• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کے مثالی جمہوری عمل میں اپوزیشن کا کردار بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا عوام کے ووٹوں کی اکثریت سے منتخب ہونے والی حکومت کا۔ حکومت پالیسی سازی کے ذریعے قوم کا مستقبل محفوظ اور خوشحال بنانے کی کوشش کرتی ہے تو اپوزیشن اپنی تنقید اور حکیمانہ تجاویز کے ذریعے اس کی سمت درست کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں71سال گزرنے کے باوجود جمہوری رویے اتنے پختہ نہیں ہوئے کہ سیاست میں تحمل برداشت اور استحکام نظر آتا۔ یہ صورت حال سیاسی جلسے جلوسوں میں تو دکھائی دیتی تھی، اب پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گئی ہے۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی نے قائد حزب اختلاف کے حوالے سے ایک ایسا غیر اخلاقی نعرہ لگایا جس پر احتجاجاً اپوزیشن ارکان واک آئوٹ کرگئے حالانکہ اس بدمزگی سے پہلے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی تقاریر میں جہاں حکومت کی کارکردگی اور سیاسی مسائل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا وہاں بہت سی مثبت باتیں بھی کیں جن پر عمل کر کے ملک میں سیاسی محاذ آرائی کے موجودہ ماحول کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے قائد آصف زرداری نے یقیناً حکومت پر کڑی تنقید کی جو ان کا استحقاق تھا۔ انہوں نے پوائنٹ آف آرڈر پر اپنی تقریر میں کہا کہ ملک میں اس وقت کوئی کام نہیں ہو رہا۔ اداروں کو اندر سے دیمک کھا رہی ہے۔ حکومت احتساب بیورو کو درست کرے۔ اس کی وجہ سے بیورو کریسی کام نہیں کر رہی۔ کوئی افسر فائلوں پر دستخط نہیں کرتا۔ سٹاک ایکسچینج سے 50ارب ڈالر نکل گئے ملک ناکام ریاست کی طرف گیا تو کوئی دوسرا ملک ہمیں بچانے نہیں آئے گا۔ یہ حکومت مانگے تانگے کی ہے نجانے کتنےدن چلے۔ اسے ہم نہیں گرائیں گے یہ خود کرے گی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی اسی طرح کی کافی تلخ باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو قرضے ہمیں مل رہے ہیں یہ آرمی چیف کی وجہ سے ہیں اس میں حکومت یا عمران خان کا کوئی کمال نہیں۔ مہنگائی کی شدید لہر آئی ہوئی ہے، ادویات کی قیمتیں بڑھا کر علاج ناممکن بنا دیا گیا ہے گردشی قرضہ اژدھا بن کر سامنے آرہا ہے۔ بجلی کا بحران پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ وزیراعظم کے مشیر کو دینے پر بھی سوال اٹھایا اور اس پر ایوان میں بحث کا مطالبہ کیا۔ اس طرح کی تند و تیز باتوں کے باوجود شہباز شریف اور آصف زرداری کے لہجوں میں حکومت سے قومی معاملات پر تعاون کا پیغام بھی تھا۔ خاص طور پر فوجی عدالتوں کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ حکومت بات کرے تو ہم سوچیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کی باتوں سے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں بہت پر امید ہیں وزارت اطلاعات کے ایک اجلاس میں ان کا کہنا تھا کہ ہم اصلاحات پر عمل کر رہے ہیں موجودہ حکومت ملکی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جو ملک کی حالت زار بدلنے کے لئے اپنے منشور کے مطابق ڈھانچا جاتی اصلاحات پر عمل پیرا ہے۔ ہماری کاوشوں کا مقصد ذاتی مفادات کا حصول نہیں بلکہ ملک اور عوام کی بہتری ہے۔ سٹرکچرل ریفارمز ہمیشہ تکلیف دہ مرحلے میں ہوتی ہیں مشکل کے بعد اچھا دور شروع ہو گا۔ گروہی سیاست سے بالاتر ہو کر سوچا جائے تو عمران خان کی یہ حکمت عملی ثمر بار ہو سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نیک نیتی سے مل بیٹھیں اور قومی اہمیت کے معاملات میں اتفاق رائے کے راستے تلاش کریں اور اصلاحات کا عمل مکمل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کریں یہ کام دشنام طرازی اور تلخ نوائی کے ماحول میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ایک دوسرے پر پھبتیاں کسنا اور توہین آمیز الفاظ، تراکیب اور جملوں کے استعمال سے گریز ضروری ہے۔ پالیسیوں پر البتہ بحث مباحثہ اور رائے زنی ضرور ہونی چاہئے مگر شائستگی کی حدود کے اندر۔ اس طرح ماحول کو مذاکرات کے لئے سازگار بنایا جا سکتا ہے۔ پھر مذاکرات میں دونوں فریق اپنا اپنا ایجنڈا سامنے لائیں اور اصلاحات کے لئے قانون سازی کا عمل آگے بڑھائیں۔

تازہ ترین