• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اطالوی شہر وینس میں برسہا برس قبل ایک مالدار یہودی رہتا تھا جس کا نام شائیلاک تھا،وہ لوگوں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی سخت شرائط پر قرض دیا کرتا اور جب وہ لوگ بروقت واپس نہ کر سکتے تو ان کی جائیداد ہڑپ کر لیتا۔اسی شہر میں ایک اور مالدار شخص بھی آباد تھا جس کا نام انطونیو بتایا جاتا ہے۔انطونیو بہت بڑا تاجر تو نہ تھا مگر وہ ایک رحمدل شخص تھا اور لوگوں کو بوقت ِ ضرورت بلاسود اُدھار پیسے دینے کے حوالے سے مشہور تھا۔انطونیو کا سامنا جب بھی شائیلاک سے ہوتا تو وہ اسے خوب ملامت کرتا اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے پر کوسنے دیتا۔ شائیلاک یہ باتیں سن کر مُٹھیاں بھینچتا رہ جاتا اور دل ہی دل میں سوچتا کہ کسی روز موقع ملا تو کاروبار پر لات مارنے والے انطونیو کو سبق سکھائوں گا۔اور پھر ایک بار یہ موقع آہی گیا۔انطونیو کے دوست بسانیو کوکسی مالدار خاتون سے شادی کرنا تھی اور اسے تین ہزار ڈکٹ (اس وقت کی مقامی کرنسی)کی ضرورت تھی۔ جب بسانیو نے اپنے دوست سے قرض مانگا تو اس کے پاس نقدی موجود نہ تھی کیونکہ اس نے مال و اسباب منگوا رکھا تھا۔ انطونیو اپنے دوست کو مایوس نہیں کرنا چاہتاتھا۔ اس لئے اس نے بادل نخواستہ شائیلاک سے سود پر قرض لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے شائیلاک سے کہا کہ اس کے مال و اسباب سے لدے جہاز چند روز بعد پہنچنے والے ہیں،ان کی ضمانت پر تین ہزار ڈکٹ قرض دیدو اور جتنا چاہے سود لے لو۔ شائیلاک نے کہا کہ وہ یہ رقم بغیر کسی سود کے قرض دے گا البتہ ازراہ تفنن اسے وکیل کی موجودگی میں ایک معاہدے پر دستخط کرنا ہونگے کہ بروقت رقم واپس نہ ہو سکی تو انطونیو کے دل کے قریب ایک پونڈ گوشت کاٹا جا سکے گا۔

