• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریف الحسن عثمانی، سکھر

سالِ نو کے استقبال کے لیے سب سے پُر جوش، متحرک نوجوان طبقہ ہوتا ہے۔ اور صرف اسی موقعے پر نہیں، بلکہ یہ طبقہ ہر تہوار اور اہم دِن پر پورے ذوق و شوق سے مصروفِ عمل نظر آتا ہے۔ چاہے یومِ آزادی پر گھر، گلیوں کو سجانا ہو، شبِ برات پر پٹاخے چلانے ہوں، عیدالاضحی پر گائے، بکروں کو گھمانا ہو، محرّم میں سبیلیں لگانی ہوں، ربیع الاوّل میں محافلِ نعت کا انعقاد ہو، رمضان میں مساجد کی رونق بڑھانی ہو، انتخابات میں نعرے بازی کرنی ہو یا احتجاج، ہڑتالیں ہی کرنی ہوں، نوجوان نسل ہر جگہ، ہر موقعے پر پیش پیش دکھائی دے گی۔ اور نئے سال کی آمد پر تو ان کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے، لیکن اسی ’’جوش و خروش‘‘ پر مبنی ان کی کچھ حرکات و سکنات، ان کے اظہارِ مسّرت کو کافی حد تک قابلِ اعتراض بھی بنا دیتی ہیں۔ جیسے31دسمبر کی رات غیر ضروری طور پر ہلّا گُلّا، شور شرابا، آتش بازی، ہوائی فائرنگ، پٹاخے چلانا، سائلینسر کے بغیر موٹر سائکلیز دوڑانا، بُلند آواز سے گانا بجانا اور فضول خرچی وغیرہ۔ اس سلسلے میں کئی افراد، نسلِ نو ہی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور نوجوانوں سے ان ’’خرافات‘‘ میں مبتلا ہونے پر ناراض دکھائی دیتے ہیں، بلکہ نئے سال کا جشن منانے ہی کو ناجائز قرار دے دیتے ہیں۔ حالاں کہ اگر ہم بطور والدین، ان کی کم سنی ہی سے اس طرف توجّہ دیں اور یہ شعور ابتدا ہی سے اپنی اولاد میں پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ غم و خوشی کے مواقع پر ہمارا طرزِ عمل دوسروں کے لیے باعثِ آزار نہیں ہونا چاہیے، توشاید یوں جی جلانے کی نوبت نہ آئے۔ دراصل نوجوانوں کو کسی بھی غلط کام سے باز رکھنے کے لیے مناسب طریقہ یہی ہے کہ انہیں دوستانہ ماحول میں اس کے نقصانات اور بُرے اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے، قائل کیا جائے۔ اس کے برعکس ہم میں سے اکثر حاکمانہ طرزِ عمل اپناتے ہوئے، ’’فرمانِ نادر شاہی‘‘ جاری کردیتے ہیں اور پھر حکم عدولی پر ان کی نافرمانی اور ناخلفی کا رونا روتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح اکثر نا مناسب کاموں سے انہیں روکنے کے لیے ہم صرف اتنا کہنا کافی سمجھتے ہیں کہ ’’اسلام میں یہ جائز نہیں‘‘، اس نامکمل استدلال کے بڑے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں کہ نوجوانی، منہ زور گھوڑے کی مانند ہوتی ہے اور سَرپٹ دوڑتے، منہ زور گھوڑے کے سامنے اگر کوئی رکاوٹ آئے، تو وہ رُکنے کے بجائے اسے پھلانگنے کو ترجیح دیتا ہے۔تو جب ہم مذہب کو رکاوٹ بنا کر ان کے سامنے پیش کرتے ہیں، تو دراصل خود انہیں مذہب سے دُور کرنے کا باعث بن جاتے ہیں، لہٰذا ہمیشہ تمام نفع، نقصان واضح کرنے کے بعد اُن کے سامنے اسلامی نکتۂ نظر پیش کیا جائے۔ بچّوں کی صحیح سمت، درست طریقے سے رہنمائی خصوصاً والدین کا فرض ہے۔ اس لیے جو افراد اپنے بچّوں کو یہ باور کروانے میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں کہ نئے سال کا جشن منانا جائز نہیں، اُنہیں چاہیے کہ پہلے سلیقے سے اُنہیں صرف یہ احساس دلائیں کہ اس موقعے پرتکلیف دہ انداز اپنانا اور فضولیات میں مشغول ہوجانا جائز نہیں۔

