• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
برطانیہ15جنوری بروز منگل بریگزٹ کے حوالہ سے کئی اہم فیصلے کرنے جارہا ہے ج جس میں مرکزی نکتہ یہ ہے کہ برطانیہ کن شرائط پر یورپی یونین سے باہر آئے ۔ اگرچہ باہر نکلنے کے معاہدے پر دو سال سے حکومت کا ایک بڑا حصہ کام کررہا ہے مگر حتمی معاہدہ کو پارلیمنٹ سے منظوری ملنے کیلئے حکومت کے پاس ووٹ نہیں ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ای یو سے ایسا معاہدہ کیوں نہ حاصل کرسکی جسے وہ بآسانی پارلیمنٹ سے پاس کروا لیتی؟ حکومت کے پاس ایک اتحادی جماعت کی نشستیں ملا کر بھی صرف بارہ کی اکثریت ہے۔ لہٰذا حتمی معاہدہ کرنے سے قبل حکومت کو اپنے حمایتی ارکان سے رابطے کرکے رائے معلوم کرلینی چاہئے تھی۔ ایک زیادہ قابل قبول معاہدے کو سامنے لانے کی راہ میں مشکلات ابتدا ہی سے موجود رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو سال میں چار سینئر اور جونیئر وزراء مستعفی ہوئے البتہ وزیراعظم تھریسامے ہر مرحلہ پر پراعتماد ہیں اور آج بھی ہیں کہ ان کی طرف سے پیش کی جانیو الی ڈیل ہی ملک کیلئے اچھا آپشن ہے۔ ہر کوئی آگاہ ہے کہ ای یو سے پچاس سال پر پھیلے تعلق کو قانونی اور عملی طور پر ختم کرنا ایک آئینی جنگل میں سوئی تلاش کرنے سے کم مشکل نہیں۔ اگرچہ عملی طور پر قطع تعلق کیلئے مزید دو سال میں بھی کام ہوسکتا ہے۔ مگر وزیراعظم کی ڈیل کے اہم خدوخال بھی واضح اور شفاف نہ ہونے کی وجہ سے بھاری تعداد ایم پیز کیلئے یہ ڈیل موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں اور اس ڈیل پر ووٹنگ آج منگل کو ہورہی ہے اور ای یو مزید نرمی اختیار کرتے دکھائی نہیں دیتی۔ اس وقت پارلیمنٹ کے 625ارکان کچھ اس طرح منقسم ہیں کہ اگرچہ وزیراعظم ڈیل کے پاس معقول ممبران ہیں۔ مگر کچھ لوگوں کے خیال میں مسز وزیراعظم کو 150-200ممبران سے شکست ہوسکتی ہے۔ دوسرا بڑا گروپ بریگزٹ حمایتوں کا ہے جس میں ٹوریز کے بڑے اہم لیڈران شامل ہیں۔ مگر اس گروپ کی اجتماعی مجبوری وزیراعظم کی ڈیل ہے جس کے بعض حصوں کو یہ گروپ ملک توڑنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ لہٰذا یہ گروپ جس کی قیادت بورس جانسن ایم پی کرتے ہیں اور کچھ وزراء بھی شامل ہیں بھی اکیلے بل پاس نہیں کرواسکتا۔ لیبرپارٹی کے اندر بھی نصف درجن کے قریب ایسے ایم پیز ہیں جو وزیراعظم سکیم کی حمایت کرسکتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وزیراعظم کے نمبر پورے نہیں ہوسکتے۔ لبرلز اور ویلشن ایم پیز بھی ڈیل کو سپورٹ نہیں کررہے اور نہ ہی سکاٹش نیشنل پارٹی ڈیل کو سپورٹ کرتی ہے۔ حکومتی اپیلوں اور دبائو کے باوجود تقریباً تمام ایم پیز اپنی اعلانیہ پوزیشن پر قائم ہیں کہ کس طرح ووٹ دیں گے اور پروگرام کے مطابق 29مارچ تک یہ ملک ای یو سے باہر آجائے گا۔ اس سیاسی بے چینی نے تمام پارلیمنٹرینز کو ملک میں موجود آئینی بحران پر توجہ دینے کیلئے مجبور کردیا ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران تمام بڑے انگریزی اخبارات بھرپور انداز میں ان آئینی مشکلات پر گفتگو کررہے ہیں۔ اتوار13جنوری کے Sunday Timesاپنی صفحہ اول کی شہ سرخی ’’مخصوص برٹش انداز میں اقتدار پر قبضہ۔ ایک ایسی سازش جس میں ’’دارالعوام‘‘ تھریسامے سے اقتدار چھین سکتا ہے۔ تھریسامے کو وارن کردیا ہے کہ ان سے حکومت چلانے کی اہلیت چھین لی جائے گی اور یہ اس وقت واضح ہوا جب نمبردس پر ایک بہت بڑے پلان کے ذریعہ یہ واضح ہوا کہ سینئر ممبران پارلیمنٹ ان سے بریگزٹ معاملات اپنے ہاتھ میں لیکر انہیں ایک طرف کردیں گے‘‘ یہ ایک طویل خبر کا ابتدائی بیانیہ ہے جو غیرمعمولی نوعیت کا ہے اور ان اختلافات کا عکاس بھی ہے جنہوں نے برطانوی جمہوریت کو اپنی دبوچ میں لے رکھا ہے۔ یورپین یونین میں شمولیت کے بعد یہ دوسرا اہم آئینی اور سیاسی فیصلہ ہے جو اس قوم کو کرنا پڑ رہا ہے۔ لیبرپارٹی، لبرلز اور ایس ایل پی اس بحران سے باہر نکلنے کا دیرپا حل انتخابات سمجھتے ہیں اور کئی بار ان جماعتوں کے قائدین اپنا یہ مطالبہ دہرا چکے ہیں۔ حکومت اپنی مشکلات کی وجہ سے کسی سیف پیج پر نہیں ہے۔ اسلئے الیکشن ہار جانے کے خوف سے الیکشن نہیں کروانا چاہتی۔ پارلیمنٹ کے اندر ایک کراس پارٹی گروپ ایسا بھی ہے جو اس مسئلہ کا حل ایک مزید ریفرنڈم کی شکل میں دیکھتا ہے۔ یہ گروپ بھی معقول تعداد کا نمائندہ ہے الیکشن کے بعد دوسری مضبوط آواز ایک مزید ریفرنڈم کی ہے جسے پارلیمنٹ میں معقول حمایت حاصل ہے۔ اس مباحثہ کی ایک صورت سینئر ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے مداخلت ہے جس پر کافی دیر سے بحث چل رہی ہے۔ آلیورلٹون، ہلری بن اور چند دیگر سینئر اراکین پارلیمنٹ نہ ہی الیکشنز اور نہ ہی دوسرے ریفرنڈم کے حامی ہیں۔ انکا فارمولا ’’ناروے فارمولا‘‘ کہلاتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ موجودہ حالات میں برطانیہ کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ ناروے طرز کا ای یو سے انتظام کرلے۔ یہ فارمولا کچھ اس طرح کا ہے کہ برطانیہ بہت سے حوالوں سے ای یو سے جڑا رہے گا۔ جو کئی ممبران کو پسند ہے، برطانوی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایشو پر دو سے زیادہ چوائسز میز پر ہیں۔ داد دینی پڑتی ہے سیاسی مچیورٹی کو جو اس اہم معاملہ پر دیکھنے کو مل رہی ہے جس کسی سے بات کرو ہر باشعور فرد ملک میں پائے جانے والے عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہے۔ دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ اور عوام کی اکثریت مرکز سے چلائی جانے والی سیاست سے بھی زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے۔ لوگ اپنے ایم پیز کا پیچھا بھی کررہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں لیکن یہ بات دعویٰ سےنہیں کہی جاسکتی ہے کہ 15جنوری کے بعد ملک کی سیاست کیا رخ اختیار کرےگی کوئی بھی ہاتھ اٹھا کر کہنے کو تیار نہیں۔ وجہ؟ ہر کوئی صورتحال پر کنفیوژ ہے۔نو ڈیل بریگزٹ کےحوالہ سے حکومتی تیاریوں کی تفاصیل زیادہ واضح نہیں ہیں۔ سینئر ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے حکومت کے اندر ’’ایک اور حکومت‘‘ کا تصور قابل عمل نہیں ہے۔ بریگزٹ بات چیت میں اگر روزاول ہی سے دوسری جماعتوں کے ممبران لے لئے جاتے تو قوم کو یقیناً آج کی یہ افراتفری اور بہتوں کی نظر میں ( Chios)ہیجان سے پالا نہ پڑتا۔ 15جنوری کے بعد ابھرنے والے حالات غیرمتوازن اور ہنگامہ خیز ہوں گے۔ وزیراعظم ایک مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں، حالات جو بھی بنے انکے لئے حکومت چلانا آسان نہ ہوگا۔وزیراعظم اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے جماعت کے اندر مضبوط ہیں۔ برکسٹ ایک نہایت تقسیم کردینے والا ایشو بن کر قوم کے گلے پڑ چکا ہے۔ اس کے اردگرد جو کچھ بھی ہوا قوم کے کئی حصے اسے قبول نہیں کریں گے ، تقسیم قائم رہیگی۔ دونوں بڑی جماعتیں پسندیدگی کی تقریباً ایک ہی سطح پر ہیں۔لہٰذا اس ایشوز سے ایک جمہوری اور دیرپا انداز میں نمٹنے کیلئے اچھا ہوگا کہ وزیراعظم انتخابات کا اعلان کردیں اور نئی پارلیمنٹ جانے اور بریگزٹ جانے۔
تازہ ترین