رقم مل گئی تو بسانیو مالدار خاتون پورشیا سے شادی کرنے روانہ ہوگیا۔ وہاں سب معاملات طے پا گئے اور شادی ہو گئی تو اسے قاصد کے ذریعے ایک خط موصول ہوا جسے پڑھ کر وہ پریشان ہوگیا۔ پورشیا کے معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے دوست انطونیو سے قرض لے کر شادی کرنے آیا تھا اور اب اس خط کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ انطونیو کے تمام جہاز لاپتہ ہو گئے ہیں اور شائیلاک طے شدہ شرط کے مطابق ایک پونڈ گوشت کاٹنے کے درپے ہے۔ اس کی بیوی جو بہت مالدار تھی اس نے کئی گنا زیادہ رقم دے کر اسے دوست کی مدد کرنے بھیج دیا۔بسانیو نے شائیلاک کو کئی گنا تاوان دیکر منانے کی کوشش کی مگر وہ مُصر تھا کہ ایک پونڈ گوشت کے علاوہ اسے کچھ نہیں چاہئے۔ اس دوران بسانیو کی بیوی پورشیا نے اپنے ایک رشتہ دار قانون دان سے مشاورت کی اور وکیل کا بھیس بدل کر وینس جا پہنچی۔اسی روز وینس کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہو رہا تھا۔ پورشیا نے انطونیو کی وکالت کے لئے خود کو پیش کر دیا۔ دوران ِ بحث پورشیا نے اثر انگیز گفتگو کے ذریعے شائیلاک کو رحمدلی پر مائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ بسانیو نے التجا کی کہ طے شدہ معاہدے کو دوبارہ دیکھا جائے شاید اس میں کوئی گنجائش نکل آئے۔ اقرار نامہ پیش ہوگیا۔ پورشیا نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ اس اقرارنامے کی رو سے تو شائیلاک کو ایک پونڈ گاشت کاٹنے کا حق حاصل ہے اور اس میں کسی قسم کی گنجائش موجود نہیں۔ شائیلاک بہت خوش ہوا اور چھری تیز کرنے لگا۔ جب وہ انطونیو پر وار کرنے کے لئے آگے بڑھا تو پورشیا نے کہا،رُک جائو۔ ترازو کہاں ہے اور کیا کوئی طبیب یہاں موجود ہے ؟اس نے حیران ہوکر پوچھا،کیا مطلب ؟پورشیا نے کہا،دیکھو ! شرط یہ ہے کہ تم ایک پونڈ گوشت کاٹو گے،خون کا کہیں ذکر نہیں۔ اب اگر تم نے گوشت کاٹتے ہوئے ایک بھی قطرہ خون کا بہایا تو تم قاتل ٹھہرو گے اور گوشت ایک پونڈ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے اگر ایسا ہوا تو وینس کے قوانین کی رو سے تمہاری تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بحقِ سرکار ضبط ہو جائے گی اور تمہیں سزا بھی دی جائے گی۔طبیب کاہو نا اس لئے ضروری ہے کہ اگر تم خون بہا کر انطونیو کی جان لینے کی کوشش کرو تو اس کی زندگی بچائی جا سکے۔ عدالت میں موجود سب لوگ وکیل کی ذہانت و فطانت پر اش اش کرنے لگے۔ شائیلاک گھبرا گیا اور اس نے کہا کہ مجھے تاوان کیساتھ جو رقم دی جا رہی تھی وہی قبول ہے۔ بسانیو رقم ادا کرنے لگا تو پورشیا نے کہا،ٹھہرجائو۔یہ کسی چیز کا حقدار نہیں۔ اس نے ایک شخص کی جان لینے کی کوشش کی ہے اس لئےاس کی ساری جائیداد بحقِ سرکار ضبط ہوچکی ہے، باقی رہی سزا تو اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ عدالت نے اس شرط پر اسے معافی دیدی کہ آدھی جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی جائے گی جبکہ باقی آدھی جائیداد انطونیو کو دیدی جائے گی۔ یوں نہ صرف انطونیو کی جان بچ گئی بلکہ چند روز بعد اس کے گم شدہ بحری جہاز بھی واپس مل گئے۔

یہ خلاصہ ہے شیکسپیئر کے شہرہ آفاق ناول وینس کے سوداگر (The Merchant of Venice)کا۔ جب سپریم کورٹ کا لارجر بنچ نوازشریف،مریم اور کیپٹن (ر)صفدر کی سزا معطلی اور ضمانتوں سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کر رہا تھا تو نامزد چیف جسٹس،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسپیشل پراسیکیوٹر نیب کی گوشمالی کرتے ہوئے کہا کہ اگر اب میں نے شیکسپیئر کے ناول مرچنٹ آف وینس کا حوالہ دیا تو مجھ پر ناول کی بات کرنے کا الزام لگ جائے گا۔ یعنی نیب ایک پائو گوشت کاٹنے پر اصرار کرے گا تو پھر لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ توقع تو یہ تھی کہ اس مقدمے میں حسب وعدہ 17قانونی نکات پر بات ہوگی اور بنیادی اصول وضع کئے جائیں گے، مگر جب خواجہ حارث نے بات کرنا چاہی تو انہیں خاموش کروا کے نیب پراسیکیوٹرسے دلائل دینے کو کہا گیا اور پھر نیب کی اپیل خارج ہوگئی۔گویا نوازشریف کو پورشیا کی طرح کوئی ذہین و فطین وکیل تو میسر نہ آیا البتہ قسمت کی دیوی جو طویل عرصہ سے روٹھی ہوئی تھی، وہ مہربان ہوئی تو انہیں ریلیف مل گیا۔ بظاہریوں لگتا ہے کہ انطونیو کی طرح نوازشریف کی مشکلات دور ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب نہ صرف عدالتی جنگ کا پانسہ ان کے حق میں پلٹ رہا ہے بلکہ لگتاہےکہ کھوئے ہوئے مال بردارجہاز بھی بعض نئی شرائط پر واپس دلانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔مجھے تو امریکہ کے سابق صدر روزویلٹ کے الفاظ یاد آرہے ہیں،سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طورپر نہیں ہوتا،اگر کوئی حادثہ بھی ہو تو آپ شرطیہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

تازہ ترین