پینل انٹرویو :ارشد عزیز ملک، سلطان صدیقی…
عکّاسی :تنزیل الرحمن ، پشاور
خیبر پختون خوا کے دور افتادہ، پس ماندہ ضلعے، شانگلہ کے ایک چھوٹے سے گائوں، بٹیال سے تعلق رکھنے والے شوکت یوسف زئی صوبائی وزیرِ اطلاعات ہونے کے علاوہ صوبے اور مرکز میں برسرِ اقتدار جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف کے قابلِ ذکر رہنما بھی ہیں۔نیز، ان کا شمار وزیرِ اعظم، عمران خان اور وزیرِ اعلیٰ کے پی کے، محمود خان کے معتمدین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مڈل ایک مقامی ٹاٹ اسکول اور میٹرک ہائی اسکول نمبر ون، مینگورہ سے کیا۔ پھر جہانزیب کالج سیدو شریف، سوات اور زرعی یونی ورسٹی، پشاور میں زیرِ تعلیم رہے اور 1991ءمیں ماسٹرز کیا۔ انہوں نے دورانِ تعلیم ہی 1988ء میں ایک مقامی روزنامے سے رپورٹر کی حیثیت سے وابستہ ہو کر عملی صحافت کا آغاز کیا، جب کہ قاضی حسین احمد مرحوم، آفتاب احمد خان شیر پائو، مولانا فضل الرحمٰن سمیت بعض دیگر اہم سیاسی رہنمائوں سے کیے گئے ان کے انٹرویوز روزنامہ جنگ، راول پنڈی کے کلرڈ ایڈیشنز کی زینت بنے۔ 1994ء میں ایک اور مقامی اخبار سے چیف رپورٹر کی حیثیت سے منسلک ہوئے اور بعد ازاں پشاور سے جاری ہونے والے ایک نئے اخبار کی ادارت سنبھالی۔ 2004ء میں ایڈیٹر اِن چیف کے طور پر اپنے اخبار، روزنامہ سُرخاب کا آغاز کیا۔ شوکت یوسف زئی زمانۂ طالب علمی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ رہے اور زرعی یونی ورسٹی، پشاور میں پی ایس ایف کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ تاہم، عملی سیاست کا آغاز 1997ء میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر پی ایف 87شانگلہ (اب پی کے23 شانگلہ) سے الیکشن لڑ کر کیا۔ 1997ء میں جب انہوں نے انتخابات میں حصّہ لینے کا فیصلہ کیا، تو انہیں اپنے والد کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ تب وہ مالاکنڈ ڈویژن میں چلنے والی مولانا صوفی محمّد کی تحریک سے متاثر تھے اور ووٹ کو ناجائز و حرام سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مقامی ووٹرز کو حقِ رائے دہی سے روکتے ہوئے اُن کے شناختی کارڈز بھی اپنے پاس جمع کر لیے، تاکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہ کر سکیں۔ گرچہ انہیں اس معرکے میں بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اپنے والد کے اس انتہائی اقدام کے باوجود انہوں نے اپنی یونین کائونسل میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ شوکت یوسف زئی نے 2013ء کے عام انتخابات میں پشاور کے حلقے، پی کے 2 پشاور II سے الیکشن لڑا اور واضح برتری سے کام یابی حاصل کی۔ بعد ازاں، وہ پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کے وزراء پر مشتمل صوبائی کابینہ میں وزیرِ صحت کی حیثیت سے شامل ہوئے، لیکن جب کابینہ میں ردّ و بدل کیا گیا، تو انہیں اپنی وزارت سے محروم ہونا پڑا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں انہوں نے اپنے آبائی علاقے، شانگلہ کی نشست، پی کے 23پر کام یابی حاصل کی۔ تاہم، خواتین ووٹرز کا ٹرن آئوٹ کم ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مذکورہ حلقے کے نتائج روک لیے اور پھر یہاں ری پولنگ کا شیڈول جاری کیا۔ گرچہ دوبارہ انتخابات کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف کے مقابلے میں باقی تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے اتحاد کر لیا، لیکن شوکت یوسف زئی کے ووٹوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ برتری حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے۔ گزشتہ دنوں ہماری ان سے ایک ملاقات میں تفصیلی بات چیت ہوئی، جو نذرِ قارئین ہے۔
س :پاکستان تحریکِ انصاف کے گزشتہ دَورِ حکومت میں آپ سے وزارتِ صحت کا قلم دان کیوں لے لیا گیا تھا؟
ج :دراصل، پارٹی قیادت کا خیال تھا کہ محکمۂ صحت کا قلم دان کسی دوسرے وزیر کو سونپنے سے محکمے کی کارکردگی مزید بہتر ہو سکتی ہے۔ چُوں کہ یہ پارٹی قیادت کا فیصلہ تھا، سو اسے تسلیم کرتے ہوئے مَیں نے وزارت چھوڑ دی۔ بعض افراد کا خیال تھا کہ مجھے آیندہ کوئی وزارت نہیں دی جائے گی، لیکن پارٹی فیصلے پر عمل درآمد کے صلے میں نہ صرف مجھے دوبارہ ٹکٹ دیا گیا، بلکہ انتخابات میں کام یابی کے بعد وزارت بھی مل گئی۔
