• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر12اکتوبر 1999کو آمریت نافذ نہ ہوتی تو اس چیز کا امکان تھا کہ مشہور زمانہ اصغر خان کیس کا فیصلہ سنا دیا جاتا جو غالباً10اکتوبر 99ء کو محفوظ کرلیا گیا تھا۔ اب یہ کیس اپنے اختتامی مرحلے میں ہے اور اگر اسی ماہ اس پر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو یہ ماہ اصغر خان صاحب کی تاریخ پیدائش جو 17جنوری ہے اور یوم وفات جو پانچ جنوری کی طرح اُن کے خاندان کے لئے بہرحال اہمیت کا حاصل ہوگا۔

سابق چیف جسٹس سعید الزماں مرحوم نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کیس مکمل ہوگیا تھا صرف فیصلہ سنانا باقی تھا۔ ’’اچھا ہوتا فیصلہ سنا دیتا مگر 12اکتوبر کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ میں نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ شروع میں یہ کیس چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے پاس تھا بعد میں انہوں نے مجھے بھیج دیا۔ میں نے سب سے پہلے جنرل (ر)اسد درانی کو جو اس وقت ملک سے باہر تھے نوٹس دے کر بلایا۔ انہوں نے پہلی بار اعتراف کیا کہ 1990کے الیکشن کے لئے اپوزیشن اور کچھ صحافیوں کو پیسے دیئے گئے تھے۔ بعد میں بیان حلفی بھی جمع کرایا اور ان افسران کے نام بھی بتائے جنہوں نے پیسے سیاست دانوں کو دیئے۔

جنرل (ر)اسلم بیگ کے بارے میں صدیقی صاحب نے کہا۔ ’’بیگ صاحب نے بھی بیان دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا ایوان صدر کے کہنے پر کیا‘‘۔

آگے چل کر سابق چیف جسٹس نے یہ بھی کہا جس دن فیصلہ محفوظ کیا اسی دن سابق وزیر داخلہ نصیراللہ بابر سابق صدر فاروق لغاری کے حوالے سے کچھ دستاویزات لے کر آئے جو رقوم لینے کے حوالے سے تھیں۔ میں نے چیمبر میں بلاکر کہا کہ فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے۔ وہ چاہیں تو الگ سے درخواست دے دیں۔ مجھے یاد ہے کہ غالباً لغاری نے اس کا جواب بھی داخل کیا تھا۔

جب 25اکتوبر کو PCO آیا تو اس سے ایک دن پہلے سعید الزماں صدیقی کو بتادیا گیا تھا ۔وہ ججز کالونی پہنچے کہ ساتھیوں کو حلف نہ لینے پر تیار کریں مگر چار پانچ کے علاوہ کسی نے ان سے جوابی رابطہ نہ کیا اور اس طرح ان کا دور ختم ہوا۔

2012میں سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں 1990کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے کر وزارت داخلہ کے ذریعہ ایف آئی اے کو مقدمات درج کرکے قانونی کارروائی کی ہدایت کی۔ اس دن سے آج تک ان افسران کا پتہ نہ ایف آئی اے کو چل سکا نہ وزارت دفاع کو جو جماعتیں اس دوران حکومتوں میں رہیں وہ اصغر خان کیس کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال تو کرتی رہیں مگر نہ پی پی پی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس معاملے میں کوئی کردار ادا کیا۔ اب عمران خان صاحب کی تحریک انصاف بھی اس معاملے میں پیچھے ہٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

حال ہی میں ایف آئی اے کی رپورٹ جو سپریم کورٹ میں جمع ہوئی اسے دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب یہ کیس بند ہونے کے قریب ہے۔ اصغر خان مرحوم کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے بقول اگر ان کے اہل خانہ نے اصرار کیا تو وہ تیار ہیں۔ ان کے ایک بیٹے علی اصغر حکومت میں ہیں۔ بہرحال معاملہ جہاں تک بھی پہنچا اسے غنیمت جانیں۔ ویسے علی کا بیان حوصلہ افزا ہے کہ وہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے گا۔

