• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عبدالقدیر خان جس نشست میں ہوں وہاں صرف تعلیم، سائنس اور تربیت پر بات ہوتی ہے۔ ہم ایک سالانہ ناشتے میں ہیں جس کا اہتمام سلطان چائولہ کرتے ہیں۔ یہاں جو بھی اہم اور ممتاز پاکستانی ہیں کراچی میں، وہ موجود ہیں۔ سینیٹر عبدالحسیب خان، سردار یاسین ملک، کمال محمودی، قاسم پیر زادہ، عارف حبیب، زبیر حبیب، ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر سید جعفر نقوی، صفوان اللہ، محب اللہ شاہ، مرزا کریم بیگ، ایس ایم منیر، ضیا عباس، اقبال یوسف۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے امرااور رئوسا کو یونیورسٹیاں اور اسپتال بنانے کا مشورہ ہی نہیں دیتے بلکہ یونیورسٹیاں بناکر دیتے ہیں۔ پہلے انہوں نے پاکستان کو باہر سے محفوظ کیا۔ اب وہ اسے اندر سے محفوظ بنانے میں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں صحت دے۔ عمردراز عطا کرے۔ اور پاکستان کے متمول حضرات و خواتین کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی توفیق دے۔

آج میں بات کرنا چاہتا ہوںطلبہ کی طاقت پر۔ دُنیا بھر میں طلبہ تاریخ کا رُخ موڑ دیتے ہیں، ان کے اندر توانائیاں تو ہوتی ہی ہیں اگر انہیں علم کی دولت میسر آجائے۔ پھر آپس میں اتحاد بھی ہو تو بڑے بڑے چیلنجوں کا بہت کامیابی سے مقابلہ کرلیتے ہیں۔ ہم تو اپنے طور پر انہیں لکھنے لکھانے کی طرف راغب کررہے ہیں۔ ’پاکستانی ادب و ثقافت۔ ماضی،حال،مستقبل‘ کے موضوع پر مضمون نویسی کا مقابلہ بہت شاندار رہا۔ ملک بھر سے نوجوانوں نے حصّہ لیا ہے۔ طالبات پیش پیش ہیں۔ ہمارے غیر مسلم ہم وطن ہندو برادری کی طالبات نے خاص طور پر عمر کوٹ سے بہت مضامین بھیجے۔ تقسیمِ انعامات میں بھی طلبہ و طالبات کی شرکت دیدنی ہے۔ کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل توشی کازو ایسو مورا بہت ہی شستہ اُردو روانی سے بولتے ہیں۔ نوجوانوں کے حوصلے بڑھاتے ہیں۔اپنی مادری قومی زبان کو ہی ترقی کا سر چشمہ بتاتے ہیں۔ سینیٹر عبدالحسیب خان بھی خوش ہیں کہ انہیں نوجوانوں سے ہم کلام ہونے کا موقع مل رہا ہے۔

پاکستان نوجوان ملک ہے۔ اس کو 60فیصد سے زیادہ آبادی اللہ تعالیٰ نے 15سے 25سال کے درمیان عطا کی ہے۔ یہی وہ عمر ہے جہاں عزائم ہیں،توانائیاں ہیں۔ نئے آفاق تسخیر کرنے کا جذبہ۔ اگر صحیح سمت میں رہنمائی ہوجائے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطّے میں انقلاب لاسکتے ہیں۔یہی طلبہ تھے،جب قائد اعظم کی قیادت میسر آئی تو انہوں نے ایک الگ مملکت قائم کردی۔ تحریک پاکستان میں طلبہ کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔دُنیا بھر میں طلبہ تاریخ کی سمت متعین کرتے رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی،سب ملکوں میں یونیورسٹیوں نے ان معاشروں کو اندھیروں سے نکالا۔

پاکستان کے ابتدائی ادوار میں بھی طلبہ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ پاکستان میں مہاجرین کی آباد کاری میں، نئے تعلیمی اداروں کے قیام میں،طلبہ و طالبات پیش پیش رہے ہیں۔ بحالی جمہوریت کی تحریکوں میں بھی طلبہ ہی ہر اوّل دستہ ثابت ہوئے۔دنیا میں کہیں بھی انسانوں پر ظلم ہوتا،بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا تو یونیورسٹیوں سے طلبہ سیل رواں بن کر سڑکوں پر نکلتے۔ حکمرانوں کو حرکت میں لے آتے۔ مجھے اپنے طالب علمی کا زمانہ یاد آرہا ہے۔ جبل پور بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مشرقی اور مغربی دونوں بازوئوں میں طلبہ نے ہی احتجاج کا کفارہ ادا کیا۔ کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی، ڈھاکہ، چٹا گانگ، اتنے بڑے بڑے جلوس نکلے کہ غیر ملکی میڈیا بھی اس کی رپورٹنگ پر مجبور ہوگیا تھا۔ یہ ایوب خان کا مارشل لاتھا۔ اس کے باوجود سڑکوں پر ہجوم تھا۔ ایوب خان نے ڈگری کو رس دو سال کی بجائے 3سال کیا۔ یونیورسٹی آرڈیننس جاری کیا تو پاکستان کے دونوں بازوئوں میں اتنا موثر احتجاج ہوا کہ حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔میں تو ان دنوں گورنمنٹ کالج جھنگ میں احتجاج کا حصّہ تھا۔ یہیں کراچی بدر طلبہ میں سے شہر شہر سے نکالے جانے والے معراج محمد خان بھی آئے۔ پھر یہاں سے بھی نکالے گئے۔

