• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ …شہزادعلی
برطانیہ میں وزیراعظم تھریسامے کی ڈیل کی ناکامی کی صورت میں ملک ایک غیر یقینی غیر متوقع صورت حال سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ یہ بات مبصرین پارلیمان میں بریگزٹ متعلق مجوزہ ووٹنگ کے تناظر میں اپنے تبصروں میں کہہ رہے ہیں جب کہ ایک جائزہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں جہاں پورے ملک پر معاشی منفی اثرات مرتب ہوں گے وہاں اقلیتی طبقات کے زیادہ متاثر ہونے کے خدشات ہیں۔ مذکورہ ووٹنگ پہلے گزشتہ ماہ 11 دسمبر کو ہونی تھی مگر وزیراعظم تھریسا نے نے ڈرامائی قدم اٹھا کر ووٹنگ موخر کر دی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ممبران پارلیمان آخری تیاریوں میں مصروف ہیں کہ کیا وہ وزیراعظم کی یورپی یونین چھوڑنے کی ڈیل کی حمایت کریں یا مخالفت؟ “ بامقصد ووٹ” پانچ دن کی بریگزٹ ڈیبٹ کے اختتام پر آج رات سات بجے کو ڈالا جائے گا۔ مسز مے کا ممبران پارلیمان سے اصرار ہے کہ وہ ان کی ڈیل کی حمایت کریں بصورت دیگر وہ برطانوی لوگوں کی رائے کے خلاف خطرات مول لیں گے۔ لیکن بیشتر مبصرین کے جائزوں سے تصویر ابھرتی ہے کہ خود وزیراعظم کی اپنی پارٹی کے بہت سے ممبران پارلیمنٹ حزب مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کران کی ڈیل کے خلاف ووٹ دیں گے اور اپنی ہی جماعت کی وزیراعظم کی شکست میں کردار ادا کریں گے۔ اٹارنی جنرل جیفری کاکس نے آخری دن کی بحث کو اوپن کیا ہے جب کہ وزیراعظم کی ساڑھے چھ کے قریب تقریر سے ڈبیٹ بند کر دی جائے گا اور سات بجے کے قریب ووٹ تین یا چار بیک بنچ ترامیم سی شروع کیے جانے کا امکان ہے یہ ترامیم ڈیل کو ری شیپ کرسکتی ہیں اور پھر جو انخلاء کے معاہدے پر بذات خود ووٹ ہے اس کی شکل بھی بدل سکتی ہے۔ پیر 14 جنوری دی ٹائمز لندن نے اپنے اداریہ میں بریگزٹ بحران پر قابو پانے، ایک نو ۔ ڈیل بریگزٹ سے بچنے کا بہترین طریقہ ممبران پارلیمان کے لیے یہ تجویز کیا ہے کہ وہ وزیراعظم تھریسامے کے پلان کی حمایت کریں لیکن اگر وزیراعظم کو شکست ہوجاتی ہے تو پارلیمنٹ کو لازمی طور پر اس بحران سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈیں ۔ پارلیمنٹ میں جو ووٹنگ ہو رہی ہے اس متعلق دی ٹائمز نے یہ لکھا ہے کہ اس کا جو بھی نتیجہ نکلے، برطانوی سیاست کئی دہائیوں کے ایک اہم ہفتہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر ایم پیز تھریسامے کی بریگزٹ ڈیل کی حمایت کریں تو برطانیہ 29 مارچ کو یورپی یونین سے انخلاء کر جائے گا جس سے برطانیہ کی سات دہائیوں پر پھیلی خارجہ پالیسی اور 45سالہ ای یو ممبر شپ کا صفحہ الٹ جائے گا۔ لیکن اگر ایم پیز یورپ چھوڑنے کے ایگریمنٹ کو مسترد کرنے کیلئے ووٹ دیتے ہیں تو پھر جیسا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ برطانیہ نامعلوم غیر متوقع حالات کا شکار ہوگا یعنی ملک ایک ایسی صورت حال جو کبھی پہلے پیش نہیں آئی اور جو خطرناک ہوسکتی ہے میں پھنس سکتا ہے۔ شکست کی صورت میں حکومت جاری پروسیس پر کنٹرول کھو بیھٹے گی بدنظمی پھیلنے کے خدشات ہیں اور واضح نہیں کہ کنٹرول پھر واپس کیسے اور کس سے حاصل کیا جائے گا۔دلچسپ طور پر دی ٹائمز اس امر کی حمایت کررہا ہے کہ ایک نو ڈیل سے بچنے کا بہترین طریقہ مسز مے کی ڈیل کی حمایت ہے کہ ان کی ڈیل پر فیکٹ نہیں لیکن یہ برطانیہ کو ایک معمول کے انخلاء کی اجازت دے گی۔ یہ ڈیل واجب الادا مالی ذمہ داریوں کو طے کرتی ہے، شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔
