• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیاقت باغ ایک تاریخی جلسہ گاہ ہے،جسکے اطراف مصروف ترین شاہراہ مری روڈ (بے نظیر بھٹو روڈ ) اور کالج روڈ پر ہر وقت زندگی کی صورت ٹریفک رواں دواں رہتی ہے ۔لوگ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔کتنی بھی سنسانیت ہو یا رات کا کوئی بھی پہرہو، لیاقت باغ کے ارد گرد آپکو زندگی رواں دواں ہی نظر آتی ہے ۔اردگرد کی ان شاہراہوں پر بجنے والے ہارن ، دھواں اڑاتی گاڑیاں ،سواریوں کے لیے آوازیں لگاتے پبلک ٹرانسپورٹ کے اہلکار ، پھل فروٹ، مونگ پھلی اور پتیسے بیچتے خوانچہ فروش سب اپنے اپنے کام میں مست نظر آتے ہیں۔ٹریفک کے جلتے بجھتے سگنلز اور گاڑیوں کو گزارتے چورا ہے ،تندوروں میں روٹیاں لگانے والے نانبائیوں کے ہاتھوں کی تھپ تھپ اور ٹکاٹک والوں کی ٹک ٹک کی ساری رونقیں بحال نظر آتی ہیں ۔لیکن آپ صرف ایک قدم کے فاصلے پر لیاقت باغ کے اندر داخل ہو جائیں اور لیاقت باغ کے درو دیوار کو غور سے دیکھیں یا اس کی جلسہ گاہ کے اسٹیج پر نظر ڈالیں یا یہاں اونچے اونچے درختوں کو دیکھیں اور ان درختوں پر بیٹھے پرندوں پر نگاہ ڈالیں ،ہلکی ہلکی چلنے والی ہوا کی سرسراہٹ سنیں تو آپ کو اداسی نظر آئے گی ۔کیونکہ اس لیاقت باغ کی مٹی ،درختوں ، پتوں اور ماحول نے لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کا خون ہوتے دیکھا ہے ۔بلکہ 27دسمبر کو اس اندوھناک واقعہ کے دوران کئی انسانی جسموں کی لاشوں کو گرتے دیکھا ہے ۔جس میں بے نظیر بھٹو کے علاوہ شہید ہونے والے 23پارٹی کے چھوٹے کارکن بھی شامل تھے ، جنمیں کوئی معمولی ملازم تھا۔تو کوئی ریڑھی لگاتا تھا،کوئی چھوٹی موٹی مزدوری کرتا تھا ۔تو کوئی بے روز گاری کی مصیبت میں مبتلا تھا۔لیکن سب لوگ اپنی پارٹی کے وفادار اور بے لوث کارکن تھے ۔اپنی لیڈر کے اردگرد حصار قائم کرنے والے ان شہیدوں میں محمد رفیق المعروف کالا خان بھی تھااور آصف ثمر بھی ۔شیخ جاوید اقبال ،راجہ حبیب اور جمیل مغل بھی سڑک پر جان دینے والوں میں شامل تھے ۔زندگی بچ جانے کے باوجود ساری عمر معذوری کا بوجھ پالنے والوں میں اختر سعید پپا ، وحید احمد ، راجہ ریاض ، خواجہ امتیاز، شبیر پپی،حسنین ، ریاض کھوکھر اور محمد انور بھی شامل تھے ۔ان میں کوئی بیساکھیوں پر ہے تو کوئی آنکھ کی روشنائی ضائع کئے بیٹھا ہے ۔کسی کی بیوہ محنت مزدوری کر رہی ہے تو کسی کا بیٹا اب زندگی کی ریڑھی کھینچ رہا ہے ۔بے نظیر بھٹو تو پورے ملک کی لیڈر تھیں اُنہیں دنیا جانتی تھی انکی شہادت پر نہ صرف پاکستان کے سیاسی رہنما اور کارکنوں نے افسوس کا اظہار کیا۔بلکہ دنیا بھر کی لیڈر شپ نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ ان کی پالیسوں سے اختلاف کرنے والے اور سیاسی مخالفین بھی انکی شہادت پر غمناک نظر آئے ۔بلکہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ میاں محمد نواز شریف تو ساری سیکورٹی اور حفاظتی اقدامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سنٹرل ہسپتال پہنچ گئے تھے ۔حالانکہ اسوقت پارٹی کے جیالے غضبناک ہو رہے تھے میں بھی آج 27دسمبر کو بے نظیر بھٹو کو ساری قوم کی طرف سے خراج عقیدت پیش کرتا ہو ں لیکن اس سے بڑھکر میں ان جیالوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جو سانحہ کارساز ہو یا لیاقت باغ کا سانحہ یا خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد شہید ہونے والے بشیر بلور اور دیگر کارکن جنہوں نے زندگی کے نذرانے پیش کئے کیونکہ یہ کارکن چاہے کسی بھی سیاسی جماعت میں ہو ں یہ اصل پاکستانی ہیں ۔اور بالآخر انہی کے ذریعے اس ملک کی تقدیر بدلنی ہے ۔لیکن یہ تقدیر اسوقت بدلے گی جب یہ کارکن اپنی لیڈرشپ اور پارٹی کے لیے قربانیاں دینے کے ساتھ ساتھ اپنی لیڈر شپ سے یہ سوال بھی کرینگے کہ انہوں نے ہمارے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے یا انہوں نے ہماری تقدیریں بدلنے کے لیے کیا اقدامات کئے ہیں۔ہماری آنے والی نسلوں کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے سبز پاسپورٹ کی توقیر کے لیے کیا کیا ہے،دہشت گردی اور کرپشن کے لے کیا کیا قانون سازی کی ہے ۔یا صرف ان شہیدوں کے خون اور لاشوں پر اقتدار کے محل تعمیر کئے جاتے رہیں گے ، نہ ملک کی حالت بدلے گی اور نہ ہی ان غریب سیاسی کارکنوں کی جو حقیقی پاکستان ہیں .
تازہ ترین