• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کالم کا عنوان شدھ اردو میں ۔سامعین کا ’انقلاب‘ہونا چاہئے تھا لیکن یہ سادہ عنوان رکھنے کی وجہ پنجاب کے عظیم ترین شاعر وارث شاہ ہیں۔ قارئین آپ سے معذرت بھی ہے کہ میں پچھلے کچھ مہینوں سے وارث شاہ کا تذکرہ شاید کچھ زیادہ ہی کرتا رہاہوں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ان کی عظیم تصنیف ’ہیر‘ کے ترجمے، تشریح اور تفسیر کا 1300صفحات پر محیط کام چند ہفتے پیشترہی ختم کیا ہے:یہ کتاب پانچ جلدوں میں چھپ رہی جن میں سے کچھ چھپ کر پہلے ہی بازار میں آچکی ہیں۔ جب آپ اتنے بڑے شاعر کی تخلیق میں گم ہوتے ہیں تو اس کے سحر میں آجانا فطری امر ہے۔ بہر حال وارث شاہ نے جب اپنی تصنیف ختم کی تو اس کے لکھنے ، پڑھنے اور سننے والوں کے لئے یہ دعا کی:

بخش لکھنے والیاں جملیاں نوں پڑھن والیاں کریں عطا سائیں

سنن والیاں نوں بخش خوشی دولت رکھیں ذوق تے شوق دا چاسائیں

( اے خدا [اس کتاب کے]تمام لکھنے اور پڑھنے والوں کو فہم و فراست عطا کر۔ سننے والوں کو خوشی اور دولت عطا کر اور ان کا ذوق و شوق قائم رکھ)۔

اسی طرح ایک اور عظیم شاعر میاں محمد بخش نے اپنے دور کی بے اعتنائی کا ذکرتے ہوئے ’سننے‘ والوں کے ساتھ خصوصی شکوہ کیا ہے:

اول تے کسے شوق نہ ذرہ کون قصہ اج سندا

جے سن سی تے اتلا قصہ رمزاں کوئی نہ پُندا

(اول تو آج کے زمانے میں کسی کو قصہ سننے کا شوق نہیں ہے اور اگر کوئی سنتا بھی ہے تو سطحی انداز میں اور اس کے اندر چھپے ہوئے رموزو اسرار ، تشبیہوں اور استعاروں پر غور نہیں کرتا)

وارث شاہ کو علم تھا کہ لکھنے اور پڑھنے والے کم اور سننے والی پوری خلقت ہے۔ ان کو اپنے سننے والوں کی فہم و فراست پر بھی مکمل اعتماد تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز تک آتے آتے ان ’سننے‘ والوں کی تعداد اور معیار میں کافی کمی آچکی تھی جس پر میاں محمد بخش رنجیدہ نظر آتے ہیں۔ لیکن پچھلے چالیس سال میں جو ٹیکنالوجی کا خاموش انقلاب آیا ہے اس نے پورا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے اور اب میاں محمد بخش صاحب کو اتنا زیادہ سنا جا رہاہے کہ ان کا سارا گلہ دور ہوجانا چاہئے۔

چالیس سال پہلے کے جہان میں انٹرٹینمنٹ کی دنیا پر ریاست کا پورا کنٹرول تھا :ہر چھوٹے بڑے گانے والے کو ریڈیو پاکستان اورپی ٹی وی کی سند درکار ہوتی تھی۔ یہ ادارے بڑے گانے والوں کی سرپرستی کے لئے تھوڑی سی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کر دیتے تھے، لیکن سب سے بڑی بات یہ تھی کہ جو آرٹسٹ ریڈیو اور ٹی وی پر آجاتا تھا اس کی نجی محفلوں میں بھی پذیرائی شروع ہو جاتی تھی ،جومعاشی آسودگی کی راہ ہموار کر دیتی تھی۔ اس زمانے میں دیہی علاقوں کی ایک الگ دنیا تھی جہاں مقامی زبانوں کے تھیٹر ، نقلیوں (ایک طرح کے عوامی ناٹک کار) ، قوالوں اور دوسرے گانے والوں کو سنا جاتا تھا۔ دیہی دنیا کا مہا گائیک عالم لوہار تھا جبکہ شہروں میں مہدی حسن اور فریدہ خانم کا بول بالا تھا۔

