• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیا آرڈیننس پی ایم ڈی سی کی خودمختاری ختم کردے گا

اسلام آباد (عمر چیمہ) صدر عارف علوی نے ایک آرڈیننس نافذ کیا ہے جو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی خودمختاری کو ختم کر کے رکھ دے گا کیونکہ انتخاب کے نئے طریقہ کار کی وجہ سے اس کی فیصلہ ساز باڈی، کونسل، بہت حد تک سیاست زدہ ہو جائیگی۔ پی ایم ڈی سی آرڈیننس کو گزشتہ ہفتے نافذ کیا گیا، اور قانون کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی بجائے حکومت نے جلدی دکھائی اور ایڈ ہاک قانون متعارف کرادیا جو 120دن میں ختم ہو جائیگا۔ آرڈیننس کے مطابق پی ایم ڈی سی کے معاملات چلانے کیلئے بنائی گئی نئی کونسل 17اراکین پر مشتمل ہے، جن میں سے پانچ کو وزیراعظم نامزد کریں گے، دس اراکین کو چاروں صوبائی حکومتیں نامزد کریں گی جبکہ ایک کو صدر کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان اور ایک کو سرجن جنرل آرمڈ فورسز میڈیکل سروسز نامزد کریں گے۔ ایسے وقت میں جب ملک میں پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ پیشہ ور ڈاکٹروں کی تعداد 2لاکھ کے قریب ہے، میڈیکل اور ڈینٹل ڈاکٹرز کی کوئی نمائندگی نہیں ۔ 2014کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 176701ڈاکٹرز اور 15430دندان ساز لائنس ہولڈرز ہیں اور ان کی تعداد سرکاری اور نجی اداروں سے پاس ہونیوالے گریجویٹس کی وجہ سے بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت 134میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے 85ادارے پرائیوٹ ہیں۔ اگرچہ ایک مضبوط دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کونسل کی تشکیل نامزدگی کے ذریعے ہونی چاہئیے تاکہ پیشہ ورانہ مہارت کے لوگ معاملات کی باگ ڈور سنبھالیں، تاہم انتخاب کا طریقہ کار سلیکٹر کی صوابدید پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ نامزدگیاں طلب کی جاتی ہیں اور پھر انہیں اسکروٹنی کی خاطر پبلک کیا جاتا ہے تاکہ بہتریں شخصیت کا انتخاب کیا جاسکے۔ اس کے برعکس، نافذ کیا جانیوالا نیا آرڈیننس ایسا کوئی معیار قائم نہیں کرتا۔ وزیراعظم کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے تین افراد نامزد کریں جن میں قومی سطح کے پیشہ ورانہ ماہر، ایثار پسند حضرات شامل ہوں۔ تاہم ان کی پبلک اسکروٹنی کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم کو ان کی قابلیت جانچنے کا حتمی جج مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پرائیوٹ میڈیکل کالجز سے دو افراد چنیںجن کاعہدہ ایسو سی ایٹ پروفیسر کا ہو، دس سالہ بطور استاد تجربہ ہواور جو میرٹ کے معیار پر پورا اترتے ہوں، تاہم چناؤ کا طریقہ کار خفیہ رکھا جائیگاجب تک کہ نام فائنل نہ کرلئیے جائیں۔ صوبائی حکومتیں کلینک اور بنیادی سائنس فیکلٹی سے تعلق رکھنے والے 10افراد نامزد کریں گی، یہاں بھی کوئی پبلک اسکروٹنی نہیں، جس کے نتیجے میں جس کا تعلق سیاسی حکومت سے بہتر ہوگاوہ کونسل میں جگہ پا لے گااور اچھے تعلقات برقرار رکھنے تک اپنی جگہ برقرار رکھے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کونسل کی تشکیل جزوی طور پر نامزدگیوں اور باقی انتخابی عمل کے ذریعے کر سکتی تھی تاکہ میڈیکل سے وابستہ پیشہ ور ماہرین کو بھی جگہ دی جاتی۔ یہ تجویز اس کمیشن کی طرف سے دی گئی تھی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایم ڈی سی کے معاملات دیکھنے کیلئے 2015میں تشکیل دیا تھا۔کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کونسل کے قیام کیلئے انتخابی اور نامزدگی کا نظام اختیار کیا جانا چاہیے۔ لہذا رجسٹرڈ میڈیکل اور ڈینٹل پریکٹیشنر کی کٹیگری کیلئے انتخابی عمل زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ دیگر اسٹیک ہولڈرز جیسے مریض، انسانی حقوق کے رہنماوں کی کوئی نمائندگی نہیں۔ عوام کو ڈاکٹروں کی غفلت کی شکایات اور پی ایم ڈی سی کے ملزم کے بارے میں تعصب کی شکایات ہوتی ہیں، اور انہیں کونسل میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس، پرائیوٹ میڈکل کالجز جنہیں پی ایم ڈی سی ریگولیٹ کرتا ہے، کو نمائندگی دی گئی ہے جو مفادات کے ٹکراو کی صورتحال ہے۔ انہیں مریض کے طور پر نہیں بلکہ اسٹیک ہولڈ کے طور پر لیا گیا ہے۔ نئے آرڈیننس میں وزارت جو سیکریٹری کے ذریعے کام کرتی ہے، کی جگہ وفاقی وزیر کو بااختیار بنایا گیا ہے ۔ جب کبھی وزارت کو ایسا لگے کہ کونسل آرڈیننس کی کسی شق کے مطابق عمل پیرا نہیں تو وفاقی وزیر شکایت کے مندرجات انکوائری کمیشن کو بھیج سکتا ہے تاکہ سمری انداز میں تحقیق کر کے وفاقی وزیر کو رپورٹ پیش کی جائے۔ جیسا کہ پی ایم ڈی سی کو ماضی میں ان لوگوں کے ذریعے چلایا گیا جن کا پرائیوٹ کالجز کے مالکان کے سات مفادات کا ٹکراو ہے، اس مسئلے پر جزوی طور پر اس آرڈیننس میں توجہ دی گئی ہے۔ کوئی رکن اس وقت تک کونسل کے ممبرکے دفتر میں داخل نہ ہو سکے گا جب تک کہ وہ مفادات کے ٹکراو کے خلاف تحریری طور پر ڈکلیرئیشن جمع نہیں کراتا۔ تاہم اس مفادات کے ٹکراو کو نہ تو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی معلومات پبلک کی گئی ہے۔ تاہم آرڈیننس پی ایم ڈی سی کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ تمام رجسٹرڈ میڈیکل اور ڈینٹل پریکٹیشنرز کے نام اپنی ویب سائٹ پر شائع کرےجس اب تک خفیہ رکھا جاتا تھا۔ ایک اور مثبت اقدام میڈیکل ٹریبونل کا قیام ہے جس کا مقصد ان معاملات کو دیکھا ہے جن کا تعلق پی ایم ڈی سی سے ہے یعنی کوئی بھی معاملہ جو پی ایم ڈی سی کے دائرہ کار میں آتا ہے، عدالت نہیں جائیگا جب تک کہ ٹریبونل اسے نہ دیکھ ہے۔ بہت سے پرائیوٹ کالجز نے ماضی میں پی ایم ڈی سی کے ایکشن کے خلاف ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا تھا۔ پی ایم ڈی سی کونسل میں صدر کے بعد دو اہم عہدے رجسٹرار اور ڈائریکٹر فنانس ہیں۔ صدر کو کونسل کے نامزد اراکین میں سے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ رجسٹرار اور ڈائریکٹر فنانس کے لئے کوئی معیار قائم نہیں کیا گیا۔ اسی طرح میڈیکل کالجز کے انسپکٹرز بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیںکیونکہ وہ پی ایم ڈی سی کے مقرر کردہ معیار کے مطابق تعلیمی اداروں کی جانچ کرتےہیں۔ ان کے انتخاب کا بھی کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ کونسل جسے چاہے یہ کردار دے سکتی ہے۔ کونسل انسپکٹرز کی ایک فہرست کی منظوری دے گی اور صدر اسی منظور شدہ فہرست میں سے میڈیکل اور ڈینٹل انسپکٹرز تعینات کریں گے۔

تازہ ترین