س2013 :ء کے عام انتخابات میں آپ پشاور سے کام یاب ہوئے، لیکن 2018ء میں اپنے آبائی علاقے، شانگلہ سے الیکشن لڑا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ج: جب مجھے پشاور کی بہ جائے شانگلہ سے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا، تو نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی سمجھتے تھے کہ پارٹی قیادت مجھ سے جان چھڑوانا چاہتی ہے۔ تاہم، اس سلسلے میں جب مَیں نے عمران خان سے رابطہ کیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’شوکت! مَیں نے شانگلہ سے آپ ہی کو ٹکٹ دینا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق آپ ہی ہمیں شانگلہ سے ایک نشست دِلوا سکتے ہیں، جب کہ پشاور سے تو ہمارا کوئی بھی امیدوار بہ آسانی کام یابی حاصل کر لے گا۔ اب آپ کی مرضی، پشاور سے لڑتے ہیں یا شانگلہ سے…۔‘‘ چناں چہ مَیں نے خان صاحب کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے شانگلہ ہی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اللہ نے اس انتخابی معرکے میں مجھے سُرخ رُو کیا۔
س: الیکشن کمیشن نے آپ کے حلقے کا نتیجہ کیوں روکا تھا؟
ج: میرے حلقے میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آئوٹ الیکشن کمیشن کی مطلوبہ تعداد سے کم تھا، جس کی بنا پر وہاں دوبارہ پولنگ کا شیڈول جاری کیا گیا۔ یوں ایک مہینے کے دوران میرے حلقے میں دو بار پولنگ ہوئی۔ گرچہ ری پولنگ میں تمام شکست خوردہ جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے میرے خلاف اتحاد کرلیا، لیکن اس کے باوجود مَیں نے نہ صرف کام یابی حاصل کی، بلکہ میرے ووٹس کی تعداد میں 20ہزار کا اضافہ بھی ہوا۔
س: 1997ء میں شکست کھانے کے بعد آپ نے آبائی حلقے کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ جب دوبارہ شانگلہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، تو ووٹرز کا ردِ عمل کیا تھا؟
ج: عوام نے جن نمائندوں کو منتخب کیا تھا، اُنہوں نے حلقے کے لیے کچھ نہیں کیا، جس کی وجہ سے لوگوں میں غصّہ تھا۔ اُن منتخب نمایندوں کی حکومتی کارکردگی صفر رہی۔ ہم نے شانگلہ کے لیے یونی ورسٹی کی منظوری لی، تو اُنہوں نے وہاں جا کر دو کمروں میں یونی ورسٹی کا افتتاح کردیا۔ اسی طرح گرڈ اسٹیشن کا اعلان ہم نے کیا اور ڈاکٹر عباد نے جا کر ازخود افتتاح کردیا۔ پھر حلقے میں شعبۂ تعلیم کی صورتِ حال بہت خراب تھی۔ ادارے نہیں تھے، سرکاری اسکولز کا بُرا حال تھا کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے کاروباری لوگ اپنی دُکان داری پر توجّہ دیتے اور اسکولز میں صرف تن خواہ وصولی کے روز حاضر ہو جاتے۔ اسپتالوں کی حالت بھی خراب تھی۔ ڈاکٹرز موجود ہی نہیں تھے۔ ضلعے میں کوئی فیکٹری ہے اور نہ ہی روزگار کے مواقع، جو بچّے بارہ سال کی عُمر کو پہنچ جاتے ہیں، وہ کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے چلے جاتے ہیں اور بیش تر اوقات وہاں سے اُن کی لاشیں ہی آتی ہیں۔ چناں چہ عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا اور اُن لوگوں کی اجارہ داری ختم کردی۔
س: اب وہاں تعلیم و صحت کی کیا صُورتِ حال ہے؟
ج: ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال اور بی ایچ یوز پہلے ہی سے تھے، مگر ڈاکٹرز نہیں ہوتے تھے، اب ڈاکٹرز وہاں موجود رہتے ہیں۔ اِس وقت تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال میں 23ڈاکٹرز ہیں۔ ڈی ایچ کیو میں تو اس سے بھی زیادہ ہیں۔ ڈاکٹرز نے اپنی ڈیوٹیز کچھ اس طرح کر رکھی ہیں کہ ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو اسپتال میں ہر وقت کم از کم تین ڈاکٹرز تو موجود ہوتے ہیں۔ یوں لوگ خوش ہیں اور اس حوالے سے اُن کی شکایات کا ازالہ ہوگیا۔ اسی طرح، اسکولز میں اساتذہ کی موجودگی لازمی ہونے سے جو لوگ صرف تن خواہ کے لیے بھرتی ہوئے تھے، وہ مستعفی ہو کر اپنے کاروبار کے ہوگئے اور باقی پابندی سے حاضر ہونے لگے۔ اب والدین اپنے بچّوں کو سرکاری اسکولز میں داخل کروا رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کو ترقّی ملے گی، تو حلقے کے عوام ترقّی کر سکیں گے۔ جو لڑکے صرف کوئلے کی کانوں کا رُخ کرتے ہیں، وہ تعلیم حاصل کر کے دوسرے شعبوں میں ملازمت اور روزگار حاصل کریں گے۔ شانگلہ کے لوگوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، بس مواقع ملنے کی ضرورت ہے۔ مَیں خود آج جس مقام پر ہوں، اس کا سارا کریڈٹ اپنے والد کو دیتا ہوں کہ اگر وہ ہم بھائیوں کو تعلیم نہ دلواتے، تو آج ہم بھی دیگر نوجوانوں کی طرح اِدھر اُدھر مارے مارے پِھر رہے ہوتے۔ میرے کزنز اور دیگر رشتے داروں کے پاس بہت زیادہ پیسا ہے کہ وہ سارے کاروبار کرتے ہیں، مگر میرے والد نے کاروبار نہیں کیا اور زمینیں بیچ کر پیسا ہماری تعلیم پر خرچ کیا۔
