• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس کھوسہ: کیریئر میں 11ہزار فوجداری سمیت 55 ہزار مقدمات کا فیصلہ سنایا

لاہور (صابر شاہ) نئے آنے والے چیف جسٹس آف پاکستان، آصف سعید کھوسہ 20دسمبر 2019تک 336دن کیلئے ملک کے 26ویں چیف جسٹس ہوں گے۔ وہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں جنہوں نے 362دنوں تک عدلیہ کی سربراہی کی تھی۔ جنگ گروپ اور جیو ٹیلی وژن نیٹ ورک کی جانب سے کی جانیوالی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی سسر اور داماد عدالت عظمی کے سربراہ نہیں رہے، جو بلاشبہ ایک امتیازی خوبی ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہونے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ پاکستان کے 15ویں چیف جسٹس ہوں گے جنہیں گزشتہ 71سالوں میں لاہور ہائی کورٹ سے ترقی دے کر چیف جسٹس بنایا گیا۔ آصف سعید کھوسہ جو 18جنوری 2019کو 64سال اور 28دن کی عمر میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے، 31دسمبر 2016سے سپریم کورٹ کے سینئر جج رہے ہیں۔ دسمبر 2018میں قومی پریس میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ چار سالوں میں ریکارڈ 11ہزار فوجداری مقدمات نمٹائے۔ اپنے تقریبا دو دہائیوں پر مشتمل کیرئیر میں انہوں نے مجموعی طور پر 55ہزار کیسز کا فیصلہ کیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی دو بیٹیاں اور چار نواسے ہیں، انہوں نے 1969میں ملتان بورڈ سے میٹرک میں پانچویں پوزیشن حاصل کی، 1971میں لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ سے پہلی پوزیشن اور 1973میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے تحت بیچلرز کے امتحان میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی ، جس کے بعد 1975میں یونیورسٹی آف پنجاب سے انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر میں ماسٹرز مکمل کیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ اس کے بعد کوئنز کالج سے قانون میں ٹرائیپوس پارٹ ون مکمل کرنے 1977میں یونیورسٹی آف کیمبرج انگلینڈ چلے گئے جہاں بعد کے سال میں انہوں نے ماسٹرز آف لاء کی ڈگری حاصل کی۔ 1979میں انہیں سوسائٹی آف لنکنز ان لندن کے بار میں مدعو کیا گیا جہاں سے وہ بیرسٹر ایٹ لاء بنے۔ یہ وہی ادارہ ہے جہاں قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، ذوالفقار علی بھٹو، بھارتی چیف جسٹس مرزا ہدایت اللہ اور مرزا حمید اللہ بیگ، پہلے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان، نیب کے موجودہ سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال، بھارتی صدر شنکر دیال شرما، سابق اسرائیلی صدر چیم ہرزوگ اور مارگریٹ تھیچر، ولیم پٹ جیسے متعدد برطانوی وزرائے اعظم یہاں کے طلباء رہے۔ 1422میں قائم ہونے والے ادارے لنکنز ان کو ججز اور وکلاء کا معتبر ترین ادارہ شمار کیا جاتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ 1979میں لاہور ہائی کورٹ کے وکیل بنے اور 1985میں انہیں سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے کی اجازت ملی۔ مئی 1998میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور فروری 2010میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ تین نامور بھائیوں کا گروپ:جسٹس کھوسہ کے نامور بھائی سابق بیوروکریٹ ناصر محمود کھوسہ اور سابق آئی جی پولیس بلوچستان طارق محمود کھوسہ ہیں۔ ناصر کھوسہ نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری ، اور مختلف اوقات میں چیف سیکریٹری پنجاب اور بلوچستان کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیئے۔ ناصر کھوسہ نے 2013سے 2017تک عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ 28مئی 2018کو عام انتخابات سے قبل ناصر کھوسہ کو پنجاب کا نگراں وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا تھا۔ ان کی نامزدگی تحریک انصاف نے کی تھی جسے شہباز شریف نے بھی قبول کیا تھا تاہم 30مئی 2018کو ان کی نامزدگی واپس لے لی گئی، جس کے بعد ناصر کھوسہ نے خود ہی نگراں ذمہ داریاں سنبھالنے سے معذرت کر لی۔ دریں اثناء 2011میں طارق محمود کھوسہ کو بدنام زمانہ میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔ اس اسکینڈل کے نتیجے میں امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی فارغ ہوئے تھے۔ طارق کھوسہ، جو بے داغ شہرت کے حامل ہیں ، کو میموگیٹ میں حقائق سامنے لانے کی ذمہ داری سپریم کورٹ نے دی تھی۔ طارق کھوسہ کے کھاتے میں بعض بڑے کیسز کی تحقیقات میں کامیابیاں ہیں جن میں اہم سرکاری اراکین اور سیاسی نمائندے ملوث تھے۔ اپنے طویل کیرئیر میں انہوں نے بطور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، آئی جی پولیس بلوچستان، ڈی جی نیشنل پولیس بیورو اور ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 2011میں ریٹائرمنٹ سے قبل انہوں نے وفاقی سیکریٹری نارکوٹکس ڈویژن کی حیثیت سے کام کیا۔ بعد ازاں طارق کھوسہ نے پاکستان میں اقوام متحدہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائم کیلئے قانون کی حکمرانی اور فوجداری انصاف کیلئے مشیر کے طور پر کام کیا۔ وہ 2012تک فرانس میں قائم انٹرپول کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ دسمبر میں ریٹائرمنٹ پر جسٹس آصف سعید کھوسہ ان 10پاکستانی چیف جسٹس میں شمار ہوں گے جنہوں نے ایک سال سے کم اس عہدے پر کام کیا۔ پاکستان میں محمد حلیم نے سب سے طویل مدت تک بطور چیف جسٹس فرائض سرانجام دئے، جس کی مدت 3ہزار 205دن بنتی ہے، جبکہ محمد شہاب الدین سب سے کم مدت تک چیف جسٹس رہے جو حلف اٹھانے کے 9دن بعد انتقال کر گئے۔ دریںاثناء افتخار چوہدری پاکستان کے وہ واحد چیف جسٹس ہیں جنہوں نے تین غیرمتواتر ادوار میں فرائض سرانجام دئے، اور ان کا دور 2ہزار 480دنوں پر مشتمل ہے۔ درج ذیل پاکستان کے تمام سابقہ چیف جسٹس اور قائم مقام چیف جسٹس کے نام اور ان کا معیاد عہدہ ہے۔ سر میاں عبدالر شید (1826ایام)، محمد منیر (2134ایام)، محمد شہاب الدین (9ایام)، اے آر کورنیلس (2848ایام)، ایس اے رحمٰن(94ایام)، فضل اکبر (166ایام)، حمودالرحمٰن (2538ایام)، یعقوب علی (691ایام)، انوارالحق (1279ایام)، محمد حلیم (3205ایام)، افضل اللہ (1203ایام)، نسیم حسن شاہ (362ایام)، سعد سعود جان (50ایام)، سجاد علی شاہ (1276ایام)، اجمل میاں (550ایام)، سعید الزماں صدیقی (209ایام)، ارشاد حسان خان (711ایام)، بشیر جہانگیری (24ایام)، شیخ ریاض احمد (698ایام)، ناظم حسین صدیقی (546ایام)، افتخار محمد چوہدری (2480ایام)، قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال (15ایام)، قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس (87ایام)، عبدالحمید ڈوگر (504ایام)، تصدق حسین جیلانی (176ایام)، ناصر االملک (438ایام)، جواد ایس خواجہ (23ایام)، انور ظہیر جمالی (477ایام) اور میاں ثاقب نثار (747ایام)۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ متعدد بنچز کے رکن رہے اور ہائی پروفائل کیسز میں تاریخی فیصلے لکھے۔ آصف سعید کھوسہ وہ منصف ہیں جنہوں نے فیصلہ دیا تھا کہ ایک فوجداری کیس میں دوسری ایف آئی آر رجسٹرڈ نہیں کی جاسکتی۔ وہ اس سات رکنی بینچ کے رکن بھی رہے جس نے 2010میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا، اور اس بنچ کی بھی سربراہی کی جس نے پانامہ کیس کی سماعت کی اور جس کے نتیجے میں آرٹیکل 62ون ایف کے تحت وزیراعظم نواز شریف نا اہل ہوئے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کے کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ 77صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں 6اضافی صفحات لکھے۔ اس کیس میں انہوں نے عظیم برطانوی شاعر جون ڈون کی نظم ’’کس کیلئے گھنٹی بجائیں‘‘کا حوالہ بھی دیا تھا ، جس کے مطابق ’’ہر آدمی کی موت مجھے گھٹا دیتی ہے کیونکہ میں انسانیت میں شامل ہوں‘‘۔ انہوں نے وہ فیصلہ بھی لکھا جس کے تحت ن لیگی سینیٹر نہال ہاشمی کو ایک ماہ کی سزا سنائی گئی، اگرچہ نہال ہاشمی نے غیرمشروط معافی مانگ لی تھی۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بھی تھے اور اس حیثیت میں انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ہٹائے جانے سے متعلق اظہار خیال تحریر کیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا سلمان تاثیر قتل کیس اور آسیہ کے مقدمات کے فیصلوں میں اہم کردار تھا۔

تازہ ترین