• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھلا ہو جاوید ہاشمی کا، جن کی وجہ سے مجھے سوالوں کے جواب ملے، ذہن کی گتھیاں سلجھیں، کنفیوژن دور ہوئی، ورنہ میں سوچ سوچ کر تھک ہی گیا تھا کہ ہم چند دعوؤں، وعدوں کے اسیر کیوں، ہم چند بڑھکوں، نعروں کے قیدی کیوں، ہم چند چہروں، جسموں کے پجاری کیوں، ہم چند سیاسی قبروں، مزاروں کے مجاور کیوں، حالانکہ ہر بار دعوے، نعرے جھوٹ نکلے، ہر بار سیاسی قبروں، مزاروں سے کچھ نہ ملا، میں سوچ سوچ تھک ہی گیا تھا کہ ہم ایک ہی رستے پر کیوں چلتے، لٹتے رہے، ہم انہی خاندانوں کے نسل درنسل غلام کیوں، جن خاندانوں نے ہمیشہ اپنے خاندانوں کیلئے سوچا، جنہوں نے ہماری نسلیں برباد کرکے اپنی سنوار لیں، میں سوچ سوچ تھک ہی گیا تھا کہ جب ہمیں پتا کہ یہ جھوٹے، دونمبری، فراڈی، جب ہمیں معلوم کہ یہ کرپٹ، کمیشن خور، لٹ مار، لوٹ کھسوٹ کرنے والے، تب بھی ہم ان کے ہی جھولی چُک، ووٹر، سپورٹر کیوں، میں سوچ سوچ تھک ہی گیا تھا کہ جب ہمیں معلوم اصلی بھٹو اور بھٹوازم قبر میں اتر چکا، پھر بھی ہم ہر گھر سے بھٹو کیوں نکالے جارہے، جب ہمیں پتا ایک اوسط دماغ کا کاروباری ایک ڈیل زدہ سیاست کی آڑمیں تجوریاں بھر تا رہا، پھر بھی ہم اسے قائد اعظم ثانی مان کر کیوں صدقے واری جاتے رہے۔

میں سوچ سوچ تھک ہی گیا تھا کہ 70سال گزر گئے، ہم وہی اچھوت، کمی کمین، مزارعے، ہاری، پتھاریدار، بلکہ ہماری اوقات روٹی، کپڑا، مکان سے گھٹتے گھٹتے بریانی کی پلیٹ اور قیمے والے نان تک آن پہنچی، میں یہ سب روز سوچتا اور پھر یہاں پہنچ کرذہن الجھ جاتا، کنفیوژ ہو جاتا کہ یہ سب ہمارا مقدر، نصیب یا ہمارے اعمال کی سزا، یقین جانئے، ذہن ماؤف ہوجاتا، سردرد ہونے لگتا، مگر کسی جواب تک نہ پہنچ پاتا، لیکن پھر چند دن پہلے اخبار پڑھتے پڑھتے اچانک نظر جاوید ہاشمی کے بیان پر پڑی اور ساری مشکلیں آسان ہوئیں، جاوید ہاشمی نے فرمایا ’’نواز شریف کی جدوجہد جمہوریت کیلئے، ان کی خدمات قابلِ فخر، میں میاں صاحب کا ساتھی، ان کیلئے رہائی کمیٹی بناؤں گا، ان کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘، آپ کہیں گے، اس بیان میں کیا خاص بات، توٹھہرئیے اس بیان کو ذہن میں رکھ کر چند سطریں ہاشمی صاحب کی جیل ڈائریوں پر مبنی کتاب ’زندہ تاریخ‘ سے پڑھ لیں، بات واضح ہو جائے گی۔

ہاشمی صاحب لکھتے ہیں ’’لوگ کہہ رہے تھے مجھے لمبی قید میں ڈالنے کا منصوبہ، میری پارٹی کے اندر تیار ہوا، پارٹی کی حالت یہ تھی کہ بیٹی میمونہ کی جلسوں میں شرکت کو ناپسند کرنے لگی، میرے حق میں نعرے بازی ہوتی تومنع کر دیا جاتا اور قومی اسمبلی میں سب نے میری رہائی کا معاملہ اُٹھایا، خاموش تھی تو میری پارٹی‘‘، سرانجام خان نے بتایا ’’صرف آپ کی حیثیت کم کرنے کیلئے پارٹی میں 4سینئر نائب صدور کے عہدے گھڑے گئے ہیں، جیل کے دوران پارٹی اور میر ی مدد کرنے والے قیصر شیخ کو لندن بلا کر شہباز شریف نے نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز کی موجودگی میں سخت لہجے میں کہا ’’فوری طور پر جاوید ہاشمی سے تعاون بند کریں، آپ ہمارے مقابلے میں لیڈر تیار کررہے ہیں، کوئی ضرورت نہیں یہ سب کرنے کی‘‘ میرے لئےنواز شریف کا رویہ تکلیف دہ ہو چکا، ایک رات جیل جیمرز خراب ہوئے، میں نے خفیہ طور پر چھپایا ہوا موبائل نکالا، نواز شریف کو لندن فون کر کے سلام دعا کے بعد کہا ’’مجھے اس بات کا بہت دکھ کہ سوائے پرویز مشرف اور آپ کے، سب نے فضائی حادثے میں جاں بحق میری بھانجی کی تعزیت کی‘‘، نواز شریف کا جواب تھا ’’جب تک مجھے پتا چلا، بات پرانی ہوگئی، اس لئے تعزیت نہ کی‘‘، میں نے کہا ’’پارٹی عہدیداروں کی نامزدگیاں کرتے وقت میری رائے ہی لے لیا کریں‘‘ تو نواز شریف کچھ نہ بولے، میں نے نواز شریف کو پارٹی میں اپنے خلاف سازشوں کا بتایا، وہ پھر بھی خاموش رہے‘‘۔