جب ریاست کا انٹرٹینمنٹ ذرائع پر کنٹرول تھا تو اکثر پروگرام ریاست کی منظور کردہ زبان میں ہوتے تھے۔ پنجاب میں ریڈیو پاکستان سے شام کو ’دیہاتی بھائیوں کے لئے پروگرام‘ کے علاوہ مقامی زبان میں زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ میرے والد صاحب جیسے بزرگ جمعہ کے دن کا شدت سے انتظار کرتے تھے کیونکہ اس دن ریڈیو سے قوالیاں سنائی جاتی تھیں جن میں پنجابی صوفیانہ شاعری بھی گائی جاتی تھی۔ ریڈیو اور ٹی وی کی انتظامیہ، پروڈیوسروں اوردوسرے پیش کاروں کے لئے مخصوص طرح کی تربیت درکار تھی۔ اس زمانے میں ’ش‘ اور ’ق‘ کی آوازیں حلق سے نکلوانے کے لئے باقاعدہ اتالیق مقرر کئے جاتے تھے۔ اس طرح کے ماحول میں غزل کی گائیکی کا راج تھا۔ لیکن غزل کی گائیکی سے محظوظ ہونے کے لئے سننے والوں کے لئے شاعری کی شُد بُد ضروری تھی۔

نئے منظرنامے میں انٹرٹینمنٹ ذرائع پر نجی شعبہ غالب آچکا ہے اور وہ ایسی چیزیں پیش کرتا ہے جس کی عوام میں زیادہ طلب ہے۔ اس بنیادی تبدیلی کا نتیجہ یہ ہے کہ غزل کی گائیکی مکمل طور پر تنزل پذیر ہو چکی ہے اور اس کی جگہ ’کافی‘ اور مقامی زبانوں کے گیتوں اور شاعری نے لے لی ہے۔ یہ رجحان ستّر کی دہائی سے پٹھانے خان جیسے گلوکاروں کی شہرت سے شروع ہوا تھا۔ اگرچہ وہ تو اس کے تجارتی فوائد سے فیضیاب نہ ہو سکے لیکن ان کے بعد آنے والے کافی اور عوامی گلوکاروں کی خوب چاندی ہوئی:اب ان گلوکاروں کی فیس بھی لاکھوں کروڑوں میں ہے ، وہ بالائی درمیانے طبقے میں داخل ہو چکے ہیں اور اشرافیہ کی کالونیوں میںرہائش پذیر ہیں۔ کوک اسٹوڈیو اور اس جیسے بہت سے نجی اداروں نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس رجحان میں دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی اور درمیانے طبقوں کی فارسی تراکیب سے آراستہ اردو شاعری سے نا آشنائی جیسے بہت سے عوامل شامل ہیں۔

اس انقلاب کے بہت سے اشارے پہلے سے موجود تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں جب پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی توپنجابی میں بننے والی فلموں کی تعداد اردو سے بڑھ چکی تھی۔ اس زمانے کا سب سے مہنگا اداکار پنجابی فلمیں کرنے والا سلطان راہی تھا۔ اب پھر سے ٹی وی کے مختلف مزاحیہ پروگراموں میں دیہی ’جگتیں‘ کرنے والے اداکاروں کی مانگ آنے والے زمانوں میں تبدیلی کا ایک واضح اشارہ ہے۔ ویسے مہنگے ترین اینکرز بھی پروگراموں میں جو زبان بولتے ہیں ان میں سے ’ش‘ ’ق‘ تو کیا اور بہت کچھ غائب ہو چکا ہے۔ اس پورے منظر نامے کو دیکھیں تو اسے وارث شاہ اور میاں محمد بخش کے ’سننے والوں ‘ کا انقلاب نہ کہا جائے تو پھر اسے کیا نام دیا جائے؟

یہاں شاید مجھے بے محل بلھے شاہ کی یہ کافی یاد آرہی ہے:

منہ آئی بات نہ رہندی اے

جھوٹھ آکھاں تے کُجھ بچدا اے

سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے

(منہ آئی ہوئی بات روکے نہیں رکتی۔ اگر جھوٹ بولوں تو ہی کچھ بچاؤ ہو سکتا ہے۔ سچ بولوں تو آگ کے شعلے نکلنے لگتے ہیں)۔

تازہ ترین