س: شانگلہ سے ماضی میں سرمایہ دار ہی الیکشن جیتتے رہے ہیں، اُن کے مقابلے میں آپ کے اخراجات کیا رہے؟
ج: اگر مَیں یہ کہوں کہ شانگلہ میں اب کی بار تبدیلی آئی ہے، تو غلط اس لیے نہیں ہو گا کہ ماضی میں لوگوں کی سوچ تھی کہ کروڑ پتی ہی سیاست کر سکتے ہیں، غریب اور متوسّط طبقے کے لوگ سیاست کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ مَیں نے شانگلہ سے ان سرمایہ داروں کے خلاف کام یابی حاصل کر کے غریب اور متوسّط طبقے کو حوصلہ دیا کہ وہ بھی سیاست کر سکتے ہیں۔ انتخابی اخراجات کے لیے میرے اکائونٹ سے صرف چار لاکھ، 80ہزار روپے خرچ ہوئے۔ مَیں نے کوئی جھنڈا بنایا اور نہ ہی بینرز، سب کچھ حلقے کے عوام نے اپنی طرف سے کیا۔ یہاں تک کہ اکثر پروگرامز میں کھانا بھی مقامی لوگوں ہی نے دیا۔
س: عموماً دُور دراز حلقوں کے ووٹرز شکایت کرتے ہیں کہ منتخب نمائندے پلٹ کر دیکھتے تک نہیں، آپ بھی پشاور میں رہائش پزیر ہیں، تو عوام سے کیسے رابطے میں رہیں گے؟
ج: یہ بات درست ہے کہ ماضی میں منتخب ہونے والے دو، دو سال بعد حلقے کا دَورہ کرتے تھے، جب کہ مَیں ہر ماہ اپنے حلقے میں جائوں گا۔ فی الحال تو پندرہ دن بعد جاتا ہوں، لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں، اُن کے مسائل سُنتا ہوں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ مسائل کے حل اور علاقے کی ترقّی کے لیے اقدامات کے ساتھ، یہ بھی بہت بڑا کام ہے کہ میری شکل میں عوامی سیاست کا راستہ کُھل گیا۔
س: کیا وجہ ہے کہ کوئلے کی کانوں میں شانگلہ ہی کے لوگ کام کرتے ہیں؟
ج: کوئلے کی کانوں میں کام کرنا، دنیا کا مشکل ترین کام ہے اور روایت پڑ گئی ہے کہ شانگلہ کے نوجوان ہی یہ کام کر سکتے ہیں۔ ان کان کنوں کے حقوق اور مراعات کے حوالے سے ہمارے قوانین خاموش ہیں، یہاں تک کہ جب کسی حادثے کی صورت میں یہ مزدور جان سے چلے جاتے ہیں، تو بھی اُن کے ورثا کو کچھ نہیں دیا جاتا۔ ہم اس سلسلے میں قانون سازی کریں گے اور مَیں نے وزیرِ اعظم، عمران خان سے بھی اس حوالے سے بات کی ہے۔
س: نئی حکومت نے جو اہداف طے کیے تھے، اب تک کیا حاصل ہو سکا ؟
ج: سب سے اہم چیز یہ ہے کہ 100دن کے دَوران حکومت کے لیے ایک رُخ کا تعیّن ہو گیا کہ ہم نے اگلے پانچ سال میں کرنا کیا ہے۔ ماضی میں کوئی بھی حکومت یہ نہیں کر سکی۔ ہر محکمے نے اپنا پانچ سالہ پلان وضع کر لیا ہے اور اب تمام محکمے منصوبہ بندی کے تحت ایک ڈگر پر چل پڑیں گے۔ جہاں تک ابتدائی ایک سو دنوں کا تعلق ہے، تو اس عرصے میں خیبر پختون خوا کو دیگر صوبوں پر سبقت حاصل رہی۔ نئے بلدیاتی نظام کا مسوّدہ تیار ہے، جس کے تحت قبائلی اضلاع میں بھی پہلی بار بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ نیز، صوبے کے 5.3کروڑ عوام کو آئندہ پانچ سال میں پینے کا صاف فراہم کیا جائے گا، تو قبائلی اضلاع میں واقع اسکولز کا معیار بہتر بنائیں گے۔ ایک سو روزہ پلان میں صوبائی حکومت نے چھبیس نکاتی پروگرام ترتیب دیا تھا۔ ماضی میں دیکھیں، تو الیکشن کے بعد پارٹی منشور پر بات نہیں کی جاتی تھی، لیکن ہم اپنے منشور کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صحت، تعلیم، سیّاحت اور بلدیات کے شعبوں میں انقلابی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ایک سو روزہ پلان کے تحت فاٹا مرجر کے حوالے سے قائم ٹاسک فورس نے اپنا کام مکمل کر لیا۔’’ صحت انصاف کارڈ‘‘ کی فراہمی کو فاٹا تک توسیع دی جائے گی اور قبائلی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بلاسود قرضوں کے لیے پانچ بلین روپے مختص کیے جا چُکے ہیں۔ نیز، نوجوانوں کی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے تیکنیکی تعلیم پر خصوصی توجّہ دی جا رہی ہے۔ سیّاحت کے فروغ کے لیے پالیسی پہلے ہی مکمل ہو چُکی ہے، جس کے تحت اب تک بیس ایسے سیّاحتی مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کی ترقّی سے صوبے میں سیّاحت کو فروغ ملے گا۔
س: وزراء فعال، لیکن وزیرِ اعلیٰ خاموش کیوں ہیں؟