سنڈے ٹائمز 6 جنوری، ایڈیٹوریل، بریگزٹ بات چیت کے حوالے عموماً” ای یو چیف مزاکرات کار مچل برنئیر کی جانب سے یہ بات کی جاتی ہے کہ کلاک ٹک ٹک کر رہاہے۔ تاہم کلاک بدستور ٹکنگ کر رہاہے اور ابھی تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ جب 10 دسمبر کو وزیراعظم تھریسا مے نے اعلان کیا کہ وہ اپنی بریگزٹ انخلاء اگریمنٹ پر ہاؤس آف کامنز کا ووٹ پلنگ pulling کررہی ہیں یہ توقع کی گئی تھی کہ ان کے ای یو لیڈرز ایک برسلز سمٹ میں ان کی امداد کو آئیں گے۔ لیکن انہوں نے کوئی مدد نہیں کی۔ تاہم وزیراعظم کی برطانوی یونین کے ساتھ میٹنگز ہوئیں اور حزب مخالف لیبر پارٹی کے اراکین پارلیمان سے بھی ملاقاتوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔ جب کہ بعض حلقوں میں اس سارے عمل کے دوران ایک سوال یہ سامنے آتا رہا ہے کہ بریگزٹ کا امیگریشن پر کیا ممکنہ اثرات ہوں گے جب کہ بریگزٹ کے حمایتی یورپ سے نکلنے کے حق میں ایک وزنی دلیل کے طور پر امیگریشن کو ہی پیش کرتے رہے ہیں یعنی اسے منفی طور پر لوگوں میں اجاگر کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس بابت دی فنانشل ٹائمز کے اکنامکس ایڈیٹر کرس گائلز کا ایک جائزہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا بر محل ہوگا۔جنہوں نے واضح کیا ہے کہ یورپی امیگریشن برطانیہ کے لیے اچھی رہی ہے۔ اس سے معاشی بہتری آئی، عوامی مالیاتی امور بہتر ہوئے۔ اس کا انکشاف مائیگریشن ایڈاوائزری کمیٹی کی ایک جامع تحقیق سے سامنے آیا۔ البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ مائیگریشن کے تمام پہلو کارآمد نہیں ہیں اس کے فوائد برطانیہ میں یکساں نہیں ہیں اور برطانیہ میں پیدا ہونے والی آبادی ان کو ایک جیسا محسوس نہیں کرتی لیکن ای یو مائیگرانٹس کے مجموعی اثرات انخلاء مہم کے سیاستدان اور ذرائع ابلاغ جو تصور عموماً” ابھارتے ہیں اس سے بدرجہا بہتر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شمالی یورپ کے وہ ملک جو ای یو میں 2004 سے بعد شامل ہوئے ان ممالک سے متعلق باشندوں کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ برطانیہ میں دیگر کسی بھی گروپ کی نسبت زیادہ کام کرتے ہیں جس کی ایک جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عموما” جوان عمر کے ہیں اور کسی خانگی ذمہ داری کے بغیر ۔اس امر کس بھی کوئی ثبوت نہیں مل پایا کہ یہ باشندے کسی طرح مقامی برطانویوں کو ملازمتوں سے فارغ کرانے کا باعث ہیں۔ جبکہگارڈین نے لکھا ہے کہ بریگزٹ اقلیتی طبقوں کو سخت نشانہ بنائے گی یعنی ایتھنک مینارٹیز زیادہ متاثر ہوں گے وجہ یہ ہے کہ یہ پہلے سے غریب ہیں اور مزید غربت سے دوچار ہوجائیں گے مگر دونوں طرح کے سیاستدان چاہے وہ بریگزٹ کے حمایتی ہوں یا مخالف وہ اقلیتی نقطہ نظر کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں کو اقلیتی برادریوں کی ضروریات کا ادراک نہیں۔ گارڈین میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ یہ واضح کرتی ہے کہ اقلیتی گروہوں کو تین طرح نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ پہلے یہ کہ وہ پہلے سے ہی جیسا کہ اوپر بتایا ہے غربت اور افلاس سے دوچار ہیں پھر جب بریگزٹ کے بعد سب برطانوی متاثر ہوں گے نسلی اور رنگ دار لوگ زیادہ متاثر ہوں گے دوسرا یہ نفرت پر مبنی جرائم کا نشانہ بھی بنتے ہیں تیسرا ملکی خسارہ کے بھی زیادہ متاثرین اقلیتی طبقے ہی ہیں ۔ پھر اگر بریگزٹ ہوگیا تو یہ اس لیے بھی زیادہ نظرانداز کیے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کی قابل زکر تعداد نے یورپ کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا اب بریگزٹ کی صورت میں ممکنہ طور پر ان علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جاسکتے ہیں جنہوں نے علیحدگی کے لیے ووٹ زیادہ ڈالے تو اس صورت میں بھی اقلیتی باشندوں کے مزید پسماندہ رہ جانے کے خدشات ہیں حکومت اور خود اقلیتی برادریوں کے کونسلروں ، ممبران پارلیمان اور ممبران ہاؤس آف لارڈز اور دیگر پالیسی ساز افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ بحث کو اقلیتی نقطہ نظر اور بریگزٹ کے مختلف آپشنز سے اقلیتوں پر ممکنہ اثرات کی جانب بھی موڑنے کی کوشش کریں آخر میں ، اقلیتی برادریوں کے حوالے یہ بھی واضح رہے کہ اپنی پاکستانی کمیونٹی میں اس سلگتے ہوئے بریگزٹ مسئلہ پر مکالمہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حتیٰ کہ اپنے منتخب نمائندوں کی بھی واضح اکثریت فقط خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہے سو بظاہر عددی طورپر نمائندگی بڑھ گئی ہے مگر اس کا پر تو کمیونٹی میں نظر نہیں آتا۔
تازہ ترین