ ناز سیاسی لیڈر جناب بشیر احمد بلور کا جسدِ خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹے اور جنازے کے سفر میں قرآنی آیات کا ترنم فضا میں جذب ہوتے دیکھا تو مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہم عوامی نیشنل پارٹی کے مزاج اور جذباتی ساخت کے بارے میں کس قدر غلط فہمیوں کا شکار تھے۔ مسٹر بھٹو نے تو اپنے دورِ اقتدار میں اُس پر پابندی لگا دی تھی اور اُس کے قائدین کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کر دیئے تھے جن کی سماعت ایک خصوصی ٹریبونل حیدر آباد جیل میں ماہ و سال کرتا رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد قید و بند کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ اِس پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خاں بڑے زیرک  دور اندیش اور غیر معمولی قوت ِ برداشت سے لیس ایک قومی لیڈر تھے جو روس اور بھارت کی طرف واضح جھکاوٴ رکھتے تھے۔ سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جماعت کی قیادت میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور پشتو زبان کے شعلہ نوا شاعر جناب اجمل خٹک جو پاکستان کے خلاف کابل سے تحریکِ مزاحمت کے روحِ رواں تھے  بالآخر وطن واپس آئے اور قومی دھارے میں شامل ہوگئے ۔ اے این پی جناب نواز شریف کی دوسری وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں پہلی بار اقتدار کا حصہ بنی اوریوں قومی یک جہتی کو فروغ حاصل ہوا۔
اِس جماعت کو اپنے صوبے میں پورا اقتدار 2008ء کے انتخابات کے بعد حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوات میں مولوی فضل الله کی رِٹ چل رہی تھی اور طالبان اسلام آباد کی پشت پر پہنچنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اِن حالات میں ہماری فوج نے قومی اتفاقِ رائے سے مالا کنڈ اور سوات میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا اور عام آبادی کو جانی نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں شہری مردان  نوشہرہ اور پشاور کی طرف منتقل کیے گئے اور کامیاب فوجی آپریشن کے بعد وہ اپنے گھروں تک پہنچا دیے گئے۔ اُن کی دیکھ بھال اور کفالت میں کراچی اور پنجاب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قومی وحدت کا مظاہرہ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف یوں تو اے این پی کی ساری قیادت یکسو تھی  مگر حکومت میں سینئر وزیر بشیر بلور عزیمت و استقامت کی ایک ناقابلِ تسخیر چٹان ثابت ہو رہے تھے۔ ہر قیامت خیز دھماکے اور تباہ کن خود کش حملے کے بعد وہ سب سے پہلے جائے وقوعہ پر جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے پہنچتے  زخمیوں کی عیادت کے لیے ہسپتال جاتے اور غم زدہ لوگوں کو سہارا دیتے۔ وہ ہر موقعہ پر ایک ہی بات کہتے تھے کہ ہم دہشت گردی کا خاتمہ کر کے دم لیں گے  دہشت گردوں کی گولیاں ہمارے سینے چھلنی کرتے کرتے ختم ہو جائیں گی اور ہم اُن کی فیصلہ کن شکست تک پوری پامردی سے جنگ لڑتے رہیں گے۔ یہ مردِ حق ایک شام ایک اسکول میں جلسے سے خطاب کرنے کے بعدگھر آتے ہوئے ایک خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا اور اہلِ پاکستان اپنے ایک بہادر اور صاحبِ عزم سپوت سے محروم ہو جانے پر درد کی تصویر بن گئے  مگر اُن کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند ہوتے گئے کہ بشیر بلور بے جگری اور بہادری کی لازوال روایت کے امین تھے۔ اُن کے صاحبزادے عثمان بلور کے یہ الفاظ عوام کے اندر ایک نئی روح پھونک رہے ہیں کہ میں اپنے عظیم والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔ الله تعالیٰ بشیر بلور کے خاندان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے اور ہماری حکومت اس بطلِ جلیل کے لیے نشانِ پاکستان کا اعلان کرنے میں کسی تاخیر سے کام نہ لے کہ اِسی طرح عزم اور ایثار کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔گزشتہ دو تین ہفتوں سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر اُٹھی ہے جس نے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ انسانیت کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور اُنہیں عبرت ناک سزائیں دلوانے کے لیے ایک نیا قانون منظور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ آٹھ دس برسوں سے یہ حوصلہ شکن سلسلہ چلا آ رہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی جان خطرے میں ڈال کر اور پیشہ وارانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے دہشت گردوں پر قابو پا لیتیں  مگر وہ عدالتوں سے شہادتوں کی عدم فراہمی اور ناقص تفتیش کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور پہلے سے کہیں زیادہ خونخواری کا مظاہرہ کرتے  حساس تنصیبات پر حملہ آور ہوتے اور پاکستان کے امیج کو تباہ کرتے رہتے۔ قومی اسمبلی نے حال ہی میں شفاف سماعت کا بل 2012ء پاس کیا ہے جس میں خفیہ ایجنسیوں کو مشتبہ افراد کی ٹیلی فون کالز ٹیپ کرنے اور ای میلز مانیٹر کرنے کا قانونی اختیار دیا گیا ہے تاکہ دہشت گردوں کے خلاف ثبوت جمع کیے جا سکیں۔ اِس مجوزہ قانون کے تحت الیکٹرانک ڈیٹا عدالتوں میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے گا اور دہشت گردوں کو یہ پیغام پہنچ جائے گا کہ اب وہ عدالتوں کو جُل نہیں دے سکیں گے اور اپنے ہولناک جرائم کی بنیاد پر سولی چڑھا دیے جائیں گے۔ ہمیں اُمید ہے کہ سینیٹ اِس بل کی منظوری میں کوئی تاخیر روا نہیں رکھے گی اور قوم پرست میڈیا مثبت انداز میں اِس کی حمایت کرے گا  کیونکہ امریکہ نے نائن الیون کے بعد اپنے تحفظ کے لیے جو قوانین بنائے ہیں  وہ ہمارے قانون کے مقابلے میں بہت سخت اور اُن پر عمل درآمد بہت ظالمانہ ہے۔
یومِ قائداعظم سے دو روز پہلے جناب شیخ الاسلام پروفیسر طاہر القادری نے مینارِ پاکستان کے سائے تلے عظیم اجتماع سے خطاب فرمایا  اِس میں عوامی انقلاب کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ ایک جید عالم  بے مثل خطیب  بلا کے منصوبہ ساز اور دور کی کوڑی لانے میں نہایت مشاق غوطہ خور ہیں۔ اُن کی نیت پر اِس لیے شک نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بڑی ریاضت اور تزکیہٴ نفس کے بعد شیخ الاسلام کے مرتبے تک پہنچے ہیں  مگر اُن کے بارے میں یہ چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اُن کی تقریر کے آپریشنل حصے سے انتخابات کی بساط لپیٹ دینے اور احتساب کے نام پر ایک استبدادی نظام قائم ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
معتدل مزاج تجزیہ نگار علامہ صاحب کی عظمت ِ فکر کو سلام پیش کرتے ہوئے اُنہیں قائد اعظم کے اسلوبِ سیاست کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جس میں وہ جذبات کے بجائے عقلِ سلیم کو دعوت دینے اور سیاسی عمل کے ذریعے عوام کے اندر شعور بیدار کرنے کی طویل جدوجہد کرتے رہے تھے۔ وہ جذباتی رویوں کو قوم کی صحت مند سیاسی نشوونما کے لیے نہایت ضرر رساں سمجھتے اور اندھی عقیدت کے سخت مخالف تھے۔ اُن کے بے داغ قائدانہ کردار کی روشنی میں حضرت شیخ الاسلام کو جذبات کا طوفانِ بلا خیز اُٹھانے کے بجائے ایک ٹھوس لائحہ عمل پیش کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اُنہیں یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ وہ میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت سے کسی بھی جماعت کو انتخابات میں ایسے اُمیدوار کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جو آئین میں درج معیار پر پورا نہ اُترتے ہوں۔ اِس کی عملی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے تین ماہ قبل اپنے اُمیدواروں کا اعلان کریں تاکہ ایک غیر جانبدار عدالتی کمیشن کے ذریعے اُن کے کوائف کی چھان بین کی جا سکے اور عوام کو اُن کی اہلیت یا عدم اہلیت کے بارے میں ساری تفصیلات فراہم کر دی جائیں۔ اِس طرح سیاسی قیادتیں احتیاط برتنے پر مجبور ہوں گی اور رائے عامہ منظم ہوتی جائے گی اور ”بے نامی“چہرے سیاسی منظر سے غائب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ امیدواروں کی چھان پھٹک اور سکروٹنی کے حوالے سے 1988ء میں وفاقی شرعی عدالت نے تین صحافیوں کی رِٹ پٹیشن پر اِسی نوعیت کا ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا۔مجھے بشیر بلور شہید اور حضرت شیخ الاسلام کی شخصیتوں کے درمیان بہت فاصلہ محسوس ہوا ہے  حالانکہ پروفیسر صاحب میرے دل کے پاس رہتے ہیں جس کا پاسبانِ عقل نے ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
تازہ ترین