ج: یہ غلط بات ہے کہ وزیرِ اعلیٰ باصلاحیت نہیں۔ وہ بڑے شریف انسان ہیں اور بڑی بات یہ ہے کہ کرپٹ نہیں ہیں۔ کوئی اُن کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ وہ اپنی کمٹمنٹ کے پکّے ہیں۔ عمران خان سوچ سمجھ کر اُنہیں لائے ہیں۔ وہ دن رات عوامی فلاح و بہبود کے لیے مصروف رہتے ہیں۔ ابتدا میں مختلف محکموں سے بریفنگز لینے اور صلاح مشوروں میں مصروف رہے۔اس کے باوجود کئی مرتبہ فیلڈ میں نکلے، بی آر ٹی کے مختلف حصّوں کا معائنہ کیا، اسپتالوں میں گئے، جیل کا وِزٹ کیا۔ باہر لوگوں کو نظر آئیں یا نہ آئیں، مگر ہمیں پتا ہے کہ وہ کس قدر مصروف رہتے ہیں۔ بہرحال، اب صلاح مشوروں اور منصوبہ بندیوں کا عمل مکمل ہو چُکا ہے، سو اب اُن کا مزید فعال کردار سامنے آئے گا۔
س: ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بیورو کریسی اور حکومت کے مابین چیقلش ہے اور سرکاری کام نہیں ہو رہے؟
ج: میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بیورو کریسی جتنی آج آزاد ہے، پہلے کبھی نہیں تھی کہ ان پر سیاسی دبائو نہیں، حکومت کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں۔ ہاں ،البتہ جو افسر ہمارے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل نہیں کریں گے یا ترقّی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے، روڑے اٹکائیں گے، تو وہ ہمارے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔
س: پی ٹی آئی نے احتساب کمیشن قائم کیا، پھر اُسے ختم کیوں کر دیا ؟
ج: احتساب کمیشن بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عمران خان نیب سے زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ پانچ سال اس میں گزر گئے کہ احتساب ہونا چاہیے ،مگر احتساب کمیشن کی کارکردگی وہ نہ رہی، جس کی توقّع تھی۔ نیز، یہ ادارہ ابتدا ہی میں متنازع ہو گیا تھا۔ ہم حامد خان کو ایک اُمید کے ساتھ لائے تھے، لیکن وہ غیر ضروری چیزوں میں اُلجھ گئے اور اپنے ادارے کے کمشنرز کو کُھڈّے لائن لگا دیا۔ ہم اسمبلی سے ترمیم لائے کہ چیئرمین اپنے کمشنرز سے مشورہ کیا کریں، اُنہیں اعتماد میں لیں، مگر اس معاملے کو غیر ضروری طور پر اچھالا گیا، جس سے ایک بحران کی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ دوسری جانب، نیب کی کارکردگی بہتر انداز میں سامنے آنے لگی۔ چناں چہ جب ایک ادارہ بہتر انداز میں کارکردگی دِکھا رہا ہو، تو پھر اس کے متبادل ادارے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے احتساب کمیشن کو ختم کرنا پڑا۔
س: بی آر ٹی منصوبے کی تکمیل کے لیے چھے ماہ کا ہدف رکھا گیا، مگر ایک سال ہوگیا اور ابھی تک یہ مکمل نہ ہو سکا؟
ج: حکومت بی آر ٹی کو جلد مکمل کرنا چاہتی تھی، تاہم ایک ایشو آ گیا۔ وہ یہ کہ اس کی لاگت52ارب روپے سے 68ارب تک پہنچ گئی۔ دراصل، منصوبے میں اضافی سڑکیں شامل کی گئیں، جس سے لاگت بڑھی۔ پچھلی حکومت نے اضافی لاگت کی منظوری نہیں دی، ورنہ یہ بروقت مکمل ہو جاتا، اب منظوری مل گئی ہے، لہٰذا مارچ تک اسے مکمل اور اپریل میں آغاز کردیا جائے گا۔
س: آپ کی جماعت قرضے نہ لینے کی بات کرتی تھی، لیکن اب مُلک مُلک پِھر رہے ہیں، یہ تضاد کیوں ہے؟
ج: جی، ہم کبھی قرضے نہ لیتے، اگر سابق حکومت تیس ہزار ارب روپے کے قرضے چھوڑ کر نہ جاتی۔ ہمیں تو اس قرض کی قسط کی ادائی کے لیے بھی قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔ ہمیں طعنے دینے والے خود شرم کریں۔ جنرل مشرف کے دَور میں ہر پاکستانی چالیس ہزار روپے کا مقروض تھا، جب کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے’’ تجربہ کاروں‘‘ کی وجہ سے آج ہر پاکستانی سوا لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ اُنہوں نے مہنگے آئی پی پیز یونٹ لگائے۔ جاتے جاتے بھی عوام سے فراڈ کیا، کئی چیزیں چُھپا کر گئے، آخر میں اسٹیٹ بینک سے قرضہ لیا اور نوٹ بھی چھاپے، جس سے افراطِ زر میں اضافہ ہوا۔ ان باتوں کا ہر کسی کو پتا ہونا چاہیے۔
س: سی پیک کے حوالے سے صوبے کے تحفّظات کا کیا بنا ؟