بہت سے معاملات میں ہمارا رویّہ کچھ عجیب ہی ہوتا ہے۔ ہم خود کو وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ہم نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی خود ہمارا عمل، ہماری ہی باتوں کی تکذیب کر رہا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں نئے سال کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ گزشتہ برس، سال کے پہلے ہی دِن ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی، علیک سلیک کے بعد روا روی میں ہم انہیں نئے سال کی مبارک باد دے بیٹھے۔ سُنتے ہی موصوف کی تیوریاں چڑھ گئیں اور انہوں نے بڑے پُرجوش انداز میں ایک لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا۔اس شعلہ بیانی کا لبِ لباب یہ تھا کہ عیسوی سال کی شروعات سے، ہم مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں، اور اس موقعے پر خوشیاں منانا یا مبارک باد دینا کافروں کی تقلید ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔ جوشِ خطابت میں انہوں نے اسے پہلے فضول کہا ، پھر بدعت سے تعبیر کیا اور آخر میں اسے کفر و شرک تک کہہ ڈالا۔ ہم نہایت صبر و تحمّل سے ان کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرتے رہے۔اور وہ ذاتی خیالات کو نظریاتی رنگ دے کر منطق اور مذہب کا بے دریغ استعمال کرتے رہے۔سو، ہم نے خاموشی میں عافیت جانی کہ جہاں معقولیت مفقود ہو، وہاں بحث بے سود ہوتی ہے۔ ہماری خاموشی کو انہوں نے ہماری شرمندگی سمجھتے ہوئے ان الفاظ کے ساتھ اپنے فصیح و بلیغ کلام کو مختصر کیا کہ ’’سمجھ گئے ناں کہ انگریزی تاریخوں اور سال کی ہم مسلمانوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘ ہم نے بصد احترام عرض کیا، ’’بالکل سمجھ گئے صاحب۔‘‘ اور پھر اچانک ہی سرسری سے انداز میں ایک سوال داغ دیا،’’ آپ کی شادی کی تاریخ کچھ یاد ہے آپ کو؟‘‘ اس بے موقع سوال پر وہ کچھ چونکے، پھر گویا ہوئے‘‘ کیوں نہیں، 11 دسمبر 1995ء۔‘‘ ہم نے مُسکراتے ہوئے کہا، ’’نہیں، انگریزی نہیں، ہجری تاریخ؟‘‘ تو سٹپٹا گئے اور کچھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر جھنجھلا کر بولے،’’ نہیں، وہ تو یاد نہیں رہی ۔‘‘ ہم نے پھر کہا، ’’ہجری سن ہی بتادیں۔‘‘ تو بپھر گئے ،کہنے لگے، ’’1995ء بتایا ناں، اب 2018ء ہے، خود لگا لو حساب کہ اب کون سا سنِ ہجری ہےاورتب کیا تھا، یہ کون سا مشکل کام ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا’’ حساب لگانا مشکل نہیں، اصل بات اہمیت کی ہے۔‘‘

یہ بات سو فی صد درست ہے کہ ہمارے لیے اسلامی تاریخیں اور سال بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہماری عبادات اور تمام اسلامی تہوار اسی سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جب عام طور پر ہم عیسوی تاریخوں اور سن کے حساب ہی سے زندگی بسر کرتے ہیں، تو اس ایک دِن پر اظہارِ مسرت یا پیغامِ تہنیت کو جائز، ناجائز، صحیح اورغلط کی کسوٹی پر کیوں پرکھتے ہیں؟ اس ایک دِن کو بھی دیگر ایّام کی طرح محض ایک دِن سمجھ کر اقوامِ عالم کے ساتھ کیوں نہیں مناسکتے؟ مذہبی اور اخلاقی اقدار کے منافی طرزِ عمل کو ترک کر دینے کی بجائے ہم محض مختلف مواقع ہی پر کیوں نکتہ چینی کرتے ہیں؟

تازہ ترین