یہ وہ زمانہ ہے۔ جب ہر درسگاہ میں طلبہ یونینیںہوتی تھیں۔ سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں نہیں تھیں۔ طلبہ اپنی جگہ ایک قوت تھے۔ سیاسی جماعتوں کی منزلوں کا بھی وہ تعین کرتے تھے۔ آمرحکمرانوں نے طلبہ یونینیں ختم کیں۔ پھر طلبہ کی طاقت کو تقسیم در تقسیم کردیا گیا۔ کہیں اسلام پسند اور سیکولر کے لیبل لگائے گئے۔ کہیں انہیں زبانوں کے حوالے سے الگ الگ کیا گیا۔ کہیں نسلی تعصبات کی بنیاد رکھی گئی۔ پہلے تو یہ مناظر دیکھنے میں آتے تھے کہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں،کسی صوبے سے بھی ہوں، وہ انسانیت، پاکستان اور اسلام کی حرمت کے لئے متحد ہوکر نکلتے تھے۔ اقتدار کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ استعماری قوتیں کانپنے لگتی تھیں۔ لیکن پھر ان کے درمیان دیواریں کھڑی کردی گئیں۔ علیحدہ علیحدہ قبیلے بنادیے گئے۔ اب اندر یا باہر سے ان پر حملہ ہوتا تھاتو وہ اپنے تحفظات کے یرغمال بنے رہتے تھے۔ بلکہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیتے تھے۔ کتنی مائوں کے جگر کے ٹکڑے درسگاہوں میں خون میں نہلا دئیے گئے۔ اس طاقت کو سازشوں کے ذریعے پارہ پارہ کردیا گیا۔ اب تو کسی ایک مقصد کے لئےسب نوجوانوں کا اکٹھے نکلنا ایک خواب دکھائی دیتا ہے۔ حسرت ہی رہتی ہےکہ کشمیر میں بربریت کے خلاف کبھی سب نوجوان مل کر صرف پاکستان کا پرچم اٹھائے نکلیں۔ جہاں ظلم ہورہا ہے،وہاں تو کشمیری نوجوان پاکستان کا پرچم لے کر سڑکوں پر آتے ہیں۔پہلے طلبہ کو سیاسی، لسانی، علاقائی، نسلی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا، پھر کمرشلزم آگیا۔ سوشل سائنسز کو درسگاہوں سے نکالا جاتا رہا۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بزنس ایجوکیشن پر زور دیا جانے لگا۔ ایم بی اے کی ڈگریاں فروخت ہونے لگیں۔

فوجی ا ور سیاسی حکمرانوں نے ملکی حالات اتنے مخدوش کردئیے۔ پاکستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہتا گیا۔ پھر امریکہ، برطانیہ، جرمنی، خلیج کے ممالک کے سفارت خانوں کے باہر پاکستانی نوجوان ویزے کے حصول کی قطاروں میں نظر آنے لگے۔ حکمراں طبقہ بھی خزانہ لوٹنے میں مصروف رہا۔ غیر ملکی تعلیمی وظائف بیورو کریٹ اپنے اقربا میں بانٹتے رہے۔ درسگاہوں میں سیاسی پارٹیوں۔ مذہبی اور لسانی تنظیموں کے مسلّح کارکنوں نے غلبہ پالیا۔ یونیورسٹی کالج میں داخلے ان کے ذریعے آسانی سے ملنے لگے۔ ان سب سازشوں کے نتیجے میں طلبہ طاقت اب صرف یرغمال بن کر رہ گئی۔ اس قوت کی ڈور اب سیاسی جادوگروں کے ہاتھ میں ہے۔ وائس چانسلر، پرنسپل بھی ان سے خائف رہتے ہیں۔ اس لئےطلبہ اب وہ طاقت نہیں رہےجو تاریخ کے دھارے کا رُخ بدل دیتی ہے۔جو علمی، ادبی، نظریاتی تحریکوں کو جنم دیتی ہے۔ جو ملکی معیشت میں تحقیق کے ذریعے نئے نئے راستے تراشتی ہے۔ جو پارلیمنٹ کے ارکان کو بھی راہِ راست پر لے آتی ہے۔ جو شہروں،قصبوں میں نا انصافی کا راستہ روکتی ہے۔

نوجوان طلبہ و طالبات کو یہ زنجیریں توڑنا ہوں گی۔ اپنی توانائیاں، صلاحیتیں صرف اور صرف پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئےوقف کرنا ہوں گی۔ اندھی تقلید کی بجائے تحقیق کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ تحقیق ہی تخلیق اور تشکیل کی راہ ہموار کرتی ہے۔

تازہ ترین