ج: ہم مغربی رُوٹ کی بات کر رہے تھے۔ سابق حکومت نے اس حوالے سے عوام سے جھوٹ بولا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ شانگلہ اور بونیر کا رُوٹ اس میں شامل ہو گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اس میں نہیں تھا۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے، تو یہ انتہائی اہم، حسّاس اور گیم چینجر منصوبہ ہے۔ چینی اس حوالے سے بے حد حسّاس ہیں۔ ہم نے ایسی حکمتِ عملی طے کرنی ہے کہ وہ بھی ترقّی کریں اور ہم بھی۔ ہمارے بعض ہم سایہ ممالک اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتے ہیں، چینی قونصل خانے پر حملہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کے دورۂ چین کے دوران مزید معاہدے ہوئے ہیں، لیکن اگر ان باتوں کو سامنے لایا گیا، تو ہمارے دشمن اور بدخواہ مزید آگ بگولا ہوں گے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ سی پیک سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ شانگلہ ایک پس ماندہ علاقہ ہے، پشاور سے وہاں تک کا 9گھنٹے کا سفر ہے۔ سی پیک کے تحت ہزارہ موٹر وے مکمل ہو، تو پشاور سے شانگلہ کا سفر تین گھنٹے کا ہو جائے گا۔ سی پیک کے ذریعے چین اپنے مغربی علاقوں کو ترقّی دینا چاہتا ہے، مگر ہم اپنے علاقوں کو ترقّی نہیں دے سکے۔ فاٹا کے نام پر پیسے تو آتے رہے، مگر وہاں ترقّی نام کو بھی نہیں ہوئی۔
س: آپ نے وزیرِ اعظم کے ہم راہ شمالی وزیرستان کا دورہ کیا، کوئی تبدیلی محسوس کی ؟
ج: بعض لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ قبائلی انضمام کے خلاف ہیں، لیکن وزیرستان کے لوگوں نے عمران خان کا جس والہانہ انداز میں استقبال کیا اور اُن کی آمد پر جس طرح خوشی کا اظہار کیا، مَیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پولیس کے حوالے سے اُن کے خدشات تھے، مگر وزیرِ اعظم نے اُنہیں یقین دلایا کہ تھانوں کی سطح پر جرگوں کی طرز پر ڈی آر سی کمیٹیز ہوں گی۔ وزیرِ اعظم نے اُنہیں کہا کہ ’’تعلیم کے لیے آگے بڑھو، امن و امان میں ساتھ دو اور ترقّی کرو۔‘‘ وہاں کیڈٹ کالجز، یونی ورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں کے قیام کے اعلانات کیے گئے۔ پروفیشنل کالجز میں وہاں کے طلبہ کا کوٹا دُگنا کرنے کا اعلان ہوا۔ وزیرِ اعظم نے بتایا کہ اُنھیں این ایف سی میں تین فی صد دیا جائے گا۔ میرے خیال میں فاٹا کے عوام انضمام کے خلاف نہیں، صرف چند افراد اپنی دُکان داری اور اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے مخالفانہ باتیں کرتے ہیں۔
س: صوبائی حکومت کب تک فاٹا کو مین اسٹریم میں لا رہی ہے ؟
ج: سینئر وزیر، عاطف خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس کے ارکان میں وزیرِ خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، وزیرِ قانون سلطان محمّد اور مَیں شامل ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کتنے محکمے براہِ راست سیکرٹریز کے حوالے کرنا ہوں گے۔ یہ بھی تجویز تھی کہ فی الحال فاٹا سیکرٹریٹ بحال رہے، مگر پھر سوچا گیا کہ ایسا کرنا مکمل انضمام کی راہ میں رکاوٹ ہو گا۔ بہر حال کمیٹی جلد صوبائی کابینہ کو اپنی سفارشات بھیج دے گی۔
س: بدامنی کی جو نئی لہر اٹھی ہے، حکومت اس کے سدّ ِ باب کے لیے کیا کر رہی ہے؟
ج: بدقسمتی سے ہمارا مشرقی ہم سایہ، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ جلال آباد، ننگرہار، کابل اور دیگر سرحدی قصبوں میں بھارتی قونصل خانے’’را‘‘ کے مراکز بنے ہوئے ہیں، جہاں سے پاکستان میں کارروائیوں کے لیے لوگوں کو تربیت اور تخریبی مواد سمیت مالی امداد دی جا رہی ہے۔ بھارت ایک طرف سی پیک کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، تو دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے مابین بداعتمادی پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ دونوں مسلم ممالک کے تعلقات خراب ہوں۔ بدامنی اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان، دونوں کو اس بات کا ادراک کرتے ہوئے بھارت کے مذموم مقاصد کو سمجھنا چاہیے۔ ہم نے وزیرِ اعظم کے ہم راہ افغان صوبوں خوست، پکتیا اور صوبہ پکتیکا سے ملنے والی سرحدوں کا جائزہ لیا۔ ان سرحدوں پر افغانستان کے ساتھ تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ غلام خان اور انگور اڈہ پر افغانستان کے ساتھ طورخم بارڈر سے بھی زیادہ تجارت کے مواقع ہیں اور یہ تب ہو سکتا ہے، جب امن قائم ہو۔
س: طاہر داوڑ کی لاش لینے آپ بھی گئے تھے، کیا ہوا تھا؟
