• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو اپنے قیام کے پانچ ماہ بعد اپوزیشن جماعتوں کی باہمی اتحاد کیلئے عملی پیش رفت کی شکل میں بڑے چیلنج اور کڑے امتحان کا سامناہے۔ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اورمتحدہ مجلس عمل کے علاوہ حکومتی اتحاد میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما بھی گزشتہ روز قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی دعوت پر حکومت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے منعقدہ اجلاس میں شریک ہوئے جسے مبصرین حکومت کیلئے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ اجلاس میں اپوزیشن نے تجاویز تیار کر نے کی خاطر کمیٹی تشکیل دی جس میں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن)،اے این پی اورایم ایم اے کے علاوہ بی این پی مینگل کا ایک رکن بھی شامل ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومتی معاشی پالیسیاں قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہیں‘عوامی حقوق پامال ہورہے ہیں‘حکومتی بدانتظامی اور نالائقی نے عوام کو بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار کردیا ہے‘پا رلیمنٹ کے اندر اور باہر تیسرے منی بجٹ کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔ حکومت نے اپوزیشن کے اس اقدام پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان لوٹنے والا ٹولہ اکٹھا ہوگیا ہے، اپوزیشن این آر اوکیلئے دباؤ بڑھا رہی ہے لیکن احتساب کا عمل روکا نہیں جاسکتا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں وزیر اعظم نے سوال اٹھایاہے کہ کیا جمہو ریت منتخب سیا سی رہنماؤں کو کرپشن اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ کانام ہے؟ تاہم حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی اپنی پانچ ماہ کی کارکردگی اور ان یقین دہانیوں کا بھی بے لاگ جائزہ لیں جن کی بنیاد پر انہوں نے عوام سے ووٹ لیے تھے۔ اب جبکہ حکومت اپنے پانچ مہینے مکمل کرچکی ہے،یہ بات تحریک انصاف کے بہت سے نہایت مخلص اور پرجوش حامیوں کیلئے بھی جن میں کئی اہم دانش ور اور تجزیہ کار بھی شامل ہیں، سخت تشویش کا سبب ہے کہ معیشت، امن و امان، صحت اور تعلیم سمیت زندگی کے کسی شعبے میں بھی حکومت اب تک بنیادی فیصلوں اور پالیسی سازی میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، بجلی اور گیس کے بحران، دواؤں تک کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کی شکل میں عام آدمی کی زندگی روز بروز زیادہ مشکل ہوتی جارہی ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کے خوشنما دعوئوں کی بناء پر جو لوگ اس سے ہفتوں اور دنوں میں معجزات کی امیدیں لگائے ہوئے تھے ان میں مایوسی پھیل رہی ہے۔اس صورتحال کا مقابلہ سیاسی مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے سے نہیں کیا جاسکتا۔اس کیلئے تمام شعبوں خصوصاً عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے حکومتی کارکردگی کا جنگی بنیادوں پر بہتر بنایا جانا لازمی ہے۔حکومت چلانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈے سے گریز کرتے ہوئے احتساب کا معاملہ متعلقہ اداروں اور عدالتوں پر چھوڑ کر پارلیمنٹ میں اشتعال انگیزی سے پاک ایسے پرامن ماحول کا ہتمام کیا جائے جس میں قانون سازی بہ سہولت ممکن ہو کیونکہ اس کے بغیر کوئی حکومت زیادہ دیر چل نہیں سکتی۔ احتساب کے محض اپوزیشن تک محدود ہونے کا تاثر ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ حکمراں جماعت اور اس کے اتحادیوں میں سے جن افراد کے خلاف الزامات یا مقدمات ہیں، انہیں تیزی سے آگے بڑھایا جائے۔ان امور کا اہتمام تحریک انصاف کی حکومت کیلئے جسے خوش قسمتی سے ریاستی اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے، یقیناًبہتر حالات کار کا باعث بنے گا اور کسی کو اس کے خلاف تحریک چلانے کیلئے کوئی مضبوط بنیاد میسر نہیں آسکے گی۔ جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا معاملہ ہے تو یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جمہوری نظام میں طاقتور اور محب وطن اپوزیشن حکومت کو درست سمت میں چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔لہٰذا حزب اختلاف کی جماعتوں کے متوقع اتحاد کو آئینی نظام کو غیر مستحکم کرنے اور حکومت گرانے کی کوششوں کے بجائے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوری روایات کے استحکام کیلئے کام کرنا چاہیے اور ایسے تمام فیصلوں اور اقدامات سے اجتناب کو یقینی بنانا چاہیے جن سے ملک میں افراتفری اور بحران کے جنم لینے کا خطرہ ہو۔

تازہ ترین