ایئر فورس کے سابق سربراہ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم اپنی پیشہ ورانہ زندگی اور سیاست میں بھی اچھی شہرت کے مالک رہے ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر یہ بات اٹل ہے کہ کوئی ان جیسا سیاست دان ہی یہ سوال اٹھا سکتا تھا کہ ہماری ایجنسیوں میں ’’سیاسی سیل‘‘ ہونے چاہئیں کہ نہیں۔ ایک بار اس حوالے سے میں نے ان سے انٹرویو کیا تو وہ بولے ’’میں نے تو ایک سوال پوچھا تھا جواب آنے میں زمانے لگے‘‘۔1990کے الیکشن سے قبل 6اگست 1990 کو بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت 18ماہ بعد ہی برطرف کردی گئی تو غالباً 9اگست کو بلاول ہائوس کراچی میں پریس کانفرنس میں انہوں نے اس کا الزام ایجنسیوں پر لگایا اور یہاں تک کہا کہ یہ لوگ خبریں بھی لگواتے تھے۔اس وقت نگراں وزیراعظم کی ذمہ داری غلام مصطفیٰ جتوئی کے سپرد کی گئی اور سندھ میں پی پی پی کا راستہ روکنے کا کام جام صادق مرحوم کو دیا گیا۔ جتوئی صاحب کا خیال تھا کہ انتخابات کے بعد وہ وزیراعظم ہوں گے، جنرل بیگ ریٹائرمنٹ کے بعد صدر ہوں گے۔ نواز شریف کو پنجاب ملے گا۔ بعد میں کیا ہوا اس کا قصہ خود انہوں نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ایک انٹرویو میں مجھے سنایا۔

’’ایسا ہی کچھ خیال تھا اور سب متفق تھے۔ یہ طے ہوا کہ آئی جے آئی میں شامل جماعتیں پشاور سے کراچی تک ریلی نکالیں گی۔ جلوس جب پنجاب میں داخل ہوئے تو کچھ جلسوں میں وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگنے لگے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ کہانی پلٹ گئی ہے۔ الیکشن ہوئے تو پی پی پی کے امیدواروں کے ساتھ ساتھ میرے نامزد امیدوار بھی ہرا دیئے گئے۔ بعد میں بیگ صاحب کو بھی صدارت نہ ملی۔‘‘

جب اس ساری صورتحال کے حوالے سے میں نے اسد درانی صاحب سے انٹرویو کیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت کی اپوزیشن اور کچھ صحافیوں میں پیسے تقسیم ہوئے۔ میرے بیان حلفی میں واضح ہے ورنہ کوئی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے اس طرح حلف نامہ جمع نہیں کراتا۔ میں نے تو اپنے سربراہ کے کہنے پر کیا۔ اس اہم ترین مقدمہ کا اصل کردار یونس حبیب ہے جس کی نوٹ بک میں آج بھی جن افراد کو پیسے دیئے گئے ان کے نام اور رقم درج ہے۔ مہران بینک کیسے بنا اور 14کروڑ کیسے ٹرانسفر ہوئے 80سالہ دبلے پتلے بینکر کو سب پتہ تھا۔ اس بینک کا جب افتتاح ہوا تو حیران کن طور پر زیادہ تر مہمان سیاست دان تھے جو جام صادق کی کابینہ کا حصہ تھے۔

جنرل حمید گل مرحوم نے کہا تھا کہ ان کا کام IJIبنانے اور بے نظیر کو دو تہائی اکثریت لینے سےروکنے کے بعد 1988میں ختم ہوگیا تھا اور 1990 کے معاملے سے ان کا تعلق نہیں۔قانونی طور پر اس مقدمے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے یہ تو پتا نہیں مگر یہ بات تو اب طے شدہ ہے کہ 1990اور شاید 1988کے الیکشن اور اس دوران جو کچھ ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کے بدنما واقعات اور بلاامتیاز احتساب پر سوالیہ نشان ہے۔

جس معاشرہ میں آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھا جائے۔ جہاں آئین بنانے والے کو پھانسی اور توڑنے والے کو نظریہ ضرورت کے تحت حق حکمرانی دیا جاتا ہو۔ وہاں رقم لینے والے انکار کرتے رہیں گے اور دینے والے کی پکڑ ممکن نہیں۔

جنرل اسد درانی کا شکریہ کہ کم از کم ایک حلف نامہ کے ذریعہ یہ تو بتادیا کہ جمہوریت کو کیسے کنٹرول کیا جاتا رہا ہے اور ان جماعتوں پر صد افسوس جو حکومتوں میں ہوتے ہوئے بھی اصغر خان کیس میں مجرمانہ طور پر خاموش رہیں۔اگر 12اکتوبر 1999نہ ہوتا تو شاید ایئر مارشل اصغر خان اپنی زندگی میں ہی فیصلہ سن پاتے۔ بہرحال ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ کم از کم ان کے سوال اٹھانے سے یہ تو پتا چلا کہ بعض سوالات کے جوابات اتنے پیچیدہ کیوں ہوتے ہیں کہ برسوں لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خان صاحب کی مغفرت کریں۔ Thank You Air Marshal۔

تازہ ترین