ج: وفاقی وزیر، شہر یار آفر یدی، مَیں اور صوبائی حکومت کے ترجمان، اجمل وزیر کو میّت لینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ افغان حکومت ہم سے زیادہ فکر مند ہوگی کہ اُن کے ملک میں ایک دوسرے مُلک کے شہری کو لے جا کر قتل کیا گیا تھا اور وہاں سے لاش آ رہی تھی، مگر اُنہیں اس بات کی سرے سے پروا ہی نہیں تھی۔ وہ اس لاش کو بھی ایکسپلائٹ کر رہے تھے اور معاملے کو دوسری طرح سے ہوا دے رہے تھے۔ حکومتی نمائندوں کو لاش دینے سے انکار کر دیا اور موقف اپنایا کہ ہم پختونوں کے حوالے کریں گے۔ ہم نے کہا کہ شہر یار آفریدی پختون ہیں، شوکت یوسف زئی پختون ہیں اور اجمل وزیر بھی پختون ہیں، یہ حکومت اور پختونوں کے بھی نمائندے ہیں مگر وہ لوگ طاہر داوڑ کے دُکھی خاندان کو غصّہ دِلانا چاہتے تھے، لیکن ہم اُن کے خاندان کے شُکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے بڑے صبر و تحمّل کا مظاہرہ کیا۔ ہم پاک فوج کے بھی شُکر گزار ہیں، جس نے بڑی اچھی حکمتِ عملی سے لاش وصول کی۔
س: پی ٹی ایم پر بھی اعتراضات اُٹھ رہے ہیں، کیا اُن سے بات چیت نہیں ہو سکتی؟
ج: سیاسی اختلافات اپنی جگہ، مگر ہم ہر کسی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ دراصل فاٹا میں تھوڑا سا خلا آگیا ہے اور کچھ لوگ اس خلا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ اس خلا کو جلد از جلد پُر کر کے فاٹا کو ترقّی کی راہ پر گام زَن کیا جائے اور اس کے لیے مذاکرات ضروری ہیں، لیکن اگر کوئی پاکستان کے اداروں کے خلاف اٹھنا چاہتا ہے، تو وہ کسی بھی صُورت ناقابلِ برداشت ہے۔ قبائلی علاقوں میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جو آپریشنز کیے ہیں، دنیا کی کوئی دوسری فوج ایسا نہیں کر سکتی۔ بے آب و گیاہ پہاڑی علاقوں میں جہاں مقامی آبادی بھی منتشر رہتی ہے، وہاں دہشت گردی کے مراکز، تربیت گاہوں اور اسلحہ خانوں کا صفایا کرنے، دہشت گردوں کو مارنے اور بھگانے کے کام یاب آپریشن اور امن و امان کے قیام کے اقدامات کو جتنا بھی سراہا جائے، کم ہے۔ پاک فوج کی قربانیوں کے ساتھ قبائلی عوام کی قربانیاں بھی لازوال ہیں، جنہوں نے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ عارضی نقل مکانی کی اور پاک فوج کا ساتھ دیا اب جب کہ امن قائم ہوا ہے، تو نقلِ مکانی کرنے والے دوبارہ آباد ہوئے ہیں۔ ترقّی اور خوش حالی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، تو ایسے میں کسی کو یہ سب کچھ سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
س : آپ کا صحافت سے بھی تعلق ہے، تو وزارتِ اطلاعات میں کیا تبدیلیاں لا رہے ہیں؟
ج : ہمارے محکمے کے زیادہ تر افسران غیر تربیت یافتہ ہیں، اکثر اوقات پرانے بیانات نکال کر نئے ناموں سے جاری کر دئیے جاتے ہیں، البتہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے جو افسران بھرتی ہو کر آ رہے ہیں، وہ نسبتاً اچھے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ صوبے کا اپنا ٹی وی چینل ہو۔ وزیرِ دفاع، پرویز خٹک اور وزیراعظم کے میڈیا ایڈوائزر، افتخار درّانی کو کہا ہے کہ وہ ہمارا کیس آگے پیش کریں، اگر اجازت ملی تو اس میں اچھے اور تجربے کار لوگوں کو لائیں گے۔ ابھی ہمارے پانچ ریڈیو اسٹیشنز ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ان کی آواز وزیرستان کے دُور دراز علاقوں میں بھی پہنچائیں۔ ایک بات واضح ہے، اب جو بھی انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں رہے گا، اُسے کام کرنا پڑے گا۔
س: اشتہارات کے لیے کیا پالیسی ہو گی؟
ج: ہم چاہتے ہیں کہ مقامی اخبارات کو زیادہ سے زیادہ پروموٹ کریں، تاہم ،جو اخبارات محض اشتہارات کے لیے چَھپتے ہیں اور مارکیٹ میں نہیں ہوتے، اُن کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ ڈمی اخبارات کو اب پی آئی ڈی سے کوئی سپورٹ نہیں ملے گی، کسی بھی اخبار کے لیے اسٹاف کی کم سے کم حد بیس افراد رکھیں گے۔ اشتہارات کے لیے پالیسی کی تیاری میں پریس کلبز ، صحافیوں کی یونینز اور اے پی این ایس سے بھی مشاورت کریں گے۔
س: شادی کب ہوئی، کتنے بچّے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟
ج: پہلی شادی1986ء میں خالہ زاد سے کی۔ ارینجڈ میرج تھی اور اُنھیں بھارت سے بیاہ کر لایا۔ اُن سے چھے بچّے ہیں، بڑا بیٹا ڈاکٹر ہے، تین بیٹیوں کی شادیاں ہو چُکی ہیں۔ دوسری شادی2009ء میں کی، جو لَو میرج ہے، اُن سے بھی چھے بچّے ہیں۔ دونوں الگ الگ رہ رہی ہیں اور دونوں گھروں کو روزانہ کی بنیاد پر برابر وقت دیتا ہوں۔ اس حوالے سے بیویوں کو کوئی شکایت ہے اور نہ ہی بچّوں کو۔ مَیں بہت خوش قسمت ہوں کہ دو بیویوں کے باوجود گھر میں سکون ہے۔ دوسرا بیٹا بھی شاید ڈاکٹر بن جائے، فرسٹ ائیر میں تو اُس کے اچھے نمبر آئے ہیں۔ ایک بیٹا پولٹیکل سائنس اور ایک ایم ایس کر رہا ہے۔
