• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکیل احمد چوہان،لاہور

’’مَیں نے اپنی زندگی کا ایک اور سال اِس مُلک میں برباد کر دیا۔ یہاں کچھ بھی کر لو، کوئی فائدہ نہیں۔ اِدھر کام کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں کرتا، کام کیا کریں گے؟ یہ تو فیصلہ کرنے میں مہینوں لگا دیتے ہیں۔ وقت کی اہمیت سے کوئی واقف ہی نہیں ہے یہاں۔‘‘’’تمھیں غصّہ کس بات پر ہے؟ تمھاری قدر نہیں ہوتی یہاں یا پھر وقت ضایع کرنے پر؟‘‘ ’’دونوں باتوں پر۔‘‘’’دیکھو، وقت تو سب کا اپنا اپنا ہے، کوئی ضایع کرے یا اُس کا صحیح استعمال کرے، تمھیں اُس سے کیا؟ویسے بھی تم نے کون سی ایسی کوشش کی ہے، وقت کی اہمیت اُجاگر کی؟‘‘ ’’بس بہت ہوگیا۔ مَیں یہ مُلک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہی ہوں۔‘‘ بے یقینی، حتمی انداز میں بولی۔ ’’کیوں؟؟‘‘ یقین نے عجلت میں پوچھا۔ ’’اب بھی پوچھ رہے ہو، کیوں؟ عورتیں ،بوڑھے یا بچّے،کون محفوظ ہے اِس مُلک میں، بتائو مجھے۔ کبھی بچّوں کو اسکولز میں شہید کردیا جاتا ہے اور کبھی پارکس میں۔ اب تو مائوں کے جگر کے ٹکڑوں کو کاٹ کر بیچنا شروع کر دیا گیاہے۔انسانی اعضاء بکتے ہیںیہاں،وددھ سے لے کر دوا تک ہر چیز میں ملاوٹ ہے اور ایمان دار بھی وہی ٹھہرتا ہے، جو بے ایمانی نہیں کر سکتا۔ یقین! تم بھی چلو میرے ساتھ، اس مُلک کو چھوڑ دو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اس مُلک میں بُرائی اور اندھیروں کے علاوہ کچھ نہیں۔ میرے ساتھ چلو، اُجالوں کی دُنیا میں۔‘‘ بے یقینی نے یقین کو قائل کرنے کے لیے مضبوط دلائل دیے۔ ’’اُجالوں کی دُنیا؟ سورج ، چاند اور ستارے تو یہاں بھی ہیں، تم کن اُجالوں کی بات کر رہی ہو؟ناداں! تم مصنوعی روشنیوں کو اُجالے سمجھ بیٹھی ہو۔ ویسے تم اپنے موضوع سے ہٹ گئی ہو، ہم ’’وقت‘‘ پر بات کر رہے تھے۔‘‘ یقین نے بڑے اطمینان سے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا، اِس کے باوجود بے یقینی درشت لہجے میں بولی،’’تم نے بھی تو قتل و غارت، ملاوٹ اور بے ایمانی کا جواب نہیں دیا۔‘‘ یقین سوچ میں پڑ گیا،پھر انتہائی کرب سے بولا،’’یہ ساری بُرائیاں تو ہم میں ہیں۔ اِن بُرائیوں نے ہمارے معاشرے کو زخمی کر دیا ہے۔ زخم اور درد کا گہرا تعلق ہے۔ تخلیق درد ہی کی پیداوار ہے۔‘‘ بے یقینی نے تمسخرانہ قہقہہ لگایا، پھر طنزیہ لہجے میں گویا ہوئی،’’کیوں خود کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہو، بولو، جواب دو ناں، آخر کیوں…؟‘‘ ’’اللہ کیوں کہنے والوں کے لیے ’’کُن‘‘ نہیں کہتا۔ ہاں کوشش کرنے والوں کے لیے ’’کُن‘‘ضرور کہا جاتا ہے اور ہم اِس مُلک کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

یقین کا مدلّل جواب سُننے کے بعد بے یقینی سٹپٹا اُٹھی اور غصّے میں چلائی،’’اندھیروں، بُرائیوں کا گڑھ ہے یہ مُلک!!‘‘ ’’نُور اور ظلمت، اچھائی اور بُرائی ایک دوسرے کے آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ بُرائی کو ہمیشہ اچھائی ہی نے فتح کیا ہے اور روشنی، اندھیروں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ یقین نے شائستگی سے کہا۔ ’’روشنی…کہاں ہے روشنی،مجھے تو نظر نہیں آرہی؟ ‘‘ بے یقینی نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔’’مجھے دیکھو، روشنی خود بخود نظر آجائے گی۔ بے یقینی! تم مایوسی کی جڑواں بہن ہو اور اُمید میری ساتھی ہے۔‘‘ یقین نے تحمّل سے جواب دیا۔’’جو چیزیں اس مُلک میں ہیں ہی نہیں، اُن کا ذکر کیوں کرتے ہو۔ روشنی، اچھائی اور اُمیدیہ سب کتابی الفاظ ہیں۔‘‘بے یقینی نے اپنے ردھم کو برقرار رکھتے ہوئے کہا۔’’بے یقینی! تم بہت بُری ہو۔ صدیوں سے میرے ساتھ ہو، بالکل اُسی طرح جیسے روشنی، اندھیرا، اچھائی، بُرائی، مایوسی اور اُمید ساتھ ساتھ ہیں۔ یہ ایک دوسرے پر حاوی تو ہو سکتے ہیں، لیکن جُدا نہیں۔ تم اگر اِس مُلک کے لوگوں کی جان چھوڑ دو، تو وہ کہیں نہیں جائیں گے۔‘‘یقین نے بے یقینی کو کھری کھری سُنادیں۔’’یہ مُلک ایک کھنڈر مکان کی طرح ہے، جس کی بنیادیں کرپشن نے کھوکھلی کردی ہیں۔ اس کی دیواریں اتنی کم زور اور خستہ ہوچُکی ہیں کہ اکثر جنگلی جانور اس مکان میں گھس کر اس کے مکینوں کو چیر پھاڑ دیتے ہیں۔ گویا جنگل کا قانون رائج ہے یہاں۔‘‘ بے یقینی نے گونج دار لہجے میں کہا۔’’گھر کو مکان کہنا، بے ادبی ہے۔ یہ مُلک ہمارا گھر ہے۔ ہم تنظیم کے سیمنٹ سے اس کی بنیادیں مضبوط کریں گے، اتحاد کی اینٹوں سے اس کی خستہ حال دیواروں کو پختہ اور بُلند بنائیں گے، اُس کے بعد ایمان کی عالی شان چھت ڈالیں گے۔‘‘ یقین نے یقینِ کامل سے جواب دیا۔ ’’ہا… ہا… ہا… دیوانے کا خواب۔ وہی گھسے پٹے جملے۔ پچھلے71سال سے سُن سُن کر کان پک گئے ہیں۔سُنویقین! تمہیں خود اپنی باتوں پر یقین ہے کیا…؟‘‘’’ایمان کا دوسرا نام یقین ہے۔ جس کا یقین نہیں، وہ ایمان کی دولت سے محروم ہے۔ تم اور تمہاری بہن مایوسی دونوں کفر کی دہلیز تک لے جاتی ہو اور مجھے اس بے یقینی اور مایوسی سے اس مُلک کے نوجوانوں کو نکالنا ہے۔‘‘ یقین نے اپنے ارادے ظاہر کیے۔ بے یقینی متکبّرانہ انداز میں بولی، ’’یہ منہ اور مسور کی دال۔ تم میرے سامنے اتنے کم زور اور بے بس ہو،تو یہ سب کیسے کرو گے؟ ‘‘’’مجھے صرف دو کام کرنے ہیں۔ پہلا مُلک کے باسیوں کو مایوسی اور بے یقینی سے بچانا اور دوسراانہیں وقت کی قدر و منزلت سمجھانا۔ یہ مہینوں کو سال سمجھیں اور دِنوں کو مہینے۔ اِس طرح اِن کی زندگیاں بھی سنور جائیں گی اور مُلک بھی ترقّی کرے گا۔‘‘ یقین کی بات کاٹتے ہوئے بے یقینی ترش لہجے میں بولی، ’’اُف تمھاری یہ خوش فہمیاں…‘‘ بے یقینی کی بات سُنتے ہی یقین کو جوش آگیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر بے یقینی کا گلا دبوچ لیا اور اپنی پوری طاقت لگا دی۔

کرن ہڑبڑاہٹ میں بیڈ سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنا گلا پکڑا ہوا تھااوراُسے اب بھی اپنی گردن پر دبائو محسوس ہو رہا تھا۔ اُس نے سائیڈ ٹیبل سے ایک گلاس پانی لیا اور غٹاغٹ پی گئی۔ اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا۔ موبائل پر وقت دیکھا12 بجنے والے تھے۔ وہ ٹیرس پر چلی گئی۔بارہ بجتے ہی ایک شور سا اُٹھا، کئی آوازیں ایک ساتھ گونجی،’’ہیپی نیو ائیر‘‘۔وہ اپنے اپارٹمنٹ کے ٹیرس سے سڑکوں پر کھڑے من چلوں کو ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے دیکھ رہی تھی۔ کرن نے زیرِ لب مُسکراتے ہوئے خود کلامی کی،’’پُرانے سال کو ضایع کرنے کا دُکھ نہیں اور نئے سال کی خوشی منا رہے ہیں۔ ہمارے مُلک کے باسی کتنا وقت برباد کرتے ہیں۔ یہ سارے ،اب رات بَھر ہّلا گُلّا کریں گے اور صُبح لمبی تان کر سوتے رہیں گے۔ ہمیں تماشا دیکھنے اور کرنے کا بڑا شوق ہے، اِسی لیے ہم دُنیا میں تماشا بن کے رہ گئے ہیں۔‘‘’’تم نے پھر سے تنقید شروع کر دی ہے، ڈاکٹر کرن! بے یقینی سے نکلو اور سمجھائو انہیں یقین کے ساتھ، تاکہ یہ بھی اپنے وقت کا صحیح استعمال شروع کر دیں۔‘‘کرن کے دِل نے اُسے حکم دیا۔ ’’مَیں بھلا کیا کر سکتی ہوں، مَیں کیسے اپنی بات ان تک پہنچا سکتی ہوں؟‘‘ کرن نے اپنے دِل کو جواز پیش کیا۔’’یہ سوشل میڈیا کا دَور ہے، ڈاکٹر کرن! گھر بیٹھے ہی برطانوی سفارت خانے نے تمھیں انٹرویو کے لیے بلوا لیا تھا۔ یہ کام بھی تو گھر بیٹھےہو سکتا ہے۔‘‘کرن کے دِل نے اُسے جھنجوڑا۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھا،کالے سیاہ بادل نے تاروں کو چُھپایا ہوا تھا۔ اِس کے باوجود کرن کو روشنی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈ روم میں لوٹ آئی اور ایزی چیئر پر بیٹھ کر سوچ کے سمندر میں اُتر گئی،’’کن باتوں میں اُلجھی ہو کرن! کبھی اِس ملک کے مسائل حل کرنے کے متعلق سوچتی ہو، تو کبھی یہاں سے فرار ہونا چاہتی ہو۔ کبھی سب کچھ کرنا چاہتی ہو اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ اگر تم چاہتی ہو کہ لوگ تمھاری قدر اور عزّت کریں، تو تم بہت اچھے طریقے سے صرف ایک کام کر لو۔‘‘’’وہ کیا؟‘‘ کرن نے دِل سے پوچھا۔’’تمھارے نزدیک سب سے اچھا اور مضبوط رشتہ کون سا ہے؟‘‘ دِل نے سوال کیا۔ ’’والدین کا اپنی اولاد سے۔‘‘’’پھر وہ تمھیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟‘‘دِل کا اگلا سوال تھا۔’’ایک نہ ایک دِن سب ہی نے جانا ہوتا ہے۔‘‘ کرن نے رندھی آواز میں کہا۔’’وقت ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ ہمیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا۔ سب سے نازک اور سب سے مضبوط رشتہ ایک انسان کا وقت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ دوسرے رشتے ہمیں استعمال کرتے ہیں، لیکن وقت کو ہم استعمال کرتے ہیں۔رشتوں کی ہم سے کچھ توقعات بھی ہوتی ہیں۔ وقت ہم سے کوئی اُمید نہیں رکھتا۔ یہ تو صرف اتنا چاہتا ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جائے۔جو وقت کی قدر کرتے ہیں، اُنہیں یہ ’’امر‘‘ اور جو ناقدری کریں اُنہیں ’’برباد‘‘کردیتا ہے۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا، سال، زندگی…یہ سب وقت سے ہیں، وقت اِن سے نہیں۔ سالوں کا کیا ہے، وہ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ بس وقت وہیں کھڑا ہے۔ ہمارے سارے مسائل اس لیے ہیں کہ ہم نے انہیں وقت نہیں دیا۔ تم اگر اِس قوم کو وقت کا صحیح استعمال کرنا سکھا دو، تو یہ سارے مسائل آہستہ اہستہ ختم ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘ دِل کی باتوں نے کرن کے اندر ایک جوش سابَھر دیا تھا۔ وہ مصمّم ارادے سےکرسی سے اُٹھی۔ اُس نےبیرونِ مُلک جانے کا ارادہ ترک کردیا تھا۔ پھر اپنا لیپ ٹاپ کھول کر کام کرنے لگی۔ کام کرتے کرتے اُسے پتا ہی نہیں چلا کہ کب صُبح ہوگئی، نئے سال کی پہلی صُبح۔ کرن سوشل میڈیا پر ایک کمپین شروع کر چُکی تھی،’’Time Loves You, Don't Let it Go.‘‘۔اور چند گھنٹوں ہی میں اُس کے ساتھ ہزاروں لوگ منسلک ہوچُکے تھے۔ کرن نے اپنے کمرے کے پردے پیچھے ہٹائے، تو نئے سال کی کرنیں، رات کا اندھیرا مٹا رہی تھیں۔

تازہ ترین