دوستو، پہلے آپ نے ہاشمی صاحب کا اخباری بیان پڑھا اور پھر انکی کتاب سے چند سطریں، یہ ہاشمی تصویر کے دونوں ر ُخ، لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی، آگے سنیے، وہ جاوید ہاشمی جس نے مشر ف دور میں 6سالہ جیل کے دوران جان پر کھیل کر نوازشریف کو زندہ رکھا، وہی کہے ’’میں نواز شریف کی جگہ جیلیں کاٹ، ماریں کھا رہا تھا، پرویز مشرف کی وزارتِ عظمیٰ کی آفریں ٹھکرا رہا تھا اور شریف برادران اس چکر میں پڑے ہوئے تھے کہ کہیں میں اُن سے بڑا لیڈر نہ بن جاؤں‘‘، وہ جاوید ہاشمی جو تن تنہا پارٹی کو زندہ رکھے بیٹھا تھا، وہی بتائے ’’میری پارٹی میرے خلاف ہی سازشیں کرتی رہی‘‘، وہ جاوید ہاشمی جوحالات سے مایوس ہو کر سیاست چھوڑنے والے نواز شریف کو تسلیاں دیتا رہا، وہی سنائے، نواز شریف کی نظر میں میری وقعت، حیثیت اتنی بھی نہ تھی کہ پارٹی عہدیداروں کی نامزدگیوں پر جھوٹے منہ مجھ سے پوچھ ہی لیا جاتا۔

بات ابھی بھی ختم نہیں ہوئی، آگے سنئے، حالات بدلے، جاوید ہاشمی کی قید اور شریف برادران کی جلاوطنی ختم ہوئی، پھر جیلیں کاٹنے، ماریں کھانے والے ہاشمی کو انکی قربانیوں کا ایسا صلہ ملا کہ انہیں برین ہیمرج ہوگیا، قسمت اچھی تھی، زبان، چہرہ، بازو متاثرہوئے، جان بچ گئی، بے وفائیوں کے دکھ مزید بڑھے تو شریفوں سے مایوس ہو کر جاوید ہاشمی عمران خان سے جا ملے، اِدھر یہ ہوا، اُدھر والد کے جاں نثار ہاشمی صاحب کو مریم نواز نے یہ کہنے میں ایک منٹ نہ لگایا ’’ہاشمی احسان فراموش، ہاشمی بے کار، باغی نہیں داغی‘‘، حالات نے پھر پلٹا کھایا، سعد رفیق کی کوششیں رنگ لائیں، ایک منصوبے، اسکرپٹ پر عمل کرتے ہوئے عین دھرنوں کے عروج پر ایک جھوٹی سچی، مفروضوں بھری پریس کانفرنس کھڑکا کرجاوید ہاشمی نے نواز شریف کو دوبارہ قائد مان لیا، لیکن انہیں اس بار اتنی وقعت بھی نہ ملی کہ انتخابات میں خود کو ہی ٹکٹ مل جاتا، حالانکہ ہاشمی صاحب قوم کو یہ خوشخبریاں سناتے رہے کہ ’’نواز شریف ٹکٹ دینے کا وعدہ کر چکے، دینے والے، دے رہے‘‘، کیا عروج، کیا زوال۔

اب آیئے، اصل بات پر، جاوید ہاشمی کو جو شریف سیاست کے سوراخ سے بار بار ڈسے گئے، جنہیں ہاؤس آف شریفس کی ڈیلوں، کرپشن، منی لانڈرنگ، جائیدادوں، اولادوں سب کا علم، جنہیں پاناما لیکس کا پتا، جنہیں معلوم کس نے کب، کہاںلوٹ مارکی، جو جمہوریت پسند، جمہوریت کیلئے قربانیاں دینے والے، وہی جاوید ہاشمی جب نواز شریف کی کرپشن کہانی کو جمہوریت سے جوڑتے نظر آئے، جب دن دہاڑے عوام، عدلیہ، پارلیمنٹ کو بیوقوف بنا چکے نواز شریف پر فخر کرتے پائے گئے، جب 8فورمز پر جھوٹ بول کر سپریم کورٹ سے نااہلی اور سزا پانے والے کو لیڈر مان کر رہائی کی تحریک چلانے کی خواہش کرتے پائے گئے تب مجھے میرے سب سوالوں کا جواب مل گیا، ذہن کی ہر گتھی سلجھی، تمام کنفیوژن دور ہوئی او رمیں اس نتیجے پر پہنچا کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، ہورہا، یہ سب ہمارے کرموں کی سزا، اپنے اعمال کا نتیجہ، اگر پولیٹکل سائنس اور فلسفے میں ایم کرنے اور عمر بھر جمہوریت جمہوریت کرنے والے جاوید ہاشمی ہی عمر کے آخری حصے میں اتنے کنفیوژ تو پھر جہاں 22کروڑ ان پڑھوں سے گلہ، شکوہ بے معنی، وہاں قسمتوں، نصیبوں اور مقدروں پر رونا دھونا بھی فضول۔

تازہ ترین