س: گھر کے لیے خریداری کون کرتا ہے اور آپ کے کپڑے کس کی پسند سے آتے ہیں؟
ج: دونوں گھروں کا سارا سودا سلف خود لاتا ہوں اور اپنے کپڑے بھی خود ہی پسند کرتا اور خود ہی خریدتا ہوں۔ سفید اور کالا رنگ پسند ہے۔ پہلے زیادہ تر پینٹ شرٹ پہنتا تھا۔ پی ٹی وی اور نجی ٹی وی میں اینکر تھا، تو سوٹ بھی سلوائے تھے، مگر اب وہ تنگ ہو گئے ہیں۔ آج کل زیادہ تر قمیص شلوار ہی پہنتا ہوں۔
س: کھیلوں کا شوق تو ہوگا ؟
ج: بچپن میں گائوں سے مینگورہ سٹی آتے، تو رشتے داروں کے ہاں ٹی وی پر کرکٹ دیکھتے۔پھر گائوں جا کر دریائوں سے گول پتھر جمع کرتے اور سڑک پر بائو لنگ کیا کرتے۔ ایک رشتے دار، ہاشم علی کراچی سے آیا، تو اُس نے سِکھایا کہ کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں۔ اُنہوں نے کپڑے سے بالز اور لکڑی کے بیٹ بنا کر دیے۔ جہانزیب کالج، سوات میں داخل ہوا، تو کرکٹ ٹیم کا بھی حصّہ بن گیا۔ یہ1980ء کا زمانہ تھا۔ گول پتھروں سے سیکھنے کے باعث مَیں کالج ٹیم کا فاسٹ بائولر تھا۔ زرعی یونی ورسٹی، پشاور میں بھی کرکٹ ٹیم کا حصّہ رہا اور پہلے’’ آل پاکستان ٹرافی ٹورنامنٹ‘‘ کے میچز کھیلے۔ دوسرے ٹورنامنٹ کے دوران میرا گھٹنا زخمی ہوا، تو یونی ورسٹی نے میرے علاج پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیے، تاہم اس زخم کی وجہ سے مزید کرکٹ نہ کھیل سکا۔ ان دنوں میڈیکل کالج میں آخری داخلہ728نمبرز پر دیا گیا تھا اور میرے ایف ایس سی میں714نمبر تھے، لیکن مجھے میڈیکل ایڈمیشن نہ ہونے کا اتنا صدمہ نہیں ہوا، جتنا کرکٹ چُھوٹ جانے کا ہوا۔
س: صحافت میں کیسے آئے؟
ج : جب کرکٹ چُھوٹ گئی، تو شعبۂ صحافت سے وابستہ ہوگیا۔ 1992ء میں’’ خیبر یونین آف جرنلسٹس‘‘ کا صدر بھی منتخب ہوا۔1996ء میں عمران خان نے سیاسی جماعتوں پر اپنے منشور کے حوالے سے عمل درآمد کروانے کے لیے ایک پریشر گروپ تشکیل دیا، مَیں بھی اُن کے ساتھیوں میں سے تھا، بعدازاں اس پریشر گروپ کو اُنہوں نے’’ تحریکِ انصاف‘‘ کا نام دے دیا۔
س: کھانے میں کیا پسند ہے؟ اور کیا موسیقی سے بھی لگائو ہے، کیا گنگناتے ہیں؟
ج: دال چاول شوق سے کھاتا ہوں۔جی ہاں موسیقی سے بہت لگائو ہے۔ رات کے وقت گھر پر یا سفر کے دوران گاڑی میں موسیقی سُنتا ہوں۔’’ہم سے بدل گیا وہ‘‘ گانا اکثر گنگناتا ہوں۔
س: پسندیدہ گلوکار کون ہے اور کیا فلمیں دیکھتے ہیں ؟
ج: مہدی حسن پسندیدہ گلوکار ہیں۔ جن دنوں پاک فوج شاہ راہِ ریشم بنا رہی تھی، تو اُن کے کیمپس میں اسکرین پر نئی پنجابی فلمز دِکھائی جاتی تھیں۔ چناں چہ ہم بچّے بھی مفت میں وہ فلمز دیکھتے تھے۔ندیم، شبنم، محمّد علی اور زیبا کی جوڑیاں بہت پسند تھیں۔ لالہ سدھیر، کمال، اسد، اقبال حسن وغیرہ سب یاد ہیں۔
س: خوشی کا کوئی یادگار دن؟
ج: میری والدہ بھارت گئی ہوئی تھیں۔ جب دو، ڈھائی ماہ بعد واپس آئیں، تو مَیں کراچی میں تھا۔ وہاں سے بھاگا بھاگا گائوں آیا تاکہ ماں سے مل سکوں۔اُس روز میں بہت خوش تھا۔ جب کہ میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن، اُن کی وفات کا دن تھا۔ میرے والد کو بھی جگر کا کینسر لاحق ہوا، اُنھیں شوکت خانم اسپتال لے کر گیا، تو ڈاکٹرز نے بتایا کہ ان کی زندگی صرف دو ہفتوں کی رہ گئی ہے، انہیں گھر لے جائو، لیکن مَیں اُنہیں فوری طور پر بھارت لے گیا اور وہاں اُن کا لیور ٹرانسپلانٹ کروایا۔ یہ 2011-12ء کی بات ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ والد صاحب آج پوری طرح فِٹ ہیں۔ اُن کی زندگی کی اُمید بھی میرے لیے بہت بڑی خوشی ہے۔
س: عزّت، شہرت، دولت میں سے کسے پسند کریں گے؟
ج : عزّت ہو گی، تو سب کچھ ہوگا۔ عزّت نہ ہو، تو شہرت اور دولت کس کام کی۔ جو لوگ دولت کے بل بُوتے پر عزّت اور شہرت حاصل کرتے ہیں، وہ تو اب جیلوں میں جا رہے ہیں۔
س: پرانے دوستوں سے ملتے ہیں؟
ج: میرے اسکول کے زمانے کے دوستوں میں کوئی مستری ہے، کوئی ڈرائیور، مگر آج بھی جب گائوں جاتا ہوں، تو اُن سے ملے بغیر واپس نہیں آتا۔اسی طرح سیاست کی ابتدا میں جن لوگوں نے ساتھ دیا، جیسے عُمر گل،بنارس خان وغیرہ کہ جس وقت والد نے مخالفت کی تھی اور اُن لوگوں نے ساتھ دیا تھا، تو اُنھیں بھی نہیں بھولتا۔
س: کون سا پھول، موسم اور مُلک، شہر پسند ہے؟
ج: چنبیلی کا پھول پسند اور خُوش بُو بھی اسی کی پسند ہے۔ موسموں میں سردی اچھی لگتی ہے، جب ہلکی ہلکی ہوا بھی ساتھ چلے۔پاکستان میں سوات، خصوصاً کالام پسند ہے، جب کہ بیرونی ممالک میں ڈنمارک اچھا لگا۔
س: محبّت پر یقین رکھتے ہیں؟
ج: محبّت پر یقین رکھتا ہوں، تب ہی تو دوسری شادی کی ہے۔
س: آپ کی کون سی بات اچھی اور کون سی بُری ہے؟
ج: گھر والے اور بچّے اعتماد کرتے ہیں، یہ میری اچھی بات ہے۔ سختی بھی کرتا ہوں، سخت منتظم ہوں، میرے سامنے بھائی بھی بات نہیں کرسکتے، تو شاید یہ کچھ زیادہ اچھی بات نہیں۔
س: گھر میں فیصلے کون کرتا ہے؟
ج: مشاورت سے کرتے ہیں، پھر بھی کسی بات پر اختلاف ہو، تو والد کا کردار اہم ہوتا ہے۔ وہ ہمیں سمجھاتے ہیں اور بات بن جاتی ہے، البتہ سیاست میں آنے کا فیصلہ مکمل طور پر میرا ذاتی تھا۔ایک بات مَیں نے عمران خان سے سیکھی ہے کہ وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے اور جو لوگ مایوس نہیں ہوتے، وہ کبھی حوصلہ نہیں ہارتے۔
س: خان صاحب یوٹرن کے حوالے سے بہت زیادہ شہرت رکھتے ہیں؟
ج: سیاسی رہنما کی کوالٹی ہی یہ ہے کہ وہ وقت دیکھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لیڈر وہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنے پیچھے چلائے، نہ کہ لوگوں کے پیچھے چلے اور لوگوں کو اپنے ساتھ لانے کی صلاحیت عمران خان میں ہے۔ حالات کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنا ایک لیڈر کی صلاحیت ہوتی ہے نہ کہ برائی، اسے آپ یوٹرن کہیں یا حالات کا تقاضا، ہر لیڈر ایسا نہیں کر سکتا۔
س: خود پر کس قدر توجّہ دیتے ہیں؟
ج: خود کو فِٹ رکھنے کے لیے جِم جوائن تو کیا ہے، مگر مصروفیات کی وجہ سے پورا وقت نہیں دے پاتا۔ کبھی کبھار سوئمنگ بھی کر لیتا ہوں۔
دوستم نے مجھے گھورتے ہوئے کہا ’’میں کمیونسٹ نہیں ہوں‘‘
1992ء میں افغان صدر، پروفیسر صبغت اللہ مجدّدی کے قافلے کے ساتھ کابل گیا، تو صدر کی حلف برداری تقریب میں جنرل روزی سے ملاقات ہوئی اور اُن سے مزار شریف میں جنرل دوستم سے انٹرویو کا وقت طے ہوا۔ اگلے روز صبح سویرے کابل ائیرپورٹ پہنچ گیا، وہاں گلم جم ملیشیا کے سپاہی تھے (یاد رہے کہ ڈاکٹر نجیب کی معزولی اور پھانسی کے بعد کابل ائیر پورٹ پر دوستم ملیشیا کا قبضہ تھا اور جنرل روزی کے پاس اس کی کمانڈ تھی )، میرے پاس انٹرویو کے لیے ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر تھا، جو بٹن دَب جانے سے چل پڑا، جس میں بھارتی گانوں کی کیسٹ تھی۔ جیسے ہی گانے کی آواز اُبھری، گلم جم ملیشیا کا ایک سپاہی میرے پاس آیا اور مجھ سے ٹیپ ریکارڈر مانگا۔ مَیں اُس کی زبان نہیں سمجھ رہا تھا اور اسے اُردو یا پشتو نہیں آتی تھی۔ مَیں اُسے اشاروں میں سمجھانے لگا کہ اس سے انٹرویو ریکارڈ کروں گا۔ پہلے تو وہ شرافت سے مانگتا رہا اور پھر اُسے غصّہ آگیا اور مجھے کلاشنکوف تھما دی کہ یہ لے لو، ٹیپ دے دو۔ مَیں اُس کی آنکھیں دیکھ کر خوف زَدہ ہوگیا۔ ابھی ہماری تکرار جاری تھی کہ جنرل روزی وہاں پہنچے اور اُنہوں نے پوچھا، کیا بات ہے۔مَیں نے اُنہیں بتایا کہ وہ ٹیپ ریکارڈر مانگ رہا ہے، جس پر جنرل روزی نے اُس کی خُوب دُھلائی کی۔ صدر نجیب کی معزولی کے بعد کابل میں مرحوم وزیرِ دفاع، احمد شاہ مسعود کی پروفیسر استاد سیاف کے ساتھ پریس کانفرنس ہو رہی تھی۔ مَیں نے اُن سے پوچھا’’ آپ تو مجاہدین کی حکومت بنانے کی بات کرتے تھے، مگر آرمی چیف، جنرل دوستم کو بنا دیا، جو کمیونسٹ ہے‘‘۔ اگلے روز مَیں جنرل دوستم کا انٹرویو کرنے مزار شریف گیا، تو احمد شاہ مسعود کی پریس کانفرنس ٹی وی پر دِکھائی جا رہی تھی، جیسے ہی میرا سوال دُہرایا گیا، تو جنرل دوستم نے میری طرف دیکھ کر کہا’’ مَیں کمیونسٹ نہیں ہوں۔‘‘ وہ تھوڑے ناراض دِکھائی دیے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ یہ تو آپ کے بارے میں پروپیگنڈا ہو رہا ہے، اسی لیے مَیں نے سوال کیا تھا۔ اس پر دوستم نے کہا’’ یہ حکمت یار کا پروپیگنڈا ہے۔‘‘ دو دن بعد جنرل دوستم کا انٹرویو مشرق اخبار میں چَھپا، تو حبیب الرحمان (مرحوم) نے، جو نیوز ایڈیٹر تھے، لیڈ لگا دی اور یہ سُرخی دی ’’ کمیونسٹ نہیں، یہ حکمت یار کا پروپیگنڈا ہے، جنرل دوستم۔‘‘ اس پر حکمت یار کی تنظیم، حزبِ اسلامی کے لوگ مجھ سے ناراض ہوگئے ۔